
عظیم علمی ،ادبی اور سیاسی شخصیت حضرت مولانا قاری محمد عبداللہ رح
سابق سیکرٹری تعلیمی کمیشن و اے پی ایس برائے وزیر اعلیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرا غم بھی عجیب سا غم ہے
درد بڑھتا ہے پھر بھی کم ہے
ہچکیاں لے رہے ہیں تارے بھی
تیری دوری کا آج ماتم ہے
اب کہ فصل بہار کیسی ہے؟
ہر کلی کی نگاہ پر نم ہے
شکوہ بے ثباتی دوران
دل کا عالم عجیب عالم ہے
موت العالم موت العالم ،عالم کی موت عالم کی موت ہے، عالم کی بقا عبادات پر موقوف ہے اور اللہ اللہ کی یاد پر ہے، عبادت اور آللہ تعالیٰ کا ذکر علماء ہی کی وجہ سے قائم ہے،اگر علماء حق نہ ہوتے تو عبادات کے طور طریقے ختم ہو چکے ہوتے پھر ہندوں کی طرح سکھوں کی طرح اور عیسائیوں کی طرح ہم بھی گرجوں اور دھرمسالوں میں پڑے رہتے اور گاے وغیرہ کے گوبر چاٹتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثوں نے اس دین کو محفوظ کیا ہے، اور اس دنیا میں پھیل رہا ہے،اور یہ عالم اور طالب اس امت کے آخری سہارے ہیں،
بارعب اور خاکسار طبعیت کے حامل حضرت مولانا قاری محمد عبداللہ صاحب رح انتقال فرما گیے، قافلہ حق کا ایک ایک ساتھی یکے بعد دیگرے کاروان سے بچھڑتا جارہاہے ، اس مادی دنیا کے علائق سے منہ موڑ کر سوے دار عقبی روانہ ہورہے ہیں ، آج ہماری آنکھیں ان نورانی پیشانیوں کے دیدار سے محروم
ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
جو بادہ گش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی ۔۔۔۔
حضرت قاری صاحب رح کا ہر قدم صراط مستقیم پر، ہر بات مذہب کے دائرے میں قید، ہر معاملہ شریعت کے حدود میں بند ، ہر فعل اخلاق کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا بقول حافظ مولانا عطا ء اللہ شاہ صاحب ولد حضرت مولانا قاری عبداللہ صاحب نوراللہ مرقدہ ” والد صاحب کا چہرہ کتابی جس سے جاہت اور جمال ٹپکے، عالمانہ وقار، شریفانہ شرمیلا پن سے بردبار، پر جوش پُروقار ، رفیع الصوت جس سے لطافت گرے نہ کہ دل و دماغ پر بار۔۔۔۔۔چلن میں میانہ روی اور یمشون علی الارض ھونا کا مصداق ، تخلیقی صلاحیتوں کے اعلی معلم ۔۔۔۔خیالات وفکر میں بلند پرواز کے مالک، درد و سوز اور خون جگر سے کام کرنے والا۔۔۔۔بلند ہمت،حوصلہ مند وحوصلہ داد ، صلہ لینے سے بے نیاز۔۔۔۔۔کام کرنے اور کام لینے میں جلد باز ، اجتماعیت برقرار رکھنے کے لیے اپنی انا قربان کرنے والا۔۔۔۔۔۔جمعیت کے معاملے میں دل سے مجبور۔۔۔۔۔اخلاص سے پر نور ۔۔۔۔ایثار، قربانی، عاجزی اور سادگی سے معمور ۔۔۔۔۔سفر میں رفیق راحت رساں، حضر میں مشفق و مھربان ،ہر کسی کے ہرخوبی کے معترف ۔۔۔۔۔کھبی کھبی اپنے من کے ترانے نہیں گاے۔۔۔۔قرآن کریم ایسا پڑھے کہ مردہ دل بھی واہ اٹھے اور رنگ دل کا صفایا کر دے، دنیا سے بے رغبتی میں ابوذر غفاری کا یاد دلاے ، سب کچھ قربان کرنے میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ کا جھلک دکھاے، موجودہ کرشماتی جگمگاتی اور کہکشاتی چراغوں میں وہ ایک پرانے چراغ تھے، خود جلتے رہے اوروں کو جلانے اور چمکانے کے لیے اگر ہندوستان میں ہوتے تو دارلعلوم دیوبند والے انہیں اپنا تاج محل بناتے، بالفاظِ مختصر اگر تاریخ دارلعلوم دیوبند کو انسانی سانچے میں ڈال دیا جائے تو اس سے مولانا قاری محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بن جاے۔
