غیر شرعی وی پی این

تحریر: حبیب الرحیم

Spread the love

اسلامی نظریاتی کونسل کے فتویٰ کے بعد سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر حکومتی اداروں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ مذہب کو اپنے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، دوسری جانب ایک اہم ائینی ادارے کے سربراہ کی طرف اس قسم کے بیان سے عام لوگوں میں شدید تشویش پایا جاتا ہے۔ ایک طرف اگر یہ ادارہ اپنے کام کے لحاظ سے منفرد ہے تو دوسری جانب اس ادارے کے ممبران بھی اپنے علم اور دانست میں خاص ہوتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل اگرچہ ایک آئینی ادارہ ہے لیکن آئین پاکستان نے اس کی حدود و قیود کو واضح کر دیا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 229 اور 230 کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل صدر پاکستان، گورنر ، مقننہ یا صوبائی اسمبلی کی درخواست پر قانون سازی کی دوران قانون یا اس قانون کی کسی بھی شق کو قران اور سنت کی موافق ہونے یا نہ ہونے کی رائے دی سکتی۔جو کہ 15 دن کے اندر اندر رائے دینا ہوگی ۔ اس طرح اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیادی ذمہ داری مقننہ اور صوبائی اسمبلیوں کو ایسی تجاویز اور شفارشات دینا ہے جو ملک میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق گزارنے میں حوصلہ افزائی کی جائے۔ اب ان تجاویز اور شفارشات کو قانون کی شکل دینا یا نہ دینا مقننہ یا صوبائی اسمبلیوں کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی نے چند روز قبل وی پی این کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اسے بند کرنے کی شفارش کی تھی۔ اگر چہ علامہ صاحب کا قول اس حد تک درست ہے کہ جو چیز گمراہی کی طرف لےجائے، خواہ وہ خود ممنوع نہ ہو تو وہ ممنوع ہو جاتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ وی پی این بہت سے غیر اخلاقی مواد تک رسائی ممکن بناتا ہے۔ لیکن اس پر اعتراض اس لیے ہے کہ علامہ صاحب کی رائے اس وقت منظر عام پر آئی ہے کہ پاکستان میں x سابقہ ٹویٹر پر پابندی کے بعد کے xکے استعمال کا واحد طریقہ وی پی این ہے۔ اس سے پہلے نہ تو اسلامی نظریاتی یا کسی دوسری تنظیم نے کسی سافٹ ویئر یا اپلیکشن کو حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی کارروائی کی شفارش کی گئی ہے۔ لیکن پاکستان میں ایک کے بعد ایک ہر ادارے کو اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ یوں تو پاکستان میں مذہب کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کہانی پرانی ہے لیکن لوگوں میں مذہبی فہم کے فقدان کی وجہ سے اکثر بااثر لوگ اسے اپنے ذاتی مفادات کے تناظر میں بدریعہ استعمال کرتے چلے ارہےہیں۔ حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل کا وجود بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے اور اب تک اسلامی نظریاتی کونسل کا کوئی قابل تعریف کام بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شفارشات کونسل نے کی نہیں ہے بلکہ حسب معمول ان سے کرواگئی ہے۔ اگر کونسل اسطرح پاکستان کی روزمرہ کی حالات کو مد نظر رکھتا تو بہت سے ایس اہم مسائل ہے جوکہ علامہ صاحب کی طرح لوگوں کے خاموشی ٹھوڑنے کے منتظر ہیں۔ کونسل نے ابھی تک جبری گمشدگیوں کے حوالے سے قانونی سازی کا کوئی سفارش نہیں کی ہے اور نہ ہی جبری گمشدگی کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔ اگرچہ ملک کا سب سے اہم مسئلہ جبری گمشدگیوں کا ہے لیکن کونسل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اسطر ح مملکت خداد اد میں بے شمار مسائل ہے مگر کوئی فتویٰ جاری نہیں ہوا کوئی شفارش نہیں ہوئی۔ یوٹیوب اور دیگر ایپلی کیشنز پر بہت زیادہ غیر اخلاقی مواد موجود ہے، لیکن کیا یہ اس لیے شرعی ہے کیونکہ اس کی ممانعت کا تا حال حکم کونسل کو نہیں ملا ہے یا کوئی اور معقول وجہ ہے؟ اگر حلال و حرام کا معیار اسلامی قوانین اور اصولوں کو سامنے رکھ کر کیا جائے تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن مذہب کا نام لیے کر مقصد ذاتی مفادات کا حصول ہو تو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں خواہ فتویٰ کسی بھی علامہ صاحب سے جاری کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button