رسم کافر رواج قاتل فضول خرچی زندہ باد؟

تحریر: اسماعیل انجم تیمرگرہ

Spread the love

 

31 اکتوبر کو دنیا بھر میں عالمی کفایت شعاری کا دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت آج کے معاشی بحران کے دور میں اور بھی بڑھ گئی ہے۔ کفایت شعاری محض پیسے بچانے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ذہنی رویہ اور زندگی گزارنے کا طریقہ ہے جو ہمیں مستقبل کی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں فضول خرچی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور مسلسل مارکیٹنگ کی وجہ سے لوگ ضرورت سے زیادہ خریداری کر رہے ہیں۔ نتیجتاً گھریلو بجٹ خسارے کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف انفرادی سطح پر پریشانی کا باعث بن رہی ہے بلکہ قومی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔

کفایت شعاری کو فروغ دینے کے لیے ہمیں چند اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:

## گھریلو بجٹ کی تیاری
ہر گھرانے کو ماہانہ آمدن و اخراجات کا بجٹ تیار کرنا چاہیے۔ اس سے ضروری اور غیر ضروری اخراجات کی شناخت میں مدد ملے گی۔باقاعدہ بچت کی عادت ڈالیں۔ چھوٹی رقم سے شروعات کریں اور آہستہ آہستہ اسے بڑھائیں۔ یہ آپ کے مستقبل کے لیے مالی تحفظ کا ذریعہ بنے گی۔

خریداری سے پہلے اس کی حقیقی ضرورت کا جائزہ لیں۔ صرف وہی چیزیں خریدیں جو واقعی درکار ہوں۔ فیشن اور برانڈ کے پیچھے بھاگنے سے گریز کریں۔

اپنے بچوں کو بچپن سے ہی پیسے کی اہمیت اور کفایت شعاری کے اصولوں سے آگاہ کریں۔ انہیں پاکٹ منی کا بہتر استعمال سکھائیں۔

بجلی، گیس اور پانی کے استعمال میں احتیاط برتیں۔ غیر ضروری بجلی کے آلات بند رکھیں۔ یہ نہ صرف آپ کا بل کم کرے گا بلکہ ماحولیات کے تحفظ میں بھی معاون ثابت ہوگا۔

غذائی اسراف سے اجتناب کریں،
کھانے کی اشیاء کی خریداری میں احتیاط برتیں۔ صرف اتنا خریدیں جتنا استعمال کر سکیں۔ بچے ہوئے کھانے کو محفوظ طریقے سے استعمال کریں۔

کفایت شعاری کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف ہماری ذاتی زندگی کو بہتر بنائے گی بلکہ معاشرتی سطح پر بھی مثبت تبدیلی کا باعث بنے گی۔ آئیے ہم سب مل کر کفایت شعاری کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور ایک خوشحال معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔

یہ یاد رکھیں کہ کفایت شعاری کنجوسی نہیں، بلکہ دانشمندانہ انداز میں وسائل کا استعمال ہے۔ اس سے نہ صرف ہمارا ذاتی مستقبل محفوظ ہوگا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک مستحکم معاشی بنیاد فراہم ہوگی۔

کیا فضول خرچی معاشرے کی تباہی کا پیش خیمہ ہے؟

آج کے دور میں فضول خرچی ایک ایسی سماجی برائی بن چکی ہے جو ہماری معاشی اور معاشرتی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ نمود و نمائش کی ہوس میں انسان اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے لگا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف معاشی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں بلکہ سماجی اقدار بھی متاثر ہو رہی ہیں۔

موجودہ دور میں سوشل میڈیا، شاپنگ مالز اور آن لائن خریداری کی سہولتوں نے فضول خرچی کے رجحان کو مزید ہوا دی ہے۔ لوگ اپنی اصل ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے، محض دکھاوے کے لیے غیر ضروری اشیاء کی خریداری میں مصروف ہیں۔ شادی بیاہ، تقریبات اور تہواروں پر بے جا اخراجات عام ہو چکے ہیں۔

فضول خرچی کے منفی معاشی اثرات بہت گہرے ہیں:
– گھریلو بجٹ کا بگاڑ
– قرض کا بڑھتا بوجھ
– بچت کی کمی
– معاشی غیر استحکام
– غربت میں اضافہ