علمی ادبی مرتبہ ومقام۔۔۔۔۔۔
لاکھوں حفاظ اور علماء اسلام کے استاد کل حضرت علامہ قاری محمد عبداللہ صاحب رح
خطابت میں امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخآری رح
کے درجہ ومقام کے برابر خطیب مقرر تھے، علماء اہل علم وادب کے نزدیک پاکستان میں ابولکلامیات کی پہچان میں آپ اور مرحوم ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کے بعد کوی ہمسر نہیں تھے،
پاکستان اور بھارت کے نامور لائبریریوں کے مینیجرز، مجلات کے مدیر اور کتابوں کے مصنفین ،موءلفین اور مرتبین برآے تبصرہ نئی کتابیں آپ کے پاس بھیجواتی تھیں، سیاستدانوں کے استاد تھے، سیاست سب سے زیادہ سمجھنے اور سمجھانے والے معلم سیاست تھے، علم و ادب میں قاری صاحب کا اصل میدان ابولکلامیات کے ساتھ ساتھ حضرت مدنی رح کی تعبیر دین اور سیاسی افکار تھے۔
بقیتہ السلف حضرت علامہ قاری محمد عبداللہ صاحب کے ساتھ جان پہچان 1977 میں دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں میرے ابتدائی درجہ فنون کے زمانے سے ہوئی ، قاری صاحب چھٹے درجے کے طالب العلم تھے ، ان کی تلاوتِ قرآن اور خوش الحانی کے چرچے تھے، زمانہ طالب العلمی ہی میں گاہے گاہے دارلعلوم iکے جامع مسجد میں امامت کا فریضہ سر انجام دیتے تھے، نماز مغرب کی تلاوت کی گونج
دور دور اکوڑہ خٹک کے ریلوے پھاٹک تک لوگ سنتے تھے ، سال 1977 دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں میرا پہلا سال تھا جبکہ مستقبل کے جینیس اور نابغہ روزگار علمی اور سیاسی رہنماوں کی طالبعلمی کا آخری سال تھا۔۔۔سر فہرست ان میں سے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب ، حضرت مولانا نصیب علی شاہ بخآری الہاشمی رح ،مولانا محمد اسحاق رح تھے جبکہ حضرت قاری صاحب 1982 میں دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے سند فراغ کے بعد دارلعلوم ہی کے شعبہ حفظ والتجوید کے ساتھ بحثیت مدرس منسلک ہوے ۔
جمعیت علماء اسلام میں عہدہ
۔۔۔۔۔معلم سیاست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں
برسوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
تاریخ ترے نام کی تعظیم کرے گی
تاریخ کے اوراق میں تو ذندہ رہے گا
بیسویں صدی کے آخر ی عشرے اور اکیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں جمعیت کے صوبائی نظم میں۔۔۔۔اپ نظم جماعت ، اطاعت الامیر اور جماعتی منشور ودستور کے محافظ اور آمین رہے جو میرے مطابق آپ کا سب سے بڑا میرٹ
اور اعزاز تھا۔۔۔۔۔
ہوا تھی گو تند و تیز مگر چراغ اپنا جلا رہا تھا
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے تھے انداز خسروانہ
