
تیمرگرہ میں سی ڈی پی ائی کے زیر اہتمام پاکستان میں صحت اور تعلیم کیلئے مختص بجٹ پر ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس سمیں مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی ورکشاپ سے صوبائی کوارڈینٹر سی ڈی پی ائی شمس الہادی اور ڈسٹرکٹ کوارڈینٹر پروگروتھ ارشدابدالی نے ورکشاپ سے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کے شریک سول سوسائی آرگنائزیشن (سی ایس او) پروگروتھ نے شہریوں کے کے نیٹ ورک فار بجٹ اکاونٹبلٹی (سی این بی اے) کے تحت جو سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ اینشیٹیوز (سی ڈی پی ائی)، اسلام آباد کے زیر انتظام چلایا جارہا ہے۔ پاکستان میں صحت اور تعلیم کے بجٹ پر ایک اہم مکالے کا انعقاد کیا۔ یہ مکالمہ ضلع لویردیر میں 8 دسمبر کو منعقد ہوا جس میں 22-2021 سے 25-2024 تک کے بجٹ کے رجحانات کا تجزیہ کیا گیا۔ اور ان بنیادی شعبوں کو در پیش بنیادی شعبوں کو درپیش بنیادی ڈھانچوں کی کمزوریوں اور علاقائی تفاوتوں پروشنی ڈالی گئی۔ اس ایونٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بجٹ میں بتدریج اضافہ ملک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی رہا ہے، اور صحت اور تعلیم دونوں شعبوں میں صوبوں کے درمیان واضح تفاوت موجود ہیں۔تجزیے سے معلوم ہوا کہ وفاقی صحت کے اخراجات 2024-25 میں 56,356 ملین روپے تک پہنچنے کے باوجود، مجموعی وفاقی بجٹ کا صرف ایک چھوٹا حصہ بنتے ہیں، جو مسلسل ناکافی مالی معاونت کی نشاندہی کرتا ہے۔ صوبائی بجٹ میں نمایاں تفاوت پائی گئی سندھ نے 2021 سے اپنے صحت کے بجٹ کو دو گنا کر کے 321,712 ملین روپے کر دیا اور 64 فیصد عوامی صحت کی خدمات کے لیے مختص کیے۔ پنجاب کا صحت بجٹ، 371,806 ملین روپے کے ساتھ، زیادہ تر اسپتال کی خدمات پر مرکوز ہے، جس کی وجہ سے احتیاطی سیکھ بھال فنڈز کے اتھ رہ جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا نے 2023-24 تک اپنے ترقیاتی بجٹ میں 197 فیصد کے قابل ذکر اضافے کا مظاہرہ کیا، جس میں اسپتال کے بنیادی ڈھانچے پر توجہ دی گئی، جب کہ بلوچستان، جسے 77,167 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں، بنیادی ڈھانچے اور خدمات کے فرق سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان میں 589,122 اسپتال کے بستروں کی کمی ہے، جو صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کو وسعت دینے کی فوری ضرورت کو اجا گر کرتی ہے،خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے کم وسائل والے علاقوں میں، جہاں فی کس صحت کے اخراجات تشویشناک حد تک کم ہیں۔تعلیم کے شعبے میں، وفاقی مختص رقم 145,403 ملین روپے سے بڑھ کر 191,650 ملین روپے ہوگئی لیکن اس بجٹ کا بڑا حصہ 76 فیصد اعلیٰ تعلیم کی طرف جاتا ہے، جس سے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کو کم وسائل فراہم کیے گئے۔ صوبائی سطح پر سندھ کا تعلیمی بجٹ ایک متوازن تقسیم کے ماڈل کے طور پر ابھرا، جس میں 507,576 ملین روپے سے زائد مختص کیے گئے، جو پرائمری، سیکنڈری اور اعلی تعلیم میں مساوی فنڈنگ کو یقینی بناتا ہے۔ اس کے برعکس، پنجاب کا بجٹ، اگر چہ 191,540 ملین روپے کے ساتھ اہم ہے، لیکن زیادہ تر اعلیٰ تعلیم کی خاطر مختص نظر آتا ہے، جس میں صرف 7 فیصد پرائمری تعلیم کے لیے مختص ہے۔ خیبر پختو نخوا نے بھی اس طرز پر عمل کیا، اپنے 101,271 ملین روپے کے بجٹ کا 73 فیصد اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص کیا، جب کہ بلوچستان نے 25-2024 میں اپنے تعلیمی بجٹ میں 218 فیصد اضافہ کرکے بنیادی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم پر نمایاں طور پر توجہ مرکوز کی۔مکالے کا انتقام دونوں شعبوں میں ساختی مالیاتی خلا کو دور کرنے کے لیے اہم سفارشات کے ساتھ ہوا۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان کو تمام سطحوں پر اپنے صحت کے بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے، اسپتال کے بنیادی ڈھانچے کو ترجیح دینی چاہیے اور صحت کی دیکھ بھال کے عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے کم وسائل والے علاقوں کو فنڈنگ کونشانہ بنانا چاہیے۔ عوامی نجی شراکت داری اور احتیاطی صحت کی دیکھ بھال پر زیادہ زور دینے کوخدمات کی فراہمی کو بڑھانے کے لیے اہم حکمت عملیوں کے طور پر تجویز کیا گیا تعلیم کے شبے میں بجٹ مختص کو دوبارہ متوازن کرنا ضروری سمجھا گیا تا کہ پورے ملک میں مضبوط تعلیمی بنیاد کے لیے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کو ترجیح دی جاسکے۔ نمایاں تفاوتوں کا سامنا کرنے والے علاقوں، جیسے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا، میں مساوی تعلیمی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ہدفی سرمایہ کاری کی سفارش کی گئی۔ دیہی اسکولوں میں پانی، صفائی اور حفظان صحت (واش) کی سہولیات کی توسیع کی ضرورت کو حاضری بڑھانے اور طلبہ کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم قدم کے طور پر بھی اجاگر کیا گیا۔یہ سفارشات پاکستان کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی)، خاص طور پر (3ایس ڈی جی)خاص طور پر(4ایس ڈی جی)معیاری تعلیم کے لیے کیے گئے وعدوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ فنڈنگ اور بنیادی ڈھانچے کے ان اہم خلاؤں کو دور کر کے، پاکستان صحت کی دیکھ بھا ل اور تعلیم تک مساوی رسائی حاصل کرنے، جامع سماجی و اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور اپنے شہریوں کے لیے مجموعی معیار زندگی کوبہتر بنانے کے قریب جا سکتا ہے۔اخر میں شرکاء کے سوالات کے جوابات بھی دیے گئے۔