# سماجی پہلو کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ فضول خرچی نے معاشرتی رشتوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ اس سے:
– رشتوں میں کشیدگی
– حسد اور جلن کا فروغ
– سماجی برابری کا خاتمہ
– اخلاقی اقدار کا زوال

نئی نسل فضول خرچی کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ موبائل فون، فیشن اور دیگر جدید آلات کی مد میں بے تحاشہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ اس سے:
– تعلیمی اخراجات متاثر
– غلط مالیاتی عادات کا فروغ
– ذہنی دباؤ میں اضافہ
– کمتری کا احساس

فضول خرچی کے تدارک کے لیے اقدامات کا ہونا ضروری ہے،
# انفرادی سطح پر
– آمدن کے مطابق خرچ کی حکمت عملی
– ضروری اور غیر ضروری اخراجات کی تفریق
– بجٹ سازی کی عادت
– بچت کا رجحان

اسی طرح سماجی سطح پر
– سادگی کو فروغ
– شعور بیداری مہمات
– قوانین کی سخت نفاذ
– میڈیا کا مثبت کردار

جبکہ حکومتی سطح پر
– اسراف روکنے کے قوانین
– مالیاتی شعور کے پروگرام
– غیر ضروری درآمدات پر پابندی
– سادہ زندگی کی حوصلہ افزائی….

فضول خرچی ایک ایسی سماجی برائی ہے جس کا سد باب انتہائی ضروری ہے۔ یہ نہ صرف ہماری معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ ہماری سماجی اور اخلاقی اقدار کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے انفرادی، سماجی اور حکومتی سطح پر مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سادہ زندگی اور متوازن خرچ ہی خوشحال معاشرے کی ضمانت ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر فضول خرچی کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک مستحکم معاشی نظام کی بنیاد رکھیں۔

اب آتے ہیں رسم و رواج میں فضول خرچی کی طرف جو معاشرتی بوجھ ثابت ہو چکی ہے،

وقت کے ساتھ ہمارے معاشرے میں رسم و رواج کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ فضول خرچی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ شادی، ولیمہ، دعوتیں، تقریبات اور دیگر رسومات میں لوگ اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

آج کل شادی کی تقریبات میں دیکھیں تو مہنگے مقامات کا انتخاب، قیمتی ڈریسز، فینسی میکپ، گرانقیمت کھانے، فوٹو شوٹس اور ویڈیوگرافی، اور تحائف کا تبادلہ – یہ سب معمول بن چکا ہے۔ لوگ قرض لے کر بھی ان رسومات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ معاشرے میں ان کی عزت قائم رہے۔

مگر کیا یہ سب ضروری ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اس فضول خرچی کا ہماری معیشت پر کیا اثر پڑتا ہے؟ ایک عام آدمی جو مشکل سے اپنا گزر بسر کر رہا ہے، وہ ان رسومات کے بوجھ تلے کیسے دب رہا ہے؟

آئیے کچھ حقائق پر نظر ڈالیں:
– ایک اوسط شادی کی تقریب پر خرچ ہونے والی رقم 15-20 لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے
– 60% خاندان قرض لے کر شادی کی رسومات پوری کرتے ہیں
– 30% لوگ اپنی بچت استعمال کر کے مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں

ہمیں اپنے معاشرے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ سادگی اختیار کرنا ہوگی۔ رسم و رواج کو نبھانا اچھی بات ہے، لیکن اس میں اعتدال کا دامن تھامنا ہوگا۔ اسلام بھی ہمیں فضول خرچی سے منع کرتا ہے۔

کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں!
. شادی اور دیگر تقریبات کو سادہ رکھیں
. اپنی آمدن کے مطابق خرچ کریں
. رسومات میں اضافہ کرنے کی بجائے ان کو کم کریں
. دوسروں کی دیکھا دیکھی میں خرچ کرنے سے گریز کریں
. بچت کو ترجیح دیں

آخر میں یہی کہوں گا کہ ہمیں اپنی اگلی نسل کے لیے ایک مثبت روایت چھوڑنی چاہیے جہاں وہ معاشی بوجھ کے بغیر اپنی زندگی کے اہم مواقع کا جشن منا سکیں۔ آئیے مل کر اس تبدیلی کا آغاز کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button