
حقیقت یہ ھے کہ علم و شعور نہ ھونے کے وجہ سے اگر ایک طرف ریاست کے قواعد و ضوابط پر عمل در آمد کرنا عام لوگوں کے لئے آسان نہیں تو دوسری طرف شعور اور آگاہی نہ ھونے کے باعث عام لوگ ان ہی ریاستی یا نجی اداروں سے اپنے جائز حقوق سے بھی محروم ھوتے رھتے ہیں۔ چونکہ ریاستی اداروں کے زیادہ تر وسائل عوام ھی سے پورے کئے جاتے ہیں لہذا ان وسائل کے حصول کے لئے عوام پر بہت زیادہ بوجھ ڈالا جا رھا ھے ان اداروں میں بجلی ۔گیس وغیرہ کے محکمے سر فہرست ھے۔ مگر ان ریاستی یا عوام کو سہولیات کے فراھمی کے اداروں کے علاوہ بہت سے اور محکمے اور ادارے بھی ھے جن کے بارے میں عوام کو کوئی خبر یا علم ھی نہیں ۔ فوج یا دفاعی اداروں اور عدلیہ کے علاوہ دیگر اداروں کے عام لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہا زیادتیوں کے ازالے کے لئے حکومت نے وفاقی اور صوبائی سطح پر محتسب کے ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ 1993 میں وفاقی محتسب کے ادارے کے قیام لے بعد زیادہ تر درخواستیں بجلی کے ناجائز بلوں کے بارے میں دائر کئے جاتے ہیں مگر اس کے علاوہ اس ادارے کے دیگر ریاستی یا نجی اداروں پر بہت زیادہ اثر و رسوخ ھے اور اگر عوام کو اس بارے میں آگاہی اور شعور حاصل ھو جائے تو اس سے منسلک لوگوں کو بہت زیادہ فائدہ مل سکتا ھے ۔ وفاقی سطح پر محتسب کا عہدہ سابق چیف سیکرٹری اور سینئر سول بیوروکریٹ اعجاز احمد قریشی کے پاس ھے جبکہ اس ادارے کے خیبر پختونخوا کے چار علاقائی یا ریجنل دفاتر کے لئے اختیارات ایک اور سینئر ریٹائرڈ سول بیوروکریٹ مشتاق جدون کو تفویض کر دئے گئے ہیں۔ ویسے تو اعجاز قریشی جب بھی پشاور یا آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان آتے جاتے ہیں تو وہ ضرور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرتے رھتے ھے مگر اس بار مشتاق جدون صاحب نے پشاور کے صحافیوں کے ساتھ ایک طویل نشست کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے کہا کہ عام لوگوں کے مختلف سرکاری نیم سرکاری خودمختار اور نجی اداروں کے ساتھ کم کرنے یا منسلک ھونے کے بعد اپنے جائز حقوق کے بارے میں شعور اور آگاہی نہیں ہے اسی وجہ سے انہوں نے اس سلسلے میں ایک مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ھے ۔ بجلی اور گیس کے علاوہ تیرہ دیگر محکموں یا اداروں سے عوام اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے وفاقی محتسب کے ادارے سے رجوع کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیگر عدالتوں کے نسبت محتسب کے ذریعے انصاف کے حصول یا ازالے کا طریقہ کا نہایت آسان ھے اور ہر متاثرہ شخص ایک سادہ کاغذ پر اپنے ساتھ ھونے والی زیادتی یا حقوق کے حصول کے لئے درخواست جمع کر سکتا ھے ۔ محتسب کا دفتر اس درخواست پر ساٹھ دن یا دو مہینوں میں فیصلہ کریگا اور فیصلے پر عمل در آمد تیس دنوں یا ایک مہینے میں ھوگا ۔ ویسے تو مشتاق جدون صاحب نے دوران گفتگو بہت کار آمد باتیں بتائی مگر ان کار آمد باتوں میں سب سے اھم نجی اداروں اور کمپنیوں سے منسلک مزدوروں کو نہ صرف حکومت کے مقرر کردہ اجرت یا تنخواہوں کی ادائیگی ھے بلکہ انکو پنشن یا حادثات کی صورت میں معاوضوں کی ادائیگی بھی ھے ۔ انہوں نے کہا کہ ہر اس ادارے کے انتظامیہ پر فرض ھے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے مزدوروں کا ریکارڈ رکھے اور انکو Old Age Benifet Employees کے تحت کارڈ فراھم کردے اور ماہانہ بنیادوں پر اس شخص کے تنخواہ سے مقرر کردہ کٹوتی کرکے اس کے ساتھ ادارے کا رقم بھی متعلقہ بنک میں جمع کردے یہی رقم بعد از ملازمت ماہانہ پنشن کے طور پر متعلقہ شخص یا بعد از مرگ انکے بیوہ کو ادا کیا جائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ کاروبار یا کارخانے معدنیات یعنی ماربل اور کوئلے کے شعبوں سے ھے لہذا انکی کوشش ھے کہ ان شعبوں سے منسلک مزدوروں کی بہتر مستقبل کے لئے متعلقہ لوگوں میں شعور اجاگر کرے ۔ معدنیات کے شعبے سے منسلک تمام تر اجروں اور مزدوروں کی رجسٹریشن پر بھی توجہ دی جائیگی ۔ اسی طرح زراعت کے شعبے میں غلام دھقان کا مسئلہ بھی بہت پرانا ھے لہذا اسی شعبے میں غلاموں جیسی زندگیاں گزارنے والے مزارع میں بھی آگاہی کی ضرورت ھے ۔ مشتاق جدون نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر پشاور کے بی آر ٹی بسوں میں ایک لوگ سفر کرتے ہیں لہذا انہوں نے بی آر ٹی کے تمام 27 اسٹیشنوں پر آگاہی سٹال قائم کرنے کا فیصلہ کیا ھے اسی طرح صوبے بھر کے تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں بھی بحث و مباحثے کے انعقاد کے لئے منصوبہ بندی کی جا رھی ھے ۔ مشتاق جدون کے بقول اگر عام لوگوں کو محتسب کے دفتر اور انکے فرائث کا پتہ لگ جائے تو نہ صرف مختلف ریاستی۔ نیم سرکاری خودمختار اور نجی اداروں کی کارکردگی بہتر ھو جائیگی بلکہ اس سے عوام کو درپیش بہت سے مسائل با آسانی حل ھونے کی بھی توقع ھے ۔