
آپ کا ذکر قرآن پاک میں مندرجہ ذیل مقامات پر ہے سوره بقره، پاره اول رکوع ۴۔سورہ مائدہ ، پاره ٦، رکوع ۵۔پاره ۸ سوره اعراف ، رکوع ۲۔پاره ۹ سوره اعراف رکوع ۲۴۔پاره ۱۴ سورۃ الحجر، رکوع ۳ پارہ ۱۵ سورہ بنی اسرائیل، رکوع ۷۔پاره ۱۵ سورہ کہف ، رکوع ٧۔پارہ ١٦ ، سورۃ طہ ، رکوع ٧ پارہ ۲۱ سوره سجده ، رکوع ۱۔۱۰ پاره ۲۳ سوره ص، رکوع ۵ پاره ۲۷ سوره رحمن ، رکوع ۱
حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے پروردگار عالم جل جلالہ نے اپنے بڑے احسان کے ساتھ فرشتوں کی جماعت میں آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر کیا۔ چنانچہ ارشاد ہے۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي اور جب کہا رب تیرے واسطے جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً فرشتوں کے بیشک میں پیدا کرنیوالا ہوں زمین میں ایک خلیفہ۔ پاره اول سوره بقره رکوع ۴
جب ملائکہ نے یہ حکم سنا تو معلوم کر لیا کہ آدم علیہ السلام خدا کا بڑا برگزیدہ بندہ ہوگا نمبر ا: اس کی پیدائش سے پہلے ہی منادی کر دی۔ نمبر ۲ یہ کہ وہ خدا کا نائب ہو کر زمین میں حکومت کرے گا۔ مگر جب فرشتوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا خمیر اور مادہ ایسے اجسام مختلف الطبائع سے ہوگا کہ جن کو قوت شہو یہ اور غصبیہ بھی لازم ہے کہ جس سے خواہ مخواہ بدکاری وغیرہ فسادات ظہور میں آئیں گے۔ پھر نہایت عاجزی اور انکساری سے سوال کیا کہ الہی پھر ایسے کو خلیفہ بنانے کی کیا حکمت ہے۔ رہی تیری تسبیح و تقدیس تو اس کے لئے ہم ملائکہ موجود ہیں۔جن میں قوت غصبیہ اور شہویہ کا مادہ ہی نہیں۔پروردگار عالم نے فرمایا کہ جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ تم
کو معلوم نہیں۔ (تفسیر حقانی)
(فرشتوں کا سوال) چنانچہ ارشاد ہے۔
اتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ، قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَالاً تَعْلَمُونَ
کہا فرشتوں نے کیا تو کرتا ہے زمین میں اس کسی کو جو فساد کریں زمین میں اور بہائے خون اور ہم تیری تعریف کیساتھ تسبیح اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔
( سورة بقر و رکوع ۴)
پروردگار عالم نے فرمایا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
خلیفہ کا یہ مطلب ہے کہ یکے بعد دیگرے تمام انبیاء کرام خلیفہ رہیں گے۔فرشتوں نے اتجعَلُ اعتراض اور حسد کے طور پر نہ کہا تھا ایک تو پہلے جنات کے حالات دیکھ کر کہا تھا،جن کا ذکر عنقریب آنے والا ہے اور لوگوں میں سب ہی تو نیک نہیں ہوتے بلکہ فسادی بھی ہوتے ہیں اور فرشتے نوری مخلوق ہے اُن میں حسد بخل وغیرہ کا تو مادہ ہی نہیں۔باقی ہر مخلوق خون بہانے والی اور فسادی ہوتی ہے اس لئے فرشتوں نے اَتَجْعَلُ کہا تھا لیکن پروردگار عالم جل جلالہ نے فرمایا کہ باوجود فسادوں کے بھی جو مصلحتیں ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم وہاں تک نہیں پہنچ سکتا، میں جانتا ہوں کہ ان میں، انبیاء اور صدیق اور شہید عابد زاہد اور اولیاء نیکوکار ابرار اور مقرب بارگاہ الہی ہوں گے اور علماء صلحا متقی پرہیز گار بھی ہوں گے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ پہلے زمین پر جنات کئی ہزار سال حکومت کرتے رہے سب زمین پر قابض تھے حیوانات نباتات سے نفع اٹھاتے اور آسمان پر آتے جاتے تھے۔ پھر جنوں نے فساد مچایا خون ریزی شروع کی پھر پروردگار عالم جل جلالہ نے آسمان دنیا کے فرشتوں کو حکم دیا کہ جنوں کو زمین سے دور کرو تا کہ ان کی آلودگی سے زمین پاک ہو جائے پھر فرشتوں نے خدا کے حکم کے موافق جنوں کو مار مار کر پہاڑوں اور جنگلوں جزیروں میں پہنچا دیا۔ ابلیس لعین بھی ان ہی میں سے تھا اس کا نام عزازیل تھا اور علم اور عبادات کے سبب سے جنوں سے ممتاز اور الگ تھا اور فرشتوں میں رہتا تھا اور وہ بھی فرشتوں کے ہمراہ آسمان پر گیا اور عذر بنایا کہ میں اور میری اولاد ان فسادوں میں شریک نہ تھے حق تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کی سفارش سے سبب سے مارنے اور نکالنے سے محفوظ رکھا۔پھر شیطان کو یہ طمع ہوا کہ سب جنوں کو مار کر نکالا گیا ہے بغیر میرے اب میں ان کی جگہ قابض اور متصرف رہوں گا پھر عبادت میں زیادہ کوشش کرنی شروع کی جب آسمان کی طرف دنیا کے فرشتوں کو کوئی حکم الہی پہنچتا تو یہ عین فرشتوں سے بھی پہلے اس کام کو پہنچتا اور فرشتوں کے ساتھ اس کام کو سر انجام دیتا، پھر آسمان میں اس کی قدر و منزلت اور زیادہ ہو گئی اور اپنے دل میں اس بات کا امیدوار ہو گیا کہ اب دنیا کی خلافت مجھے ملے گی۔جب خدا کا حکم فرشتوں کو پہنچا کہ اِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ، اس وقت شیطان نے جانا کہ یہ قدر و منزلت خدا مجھے نہ دیگا سب بندگی اور عبادت ریا کاری کی تھی اس لئے اس کے دل میں حسد جوش کر گیا۔ ( تفسیر فتح العزیز شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی) جنات کئی ہزار سال آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے دنیا پر
آباد تھے ارشاد ربانی ہے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ البتہ پیدا کیا ہے انسان کو ہم نے صَلْصَالٍ مِنْ حَمَةٍ مَّسْنُون بجنے والی مٹی سے جو بنی ہوئی وَالْجَانَّ خَلَقْنهُ مِنْ قَبْلُ تھی کیچڑ سڑی ہوئی سے سے اور
مِنْ نَّارِ السَّمُومِ
پیدا کیا جنوں کو پہلے اس سے
آگ لو والی سے۔(پ۱۳ سورۃ المجر رکوع۳)
ابلیس عبادت کی وجہ سے جنات سے جدا ہو کر فرشتوں میں رہتا تھا جیسا کہ بیان ہو چکا ہے۔
پیدائش آدم علیہ السلام۔پروردگار عالم جل جلالہ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا چاہا تو
حضرت جبرئیل علیہ السلام کو فرمایا کہ روۓ زمین سے ہر رنگ کی مٹی سفید سرخ سیاہ شور شیریں میں نرم سخت میں سے ایک مشت خاک اٹھا کر لا کہ میں ایک مخلوق پیدا کرتا ہوں جب حضرت جبرائیل علیہ السلام زمین کے پاس
گئے اور چاہا کہ ایک مشت خاک اٹھاۓ تو زمین نے پوچھا کس واسطے اتنی مٹی کم کرتا ہے جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ حق تعالی اس سے ایک
مخلوق پیدا کریں گےجو زمین پر رہیں گے نیک اور بدبھی ہوں گے عقاب اور ثواب ان کے واسطے ہوگا ، پھر زمین نے عرض کی میں اللہ تعالی کی عزت کی
پناہ پکڑتی ہوں کہ تو مجھ سے مٹی نا اٹھا کیونکہ کچھ لوگ نافرمانی کی وجہ سے جہنم میں جلیں گے حضرت جبریل علیہ السلام زمین کی فریاد سن کر واپس چلے گئے اور عرض کی کہ الہی زمین تیری عزت کی پناہ چاہتی ہے میں تیرے نام کی عزت سے مٹی نہ اٹھاسکا۔ پھر حق تعالی جل جلالہ نے حضرت میکائیل کو بھیجا وہ بھی واپس آگئے پھر پروردگار عالم نے اسرافیل علیہ السلام کو بھیجا وہ
