زندگی کی تیز رفتار دوڑ میں، جہاں ہر دن نئے چہرے، نئے تعلقات اور نئے تجربات لے کر آتا ہے، کیا پرانے دوست محض ایک بوجھ بن جاتے ہیں؟ یہ سوال بظاہر سادہ لگتا ہے، لیکن اس کے جواب میں زندگی کی گہری حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں۔
پرانے دوستوں کو بوجھ سمجھنے کا خیال شاید اس وقت آتا ہے جب ہم اپنی زندگی میں آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ نئی ذمہ داریاں، نئے مقاصد اور نئے لوگ ہماری توجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ ایسے میں، پرانے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا، ان کی خیریت پوچھنا یا ان کے مسائل سننا ایک اضافی کام محسوس ہو سکتا ہے۔
لیکن کیا یہ سوچ درست ہے؟ کیا ہم اپنے ماضی کے اہم حصے کو صرف اس لیے نظرانداز کر سکتے ہیں کہ وہ ہماری موجودہ زندگی میں فٹ نہیں بیٹھتا؟ شاید نہیں۔
پرانے دوست ہماری زندگی کا وہ خزانہ ہیں جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ وہ یادیں شیئر کرتے ہیں جو ہمیں بنانے میں مدد گار ثابت ہوئیں۔ وہ ہمارے لیے ایک آئینہ کی طرح ہیں، جو ہمیں دکھاتے ہیں کہ ہم کتنا بدل گئے ہیں اور کہاں اب بھی وہی ہیں۔
ایک بہت بڑے فلاسفر کا کہنا ہے کہ تمہارے ہر درد کی دوا تمہارے پرانے دوست ہیں، اپنے پرانے سکول کالج کے دوستوں سے رشتہ رکھا کرو، یہ وہ حکیم ہے جو الفاظ سے علاج کر دیتے ہیں، عمر کی چادر کھینچ کر اتار دیتے ہیں، یہ کمبخت دوست کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتے، بچے وصیت پوچھتے ہیں رشتے حیثیت پوچھتے ہیں وہ دوست ہی ہے جو اپ سے اپ کی خیریت پوچھتے ہیں۔
البتہ، یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر پرانا دوست ہمیشہ ہماری زندگی کا حصہ نہیں رہ سکتا۔ لوگ بدلتے ہیں، حالات بدلتے ہیں، اور کبھی کبھی راستے الگ ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے پرانے دوستوں کو بوجھ سمجھ کر ان سے پیچھا چھڑا لیں۔
بلکہ، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے پرانے دوستوں کی قدر کریں۔ ان کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کریں۔ ان سے سیکھے گئے سبق کو اپنائیں۔ اور جہاں ممکن ہو، ان تعلقات کو نئے انداز میں پروان چڑھائیں۔
آخر میں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پرانے دوست بوجھ نہیں، بلکہ ایک ایسا خزانہ ہیں جو ہماری زندگی کو مزید معنی خیز اور خوبصورت بناتے ہیں۔ ان کی قدر کرنا، ان سے رابطہ رکھنا، اور ان کے ساتھ نئی یادیں بنانا ہماری زندگی کو مزید غنی بنا سکتا ہے۔ کیونکہ آخر کار، زندگی صرف آگے بڑھنے کا نام نہیں، بلکہ اپنی جڑوں سے جڑے رہنے کا بھی نام ہے۔
زندہ رہنے کے بہانے ڈھونڈیں
آؤ کچھ دوست پرانے ڈھونڈیں