جمعیت کے ساتھ محبت اور عقیدت کا اندازہ ہمیں اس سے لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ آپ جمعیت علماء ہند کی تشکیل کا پس منظر ، پیش منظر ،تہہ منظر اور اغراض و مقاصد سمجھتے تھے اور جمعیت کے یوم تاسیس تا این وقت جملہ تحریکات کی اہمیّت ، ضرورت اور اغراض و مقاصد زبانی یاد تھے ، آپ کو شیخ الھند کی جماعت کو سمجھنے میں بلا کا ملکہ راسخہ تامہ نصیب تھا،اپ تحریک مجاہدین کو تحریک آزادی ہند 1857کے لیے بنیاد سمجھتے تھے اور دارلعلوم دیوبند کے قیام کو1857 کی جنگ آزادی میں ناکامی کا ہمہ گیر رد عمل سمجھتے تھے، ایشیا میں بڑھتی ہوئی سامراجیت کو روکنے کے لیے سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد مسلمانوں کا مقدمہ عالمی فورم کی بجائے عوامی عدالت میں لڑنے کی جدوجہد کو شیخ الھند کی جماعت کا بہت بڑا کارنامہ سمجھتے تھے ، حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ جمہوریت کو مسلمانوں کا منزل ماننے سے انکاری تھے بلکہ جمہوریت کو منزل تک پہنچنے کا زینہ اور وسیلہ سمجھتے تھے ، برصغیر میں جمہوریت کے جواز کے فتوے کو برصغیر کے چالیس ریاستوں پر اکابرینِ جمعیت علماء اسلام کا احسان
سمجھتے تھے ، آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر جزیرہ العرب کے علماء دور اندیش ہوتے تو آج وہاں کے علماء کے زبانوں کو تالے پڑتے اور نہ ہی سرکاری کاغزی خطبوں کے سرکل میں قید ہوتے ، دیوبند صد سالہ عالمی اجتماع منعقدہ 8,9,10 اپریل 2001 کے دوران آپ جمعیت کے صوبائی نظم میں بحیثیت سنئیر نائب امیر خدمات سر انجام دے رہے تھے مگر شدید علالت کے باوجود کانفرنس سے متعلق تمام اہم امور میں دیگر قائدین کے شانہ بشانہ روح رواں کا کردار ادا فرماتے رہے۔
فروری 2001 کو جمعیت خیبرپختونخوا نے متفقہ طور پر مرکزی جمعیت کےاپروول کے ساتھ مجھے دیوبند صد سالہ عالمی اجتماع کے لیے میڈیا چیف ایڈوائزر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تو مندرجہ ذیل امور مکمل کرنے کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی ۔ 1….عالمی کانفرنس کے اغراضِ ومقاصد ایک کتابچے کی صورت میں تیار کرنا۔
2…… دارلعلوم دیوبند سے متعلق تمام تحریکات کی تصویری صورت میں پوسٹر تیار کرنا۔
3…… ملک بھر کے تمام دینی تعلیمی مدارس کے لیے دارلعلوم دیوبند کی تحریکات پر مشتمل
کلینڈر تیار کرنا۔
4…..عربی، انگریزی ،ا ردو اور پشتو زبان میں خوبصورت دعوت نامہ تیار کرنا ۔
5….. دیوبند عالمی کانفرنس
سے متعلق اخبارات کے لیے فل پیج ایڈیشن تیار کرنا ۔
6۔۔۔۔۔۔تحریکات دارلعلوم دیوبند سے متعلق ہر صوبائی عہدیدار کی طرف سے الگ الگ پیغام تیار کرکے شامل ایڈیشن کرنا
7…… عالمی کانفرنس کے تینوں دنوں میں ہر روز شیخ الھند کی جماعت سے متعلق تحریکات پر الگ الگ اخبارات اور رسائل کے لیے کالمیں اور مضامیں لکھنا ۔
تاروجبہ جاے عالمی کانفرنس سے 80 باے 80 یعنی اسی سکوئیر کلومیٹر میں چاروں طرف یعنی جہانگیرہ ،کوہاٹ، چارسدہ ، تخت بھائی ، مھمند اور خیبر ایجنسی طورخم تک جہازی سٹائل میں پروفیشنل سٹائل کا وال چاکنگ 18 رمضان المبارک میں شروع کیا اور 28 رمضآن المبارک تک عید سے دو دن قبل یہ مشکل کام تین پروفیشنل رنگسازوں مجھ سمیت مکمل کر دیا۔۔۔۔یاد رہے میں ان دنوں ایک سرکاری سکول میں گزٹیڈ ہیڈ ماسٹر بھی تھا ، مگر اس کام میں رنگسازوں کے ساتھ لیبر کی ڈیوٹی سر انجام دینے پر امور تھا۔۔۔۔۔