بھی اسی طرح خالی ہاتھ واپس آ گئے ۔ پھر پروردگار عالم نے حضرت عزرائیل علیہ السلام کو بھیجا تو عزرائیل علیہ السلام نے زمین کی منت وزاری نہ سنی اور کہا کہ میں اللہ تعالی کے حکم کو تیری منت وزاری پر نہیں چھوڑ سکتا۔ میں خدا تعالی کا تابعدار ہوں ملک الموت فرشتہ مٹی لیکر واپس آ گیا پھر پروردگار عالم نے روحوں کے قبض کرنے کا کام اس کے سپرد کیا۔پھر اللہ تعالی نے فرمایا اس مشت خاک کو جہاں پر اب کعبہ مکرمہ ہے وہاں رکھو۔پھر چالیس دن اس پر بارش برسائی انتالیس ۳۹ دن غم کی بارش اور ایک دن خوشی کی بارش برسائی گئی۔اس واسطے ہر آدمی اکثر فکرورنج وغم فکر واندیشہ میں مبتلا رہتا ہے اور خوشی بہت کم ہوتی ہے ۔فرشتوں نے خدا تعالی کے حکم کےمطابق اس خاک کا گارا بنایا پھر وہ کیچڑ خشک کیا گیا جیسا کہ کمہار برتن خشک کرتا ہے پھر وہ برتن آواز کرتا ہے۔پھر اس گارے کو خدا کے حکم سے وادی نعمان جو مکہ اور طائف کے راستے میں عرفات سے متصل ہے لیجا کر فرشتوں نے ڈالا ۔ پھر حق تعالی نے اپنے دست قدرت سے اس گارے
سے حضرت آدم علیہ السلام کا خوبصورت قالب بنایا پھر فرشتے اس قالب کو دیکھ کر حیران ہو گئے اور اس کے گردا گرد پھرتے رہتے اور ابلیس بھی اس قالب کو دیکھنے کو آیا اور تعجب سے کہا کہ یہ جسم اندر سے خالی ہے اور جگہ جگہ خلل میں یہ بغیر سیر ہونے کے پر نہ ہوگا اور اگر سیر ہو جاۓ تو پھٹ جاۓ گا اور چلنے پھرنے میں سست ہوگا اوراس سے کوئی کام نہ ہو سکے گا مگر جب
سینہ بائیں طرف سے دیکھا تو کہنے لگا کہ یہ حجرہ بغیر دروازہ کے ہے میں نہیں جانتا کہ اس میں کیا چیز پوشیدہ ہے شاید یہ وہی لطیفہ ربانی ہو کہ جس
کے سبب سے خلافت کا استحقاق حاصل کرے۔( تفسیر فتح العزیز ) بعض روایت میں ہے کہ وہ قالب چالیس سال تک وہاں ہی بے جان پڑا رہا
جب پروردگار عالم جل جلالہ نے چاہا تو اس قالب میں روح کو داخل ہونے کا حکم دیا کہ ادخل ايهاالروح في هذه الجسد یعنی داخل ہو جا
اے روح اس بدن میں۔جب روح اللہ تعالی کے حکم سے سر کی طرف سے داخل ہوئی تو جہاں جہاں تک روح پہنچی گئی وہ خاکی بدن جو ٹھیکری کی طرح تھا گوشت پوست ہڈی سے بدلتا گیا جب روح سینہ تک پہنچی تو حضرت آدم علیہ السلام نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو وہ وہیں زمین پر گر گئے حق تعالی جل جلالہ نے فرماياوكان الإنسان عجولاء یعنی پیدا کیا گیا انسان جلد باز۔ پھر
اسی حالت میں آدم علیہ السلام کو چھینک آئی تو الہام الہی سے آدم علیہ السلام
نے کہا الحمد لله ، یعنی سب تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں اس کے جواب میں پروردگار عالم جل جلالہ نے فرمایایرحمک اللہ یعنی تیرے پر اللہ تعالی رحم کرے اس کے بعد حکم الہی سے ایک فرشتہ بہشت سے ایک مرضع جوڑا لایا اور آدم علیہ السلام کو خلعت الہی سے مشرف ومکرم کیا اور عزت سے تخت پر بٹھایا وہ جمعۃ المبارک کا دن تھا۔
میثاق تفسیر عزیزی میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے تمام بدن میں روح پھیل
گئی تو حکم ہوا کہ فرشتوں کے پاس جا اور ان کو السلام علیک کر پھر دیکھ کہ کیاجواب دیتے ہیں پھر آدم علیہ السلام فرشتوں کی طرف گزرے اور کہاالسلام علیکم تو فرشتوں نے کہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا ت حکم ہوا کہ یہی کلمات تحسینہ تیرے اور تیری اولاد کے لئے ہم نے مقرر کئے پھر آدم علیہ السلام نے عرض کیا کہ خداوندا میری ذریت کیا ہے فرمایا کہ ذریت تیری میرے دونوں ہاتھوں میں ہے ان دونوں ہاتھوں میں سے جس کو تو چاہے اس میں سے پہلے تجھ کو دکھلاؤں حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا کہ میں پہلے دایاں ہاتھ اختیار کرتا ہوں پھر پروردگار عالم جل جلالہ نے اپنا قدرتی دایاں ہاتھ حضرت آدم علیہ السلام کی پشت پر پھیرا تو ان کی پشت سے جس قدر نیک بخت لوگ قیامت تک پیدا ہونگے ان کی صورتیں حضرت آدم علیہ السلام کو دکھائیں پھر دوسرا ہاتھ حضرت آدم علیہ السلام کی پشت پر پھیرا تو بد بختوں کو نکالا اور حضرت آدم علیہ السلام کو دکھلاۓ آدم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی صورتیں دیکھیں ان میں بڑا فرق نظر آیا
