
گورنمنٹ ہائی سکول نواں کلی، صوابی (کرنل شیر کلی)
پشاور — یہ ایک انتہائی حیران کن اور جذباتی ماحول تھا جب گورنمنٹ ہائی سکول نواں کلی ( جو اب کیپٹن کرنل شیر خان کلی کے نام سے جان اور پکارا جاتا ھے )کے 1975 کے پشاور بورڈ کے زیر انتظام بورڈ اف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے تحت 10ویں جماعت کے فارغ التحصیل تقریباً 32 سابق طلباء اتوار کو 49 سال بعد پہلی بار ایک مختصر مگر پرکشش اجتماع کا انعقاد کیا۔ ان میں سے تقریباً تمام نہ صرف سفید ریش بلکہ پوتے پوتیوں نواسوں اور نواسیوں والے بھی تھے ان میں سے صرف چند ایک ایسے ھی تھے جیسے وہ 1972-75 کے اسکول کے دور چست و چابک تھے ۔ سوائے سابقہ کلاس مانیٹرز احمد سعید سیکشن اے اور انجینئر سعید الزماں سیکشن بی ۔ باقی تمام کے وہ بچپن اور لڑکپن والے چہرے سفید سفید داڑھیوں میں تبدیل ھوئے تھے ۔ یہ چند لمحے یقینا تمام کے زندگی کچھ بہت زیادہ حیرت انگیز تھے ۔ یہ نہایت خوشی اور حیرت کا موقع تھا اور کوئی بھی ایک دوسرے کے ساتھ پانچ دہائیوں والے سابقہ تعلقات کو مد نظر رکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ اس اھم موقع کے انعقاد کا تمام تر کریڈٹ انجینئر سعید الزماں کے علاوہ کسی اور کو نہیں جاتا ۔ سعید الزماں کا تعلق صوابی مردان روڈ پر واقع ایک چھوٹے سے گاوں سیریئ سے ہے ۔ یہ گاوں صوابی کے مندنڑ یوسفزئ کے دو بڑے قبیلوں رزڑ اور عمر خیل کو ایک دوسرے سے ملاتے ہیں۔ سوشل میڈیا (واٹس ایپ) کی مدد سے سعید الزماں نے الہام الدین ۔ شمس الرحمٰن اور فضل مالک کے ساتھ ملکر نہ صرف پچاس سال قبل ایک دوسرے سے بچھڑنے والے تقریباً ان 35 افراد کو اکٹھا کیا۔ جنہوں نے 1975 میں اپنی 10ویں جماعت مکمل کی تھی۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں، واٹس ایپ گروپ کی مضبوطی (سیشن 1973-75 گورنمنٹ ہائی اسکول کی تعداد 40 سے زائد ہوگئی ھے ،) یہ گروپ اب سیکشن اے اور بی دونوں کے طلباء پر مشتمل ھے۔ ان بکھرے ھوئے ساتھیوں میں لگ بھگ تینتیس اتوار کے روز صوابی انٹر چینج (جسے امبار بھی کہا جاتا ہے) کے ایک ریسٹورنٹ میں ایک مختصر لیکن انتہائی متاثر کن اور تاریخی اجتماع میں جمع ہوئے۔ حیرانگی کی بات یہ نہیں کہ کسی زمانے میں ایک ھی اسکول کے ایک ھی جماعت میں پڑھنے والے مل بیٹھ گئے ۔ حیرانگی کی بات یہ ھے کہ کس طرح یہ دور دراز کے علاقوں میں بسنے والے تقریب میں شریک ھوئے ۔ ویسے تو گورنمنٹ ھائی سکول نوانکلی( کرنل شیر خان کلی) صوابی کے بعد کسی وقت میں دوسرا اھم تدریسی ادارہ تھا اسی وجہ سے یہاں پر صوابی کے علاوہ مردان کے شہباز گڑھی اور بنیر تک کے طلبا حصول تعلیم کے کئے آتے تھے ۔ تقریب میں شرکت کرنے والوں میں سے بیشتر پشاور اور اسلام آباد میں ان رھتے بستے ہیں اور یہی لوگ اپنے سابقہ کلاس فیلوز اور ڈیسک فیلوز سے ملنے کے لئے تقریب میں شرکت کے لئے بروقت پہنچ گئے تھے۔ سب سے زیادہ مسافت طے کرنے والا ہر دلعزیز ٹیری کرک سے تعلق رکھنے والا عرفان خٹک ھے جنہوں نے ایک طرف سے 235 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا ۔ 