پاکستان میں معیاری تعلیم کے فروغ میں امریکا کا کلیدی کردار

ایوب پیرزادہ

Spread the love

عالمی تجارت اور آن لائن فری مارکیٹ کی اس سائبر دنیا ،جہاں لگ بھگ 105ممالک بستے ہیں، کے مابین بین الاقوامی تعلقات ِ عامہ کی جتنی اہمیت آج ہے، اتنی پہلے کبھی نہ تھی،جنھیں پروان چڑھانے کے لیے پاکستان روزِ اول سے کوشاں رہا ہے۔قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد ہی پاکستان اقوامِ متحدہ کا رکن بنا اور عالمی امن و بھائی چارے کو پروان چڑھانے کے لیے امریکا کے ساتھ تعلقات کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ تیکنیکی و مالیاتی تعاون و اشتراک کی راہیں بھی ہم وار ہوئیں۔

ریاستہائے متحدہ امریکا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کےدرمیان تعلقات و معاونت کی تاریخ میں کئی نشیب و فراز آئے،جنھیں کبھی خوشی کبھی غم سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، تاہم اس اونچ نیچ کے باوجود ہم تعلیم و صحت کے شعبے میں امریکی خدمات کو فراموش نہیں کرسکتے، جن میں 9/11کے بعد تیزی اور نکھار آیا۔

پاکستان میں معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے امریکا نےجنوری 2002میں ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز اسسٹنس(ESRA)کے نام سے تعلیمی اصلاحات متعارف کیں،جس کے تحت تعلیم کے معیار، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز کی تعمیر و جدت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے نہ صرف طالب علموں بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی بلکہ اساتذہ کو بھی جدید خطوط پر تربیت دی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسکول، کالج، یونیورسٹی فیکلٹی کی انتظامیہ کو تربیت مہیا کرتے ہوئے انھیں ’’آن لائن ڈیجیٹل ایجوکیشن‘‘ کے تقاضوں سے بھی روشناس کیا۔

2003میں امریکا نے فاٹا کی5  ایجنسیوں میں 65پرائمری اور ہائی اسکولز کی تعمیر و مرمت کرنے کا پروگرام شروع کرکے تعلیم یافتہ فاٹا کی مہم شروع کی۔2010کا سال پاکستان کی تعلیم و خواندگی کے فروغ کے حوالے سے اہم پیش رفت کا حامل رہا، جب’’ یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹر نیشنل ڈیولپمنٹ‘‘(USAID) نے حکومت پاکستان اورچاروں صوبائی حکومتوں بشمول آزاد جموں و کشمیر کےساتھ ملکرپرائمری، سیکنڈری اور اعلیٰ معیاری تعلیم پر وسیع پروگرام شروع کیا۔امریکا میں پاکستانی طالب علموں کو پڑھنے کے لئےفل برائٹ اسکالر شپس کی تفویضگی کے ہمراہ اعلیٰ تعلیم و تدریس کے لئے ضرورت پر مبنی اسکالر شپس کے لئے فنڈز مہیا کئے، ساتھ ہی’’ یو ایس ایڈ پروگرام‘‘ اور’’ وزارتِ تعلیم، حکومتِ پاکستان‘‘ کے تعاون و اشتراک سے طالب علموں، اساتذہ اور والدین کا گروپ تشکیل دیا گیا تاکہ طلبا و طالبات کی کارکردگی کا جائزہ لیکر بہتری لائی جائے۔

2003میں حکومت پاکستان اور امریکی حکومت کے مابین سائنس و ٹیکنالوجی پر اشتراک و تعاون کا جامع پروگرام شروع کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوئے،جس سے پاکستان میں سائنس کے فروغ کی راہیں کھلیں اور ہمارے موجد طالب علموں نے گوگل، انٹل جیسے سائنس فیئر میں شرکت کرکے ملک کا نام روشن کیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ روس کے سائنسی میلوں میں بھی ہمارے سائنسی ذہن رکھنے والے موجدین نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا،جنکی تشہیر میں اردو میڈیا تو خاموش رہا لیکن انگلش میڈیا نے تدبر و سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کارہائے نمایاں کو اپنے صفحات میں جگہ دی۔