خوبصورت اور بدصورت تونگر اور مفلس لمبے قد چھوٹے قد اندھے لولے وغیرہ وغیرہ۔ پھر اللہ تعالی نے ان سے عہد لیا ۔ ( تفسیر عزیزی ) لیکن
حضرت عبداللہ بن عباس سے جو بروایت قوی امام احمد ونسائی اور حاکم نے نقل کیا ہے کہ یہ عہد واقرار جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اتارا گیا تھا اس وقت لیا گیا اور مقام اقرار وادی نعمان ہے جو میدان عرفات کے نام سے مشہور ہے۔ (تفسیر مظہری وتفسیر معارف القرآن )
واللہ اعلم بالصواب ۔
اللہ تعالی جل جلالہ ، نے سب نیک اور بد کی روحوں کو آدم علیہ السلام کی پشت سے نکال کر وادی نعمان میں عہد و پیمان لیا۔ارشاد فرمایا کہ بتاؤ کیا میں تمہارا رب نہیں سب روحیں کہنے لگیں کیوں نہیں ضرور ہمارا رب ہے جیسا کہ پروردگار عالم جل جلالہ نے ارشاد فرمایا۔ وَإِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ اور جب آپ کے رب نے آدم کی مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمُ پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان عَلَى أَنْفُسِهِمْ اَلَسْت بِرَبِّكُمُ سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا اَنْ تَقُولُوا میں تمہارا رب نہیں ہوں سب نے يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّا كُنَّا عَن هذا غفِلِينَ جواب دیا کہ کیوں نہیں ہم سب گواہ ہیں تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے۔ ( پارو ۹ رسوره اعراف رکوع ۲۲) پروردگار عالم جل جلالہ نے آدم علیہ السلام کی ذریت کو ان کی پشت سے روز ازل میں باہر نکالا اور انھوں نے اپنے نفوس پر خود گواہی دے دی کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ حضرت ضحاک نے فرمایا کہ روز ازل میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چھوا تو اس سے وہ روحیں نکل پڑیں جو قیامت تک نسل آدم سے ہونے والی تھیں پھر ان سے وعدہ لیا گیا کہ عبادت صرف اللہ کی کریں گے اور کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔جب تک یہ اہل میثاق پیدا ہوتے جائیں گے قیامت نہ آئے گی۔حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جب پروردگار عالم جل جلالہ نے آدم علیہ السلام سے ذریات نکالی تو اس طرح نکلی جیسے کنگھی کرنے سے بال کنگھی کے اندر ہو جاتے ہیں اس میثاق میں فرشتے بھی گواہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی جل جلالہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے ان کی پیٹھ پر جب ہاتھ پھیرا تو ذریات نکلنا
شروع ہو گئیں تو فرمایا کہ فلاں فلاں تو جنتی ہیں کیونکہ اہل بخت ہی کا سہا عمل کر یں گے۔ اور یہ دوزخی ہیں کیونکہ اہل نار کا سا عمل کرینگے کسی
نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وہاں طے ہو چکا ہے تو پرعمل کرنے کی کیا ضرورت ہے، فرمایا اللہ کا وہی بندہ جنت کے لئے پیدا کیا گیا جس کے عمل جنتیوں کے ہو نگے ،اور دوزخی وہی ہے جو دوزخیوں کے کام کرے اور اسی عمل پرقبل از توبہ دم ٹوٹے۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب روحیں حضرت آدم سے ظاہر ہوئیں تو ہر انسان کے ماتھے پر ایک روشنی چمک رہی تھی ، تمام نسل کو آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا۔ آدم علیہ السلام نے دریافت کیا کہ اے رب یہ کون ہیں فرمایا یہ تمہاری نسل ہے ایک شخص کے چہرے پر بہت زیادہ روشنی تھی آدم نے دریافت کیا یا رب یہ کون ہے فرمایا یہ داؤدعلیہ السلام ہیں آدم نے دریافت کیا ان کی عمر