کیا یہ سارے کام اورا ن پراجیکٹس کی تکمیل ایک انسان کے یے ممکن تھے؟ اگر ناممکن نہیں تو انتھائی مشکل ضرور تھے تاہم اس مشکل اور چیلنجیبل سٹیج پر حضرت قاری صاحب رح نے میرا ہاتھ پکڑلیا اور صوبائی مشران کی موجودگی میں قبلہ رو کھڑا کر دیا اور فرمایا ہم سب کی رہنمائی آپ کے ساتھ ہو گی اور عظیمت کے اس تاریخی جدوجہد میں ان سب کی دعائیں بھی آپ کے ساتھ شامل حال رہیں گی۔
زمانہ معترف ہےاب ہماری استقامت کا
نہ ہم سے قافلہ چھوٹا نہ ہم نے رہنما بدلا
راہ الفت میں گو ہم پر بہت مشکل مقام اے
نہ ہم منزل سے باز اے نہ ہم نے راستہ بدلا
تعلیمی اصلاحات میں حضرت قاری صاحب کی جدوجہد اور مشاورت
وزیر تعلیم حضرت مولانا فضل علی حقانی کی وزارت میں قائم تعلیمی کمیشن کوی عام مروجہ کمیشن نہیں تھا بلکہ اس میں ملکی سطح کے ماہرین تعلیم ، ممتاز علماء کرم،بیورو کریٹس اور پارلیمینٹیرین شامل تھے جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں ۔۔۔۔۔
1……. وزیر تعلیم حضرت مولانا فضل علی حقانی ۔۔۔ممبر
2…….. حضرت مولانا مفتی غلام الرحمن صاحب ۔۔۔چئیرمین۔۔۔
3…….بندہ احقر محمد رحیم حقانی ۔۔۔۔۔سیکرٹری۔۔۔
4……. حسین احمد کانجو منسٹر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی۔۔۔ممبر۔۔۔
5……. سینیٹر محمد ساعد
۔۔۔ممبر۔۔۔۔۔۔
6…….. پروفیسر قبلہ ایاز۔ وی سی پشاور یونیورسٹی
7…….. سیکرٹری سکول اینڈ لیٹریسی ۔۔۔۔ممبر۔۔۔۔
8…….. سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن ۔۔۔۔ممبر۔۔۔
9…….. ڈائریکٹر سکولز اینڈ لیٹریسی ۔۔۔۔ممبر۔۔۔۔
10……. پروفیسر نذیر ڈائیریکٹر کالجز ۔۔۔۔ممبر۔۔۔۔
11….. گوہرِ زمان پرنسپل UPS وچیف ایگزیکٹو FCA
ممبر۔۔۔۔۔
12……سلمی مسعود ممبر گورنر ٹیم۔۔۔۔۔ممبر۔۔۔
13…… آ شا شفیق ڈائریکٹر اقلیتی سکولز خیبرپختونخوا
ممبر۔۔۔۔
درحقیقت ایم ایم اے دور حکومت کی کامیابی کا کریڈٹ قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کو جاتی ہے جنہوں نے اپنے کمال بصیرت اور تدبر سے صوبے کی وزارت علیا کے لیے محمد اکرم خان درانی کا انتخاب کیا درانی صاحب نے بعد میں اپنے کمال مہارت اور خدا داد صلاحیتوں سے ثابت کیا کہ قائد جمعیت کا فیصلہ صوبے اور جماعت کے حق میں درست فیصلہ تھآ ، وزیر اعلیٰ کے لیے جہاں تمام وزارتوں کی مانیٹرنگ اور نگرانی ایک اہم مسئلہ تھا وہاں
وزارت تعلیم کے زریعے قوم وملک کے مفاد میں کچھ ایسے اقدامات کرنے تھےجو عوامی امنگوں کے مطابق ہوں، لھذا تعلیمی کمیشن کا قیام ناگزیر تھا ۔۔۔
ملکی سطح پر ایک طاقتور بااختیار تعلیمی کمیشن میں بحیثیت ممبر میری تقرری میرے لیے بڑا اعزاز تھا مگر تعلیمی کمیشن کے سیکرٹری کی حیثیت سے کمیشن کا بار گراں سنبھالنا مجھ جیسے کم علم اور ناتجربہ کار انسان کے لیے ایک مشکل کام تھا ۔۔۔۔۔۔