1973 ۔1975 کے دوران کرک کوہاٹ ضلعے کا تحصیل تھا تو اس وقت نویں جماعت کے طلباء کے مرحوم استاد محترم حسین احمد صاحب کے ساتھ تعارف کرتے وقت عرفان نے جب کہا کہ انکا تعلق ٹیری کوہاٹ سے ھے تو مرحوم حسین احمد صاحب نے فورا کہا کہ آپ تو ٹیری کے نواب لگتے ہیں۔ مختصر مگر نہایت پر وقار تقریب کے شروع ھوتے ھی دور دراز سے جمع ھونے والے شرکاء ایک دوسرے کے ساتھ علیک سلیک کرتے وقت اور تعارف کرتے وقت ایک دوسرے کو نہایت حیران کن نظروں سے دیکھتے تھے۔ مع سوائے تقریب کے کنوینر سعید الزماں جو سیکشن بی کے کلاس مانیٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں سیکشن اے کے مانیےر احمد سعید جنکا تعلق ترلاندی گاؤں سے ھے باقی سب بزرگ اور سفید ریش تھے ۔ احمد سعید اسی طرح نوجوان، ہوشیار، صحت مند اور کلین شیو پائے گئے۔ انجینئر سعید الزماں اپنی زندگی کے 25 سال سعودی عرب میں گزارنے کے بعد اب اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ احمد سعید نے بینکنگ کے شعبے میں خدمات انجام دی ھے اور لگ بھگ تین سال ایک انتہائی باوقار عہدے پر کام کرتے ھوئے ریٹائر ہوچکے ہیں ۔ حمزہ ڈھیر گاؤں کا نرم زبان خان حسین اب صوابی اور مردان میں وکالت کے شعبے سے منسلک ھے ۔ سب سے زیادہ دلچسپ شخصیت کے مالک فقیر زمان پائے گئے جنہوں نے کالو خان قصبے سے تعلق رکھنے والے اردو کے استاد مرحوم رجب خان کی طرح چہرے پر داڑھی سجا رکھی ہوئی تھی۔
گاؤں آسوٹا شریف سے تعلق رکھنے والے عبدالدیان نے کراچی میں پولیس انٹیلی جنس اسکواڈز میں خدمات انجام دی ھے اور اب ان کے تقریباً بچے (ایک درجن سے زائد) یورپی دنیا میں ہیں۔ سبحان اللہ جو ڈیرہ اسماعیل خان کے سخت اور خراب موسم کی وجہ سے مایوس ہوکر ایم اے جرنلزم نہیں کر سکے تھے چند سال قبل پاکستان پوسٹ سے ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر کی حیثیت سے ریٹائر ھونے کے بعد اب آبائی شہر نواں کلی میں مقیم ہیں۔ سبحان نے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا تھا لیکن گرم اور سخت موسم کی وجہ سے پریشان ہو گئے تھے اور مختصر چھٹیوں پر صوابی اکر پھر ڈیرہ پھلا دا سہرا نہیں دیکھ سکے ھے البتہ انکا بیگ بسترہ بعد میں ایک دوست لیکر ائے تھے ۔ نوانکلی کے تاریخی مسجد سپین جماعت کے تعمیر کرنے والے دادا کے پوتے سردار غنی اچھی بھلی سیکورٹی فورسز کی ملازمت چھوڑ کر بزرگوں کے کہنے پر درس و تدریس میں جوانی گزارنے کے بعد اب ریٹائرڈ ھوچکے ھیں ۔ رزڑ تحصیل کے گاؤں مناگی کے محمد اقبال خان نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز میں اہم عہدوں پر خدمات سر انجام دی ھے تراکی گاؤں کے شاعر فضل یزدان نے محکمہ تعلیم میں خدمات انجام دیں۔ فقیر زمان، فضل ملک کی طرح رشکئی گاؤں سے تعلق رکھنے والے شیر علی خان کا بھی یہی حال تھا۔ صوابی سے ملحقہ ضلع بنیر کے گاوں طوطالئی سے تعلق رکھنے والے شمس الرحمان نے خیبر پختونخواہ کے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے محکمے میں خدمات انجام دی ھے ں اور اب بھی وہ سعودی عرب کی ایک فرم کے ساتھ کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرتے ہوئے ” ریٹائرمنٹ کے بعد مزید کمائی” پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ تراکی گاؤں سے تعلق رکھنے والے جہاں افسر نے مسلح افواج میں خدمات انجام دی ھے اور میجر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ھوچکے ھے۔ میڈیا کی دنیا میں شمیم شاہد کے نام سے جانے پہچاننے والے محمد شمیم نے میٹس اور فیلوز کو بتایا کہ ایڈوکیٹ خان حسین کی طرح وہ بھی گزشتہ 40 سالوں میں مختلف عہدوں پر میڈیا کے مختلف اداروں میں خدمات انجام دینے کے بعد اب بھی برسر روزگار ھے ۔ دوران گفتگو اور تعارف کے وقت ضلع کرک کے گاؤں تیری سے تعلق رکھنے والے عرفان خٹک نے اس وقت بہت زیادہ تعریفیں کمائیں جب وہ تقریباً 250 کلومیٹر (ایک طرف سے) کا طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد دوستوں میں شامل ہوا۔ خٹک کے والد میونسپل کمیٹی نواں کلی میں ملازم تھے، اس لیے انہوں نے کزن جاوید خٹک کے ساتھ مل کر نوان کلی سے تعلیم حاصل کی۔ اب عرفان غوری زئی کے نام سے پکارے جانے والے خٹک نے بطور XEN لوکل گورنمنٹ میں خدمات انجام دی ہیں اور وہ اپنی مزاح اور دوستی کے لیے زیادہ پرکشش ہیں۔ گاؤں سیرئی سے سرنداز، چارباغ باچائی سے سراج الدین، تراکئی سے محمد اقبال اور دیگر نے بھی پرانی یادیں اور تجربات دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔ کسی وقت کے کلاس فیلوز اور ڈیسک میٹس کا یہ مختصر لیکن متاثر کن اجتماع کا آغاز مرحوم اساتذہ اور ساتھیوں کی روح کے ایصال ثواب کے لیے دعا سے ہوا۔ چار گھنٹے سے زائد نشست کے دوران تمام مرحوم اساتذہ جیسے ہیڈ ماسٹر محمد جنید خان، میتھس ٹیچر حسین احمد، سائنس ٹیچر محمد حیات خان، اردو ٹیچر رجب خان، ہسٹری ٹیچر عبدالباقی، فزیالوجی ہائیجین ٹیچر محمد یعقوب خان (پروفیسر ڈاکٹر یاسین اقبال کے والد جنہوں نے باوقار تعلیمی اور انتظامی عہدوں پر پشاور یونیورسٹی میں خدمات انجام دی ھے ) فضل اکبر، نور جمال اور دیگر۔ ۔ اسی طرح کسی وقت کے بھکرے ھوئے دوستوں نے اپنے مرحوم کلاس فیلوز جن میں طوطالئی کے فیض الرحمان، چارباغ کے روشم خان ترکی کے قمر زمان، نوانکلی کے محمد فضل خان اور رشید باچا ۔ شیخ جانہ کے سرتاج خان اور دیگر مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لیے بھی دعا کی ہے۔
کوآرڈینیٹر انجینئر سعید الزماں نے اپنے اختتامی کلمات میں تمام دوستوں اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انکے لیے اس سے بہتر خوشی کا کوئی اور موقع نہیں کیونکہ اج بہت سے نچھڑے ھوئے دوستوں اور ساتھیوں کی ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات ھوگئی اس موقع پر چار رکنی کمیٹی نے اعلان کیا کہ اگلا اجلاس آئندہ 29 دسمبر کو ہوگا اور مقام اور وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