کیا ہے فرمایا ساٹھ ۲۰ سال ہے آدم علیہ السلام نے کہا اے رب میں نے اپنی عمر سے چالیس سال اس کو دیدیئے لیکن جب آدم علیہ السلام کی عمر ختم
ہوئی ملک الموت فرشتہ آیا تو آدم نے کہا ابھی تو میری عمر سے چالیس سال
باقی ہیں جواب دیا یہ چالیس سال تو نے اپنے بیٹے داؤد علیہ السلام کو نہیں دیئے تھے تو آدم علیہ السلام نے انکار کر دیا۔ یہی انکار کی خو ان کی نسل میں پڑگئی کیوں کہ آدم بھول گئے تھے یہ بھول چوک اب نسل میں بھی ہے۔ آدم نے اپنی ذریت دیکھی اس میں بیمار جزامی برص والے اندھے وغیرہ سب تھے انبیاء علیہم السلام سراپا نور تھے۔میثاق کے عہد پر آسمان اور زمین بھی گواہ ہوئے تا کہ قیامت کے دن کچھ عذر نہ ہو۔آدم نے اپنی ذریت میں غنی فقیر خوبصورت بدصورت سب دیکھے۔ (تفسیر ابن کثیر ) میثاق کے وعدے اور قول اقرار اور گواہی کو پروردگار عالم جل جلالہ نے حجر اسود میں امانت کر کے رکھ دیا تھا۔حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جو کوئی حج کرے گا حجر اسود اس کی گواہی دے گا۔حضرت آدم نے جب اپنی اولاد دیکھی تو عرض کیا اے رب یہ دنیا میں کس طرح سمائیں گے پر وردگار عالم جل جلالہ، نے فرمایا کسی کو زمین میں رکھوں گا یعنی مرجائیں گے اور کسی کو ماؤں کے پیٹوں میں اور کسی کو باپوں کی پشتوں میں رکھوں گا۔ امام مالک ابو داؤد و ترمذی اور امام احمد نے بروایت مسلم بن سیار نقل کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت فاروق اعظم سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے آدم کو پیدا فرمایا پھر اپنا دست قدرت ان کی پشت پر پھیرا تو ان کی پشت سے جو نیک انسان پیدا ہونے والے تھے وہ نکل آئے تو فرمایا کہ ان کو میں نے جنت کے لئے پیدا کیا اور یہ جنت ہی کے کام کریں گے۔ پھر دوسری مرتبہ ان کی پشت پر اپنا دست قدرت پھیرا تو جتنے گناہگار بدکردار انسان ان کی نسل سے پیدا ہونے والے نہ تھے ان کو نکالا، پھر فرمایا ان کو میں نے دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ دوزخ میں جانے ہی کے کام کریں گے اور امام احمد کی روایت میں یہ مضمون بروایت ابوداؤد منقول ہے کہ پہلی مرتبہ جولوگ آدم کی پشت سے نکلے تھے وہ سفید رنگ کے تھے اور دوسری مرتبہ سیاہ رنگ کے تھے جن کو اہل دوزخ قرار دیا۔ اور ترمذی میں یہی مضمون بروایت ابو ہریرہ منقول ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد آدم سے جو ظہور میں آئی ان میں سے ہر ایک کی پیشانی پر ایک خاص قسم کی چمک تھی اور ارواح کو ایک چیونٹی کے جثہ میں پیدا فرمایا تھا۔ اور تمام ارواح کو عقل شعور عطا فرما کر عہد لیا تھا۔دراصل اسی اقرار نے ہر انسان کے دل میں معرفت حق کا ایک بیج ڈال دیا جو پرورش پا رہا ہے چاہے اس کو خبر ہو یا نہ ہو۔ اور اسی پیج کے پھل پھول ہیں کہ ہر انسان کی فطرت میں حق تعالی کی عزت و عظمت پائی جاتی ہے۔ اور بعض اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہیں کہ جن کو وہ اقرار یاد ہے جیسا کہ حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا کہ یہ عہد و میثاق مجھے ایسا یاد ہے گویا کہ اس وقت سن رہا ہوں ۔
(تفسیر معارف القرآن)