دسمبر 2002میں سابق وزیراعلی محمد اکرم خان درانی صاحب کے ساتھ بطور APS صوبے کے سب سے بڑے آفس CM سیکریٹریٹ میں خدمات سر انجام دینے پر مجھے اتنی تشویش لاحق نہیں ہوی تھی جس قدر تعلیمی کمیشن کے سیکرٹری کی حیثیت سے تعیناتی پر مجھے بے حال ہونا پڑا تھا ، ہوا کچھ یوں کہ جب سیکرٹری سکول اینڈ لیٹریسی امجد شاہد آفریدی صاحب نے مجھے بذریعہ فون میری تقرری سے آگاہ کر دیا تو اس کے فوراً بعد میں نے قاری صاحب کو بنوں فون کیا اور اپنی مشکل اور انکار کے فیصلے سے انہیں آگاہ کر دیا
،قاری صاحب نے میری معزرت سننے کے بعد فرمایا حقانی صاحب سیدھی سیدھی بات کہو کہ وزیر اعلیٰ اکرم درانی کے سیکرٹریٹ میں APS کی ذمہ داریوں کے ساتھ آپ تعلیمی کمیشن میں سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرنے سے انکاری ہیں توا س حوالے سے میرا موقف( حضرت قاری صاحب )
کا موقف یہ ہے” اگر وزیر اعلیٰ درانی صاحب کے کابینہ کے وزیر تعلیم کی وزارت میں قائم تعلیمی کمیشن میں بحیثیت سیکرٹری ڈیوٹی سر انجام دینے پر آپ اپنے مشکلات اور تحفظات کو گنوا رہے ہیں، لیکن مجھے آپ کے موقف سے قطعاً اتفاق نہیں ، میں ہندوستان کے وزیراعظم اعظم جواہر لعل نہرو کے کابینہ میں شامل ایک بہت بڑے نامور وزیر تعلیم امام الھند ابوالکلام آزاد کی تعلیمات اور افکار کے ابلاغ کا سیکرٹری ہوں ، قدم بقدم آپ کی رہنمائی کے لیے حاضر رہوں گا ، مگر انکار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ،قاری صاحب نے فرمایا پورے کمیشن میں سیکرٹری کا منصب سب سے بڑا اور زمہ داری کا عہدہ ہے، یہ اعزازات ہر وقت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتے ، یہ سب کچھ آپ کے چالیس سالہ انتھک جدوجہد اور قربانیوں کا صلہ ہے جو آپ کو مفت میں مل رہا ہے، اور جہاں تک مشکلات اور تحفظات کی بات ہے یہ ہر جگہ ہوتے رہتے ہیں ،معاصرانہ حسد اور چشمک کا سلسلہ پیدائش آدم علیہ السلام سے اب تک جاری ہے، اخلاص ،للہیت اور شبانہ روز جدوجہد سے مشکلات کا مقابلہ کریں گے ۔
ایم ایم اے حکومت کے عوام وخواص میں شہرت اور مقبولیت دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ درانی کی لیڈرشپ اور حکومت گری کے گر جاننے کی وجہ سے ہوئی،
مولانا فضل علی حقانی کی قیادت میں وزارتِ تعلیم میں انقلابی اقدامات کامیاب حکومت کے کامیاب پالیسیوں میں سر فہرست رہے، اگر چہ دیگر محکمہ جات اور وزارتوں کی کارکردگی بھی مثالی رہی مگر تجزیہ نگاروں کے مطابق امتیازی اور ٹاپ پوزیشن محکمہ تعلیم ہی کی رہی۔
کیا کہوں حال درد پنہانی
وقت کوتاہ وقصہ طولانی
شاید بہتوں کو آج تک بھی پتہ نہیں ہوگا کہ ایم ایم اے دور حکومت میں ہر سال چھ سو صفحات پر مشتمل کارکردگی رپورٹ سی ایم ہاؤس سے نکل کر تقسیم ہوتا تھا جس پر ہر سال قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب ،
وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی صاحب ، سیکرٹری ایڈمنسٹریش کرنل غلام حسین
اور صوبائی جماعت سے داد وتحسین اور بے شمار تمغہاے خدمت وصول کرتا رہا ، ہر سال اس رپورٹ کا مرتب، مصنف موءلف بندہ احقر ہواکرتا تھا مگر اس کے پیچھے مانیٹرنگ ، مشاورت اور رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینے والا میرا استاد آور مربی حضرت العلامہ قاری محمد عبداللہ صاحب رحمۃ اللہ ہوا کرتا تھا