مالیاتی سال 2004سے 2005 تک پاکستان میں پرائمری تعلیم اور خواندگی کے فروغ میں امریکی معاونت میں 28ملین ڈالر سے 66ملین ڈالر اضافہ ہوا۔2005میں ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے تعاون و اشتراک سے یو ایس ایڈنے پاکستان کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں شمولیت اختیار کرکے پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کو ترقی یافتہ ممالک کے ہم مقابل کیا۔اس ضمن میںپاکستانی سائنسدانوں کے اپنے ہم منصب امریکہ کے سائنسدانوںاور سائنسی اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ اداروں اور جامعات سے روابط کو مضبوط بنانے اور وسعت دینے کے لیے ایچ ای سی پاکستان اور نیشنل اکیڈمی آف سائنس (NAS)یو ایس اے کے درمیان الحاق ہوا۔

2007میں فاٹا کی ترقی اور تعلیم کے لیے110ملین ڈالر کی امداد دی گئی۔2008 امریکی اور پاکستانی سائنس دانوں کے مابین تعاون و اشتراک کا سال ہے۔اسی برس کے مالیاتی سال میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے عمومی تعلیم کے فروغ  کے لیے 52ملین ڈالر اور آزاد جموں و کشمیر میں زلزلے سے منہدم ہونے والےاسکولوں اور صحت مراکز کی تعمیرِ نوکے لیے 50ملین ڈالر کی امداد منظور کی۔تعلیم اہداف کے حصول کے لیےیو ایس ایڈ نے ’’پاکستان ریڈنگ پروگرام‘‘ کے نام سے ایک پروجیکٹ شروع کیا،جسے پاکستان بھر کے3.2ملین بچوں کی پڑھنے کی لیاقت کو بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیاگیا، جس سے 51,500سے زائد طالب علموں ، اساتذہ اور افسران کوتربیت فراہم کی گئی۔19,500سے زائدذہین اور قابل طالب علموں کو امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپس تفویض کی گئیں۔اس میں خوش آئند تبدیلی 2014میں آئی جب 50فیصد اسکالر شپس یعنی 6000سے زائدخواتین کو دی گئیں۔امریکی معاونت سے پاکستان بھر میں تعمیر و مرمت ہونے والے600سے زائد اسکولوں سے 86000بچے تعلیم و تدریس سے مستفید ہورہے ہیں۔ساتھ ہی امریکا نے پاکستان میں 16تعلیمی سہولت اور اساتذہ تربیتی مراکز قائم کیے جس سے تقریباً 578,000لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی ممکن ہوئی۔اس  حمایت سے 12000سے زائد خواتین زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوچکی ہیں۔2012کا سال خواتین کی طاقت و خودمختاری میں اضافہ لایا جب9000سے زائد خواتین براہ راست جاب مارکیٹ میں داخل ہوئیں۔513000سے زائد خواتین کو نادرا کے ڈیٹا بیس میں شناخت ، صحت اورقانونی سہولتیں مہیا کیں، صنف پر مبنی تشدد کی شکار تقریباً59000خواتین کو مشاورتی خدمات بھی فراہم کیں۔

اکتوبر2015کو امریکا نے پاکستانی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے70ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا۔اس وقت 10سے 19سال کی200000سے زائدلڑکیاں ’’یو ایس ایڈ گرلز ایجوکیشن پروگرامز‘‘ سے استفادہ حاصل کر رہی ہیں۔’’لڑکیوں کو پڑھنے دو!‘‘ کے نام سے شروع کردہ پروگرام کے اثرات تیزی سے ابھر رہے ہیں، لڑکیوں کی تعلیم پر والدین کے دھیان میں اضافہ ہوا ہے جو روشن تعلیم یافتہ پاکستان کا امریکی تحفہ کہیں تو ماتھے پر شکن نہیں آنی چاہیے۔اسی برس پرائمری تعلیم کو فروغ دینے کے لئے 649ملیں ڈالر کی خطیر رقم موصول ہوئی اور 22اکتوبر کو ’’پاکستان۔یو ایس اے نالج کاریڈور ‘‘کے قیام پر اتفاقِ رائے ہوا۔یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجوکیشنل فائوندیشن اِن پاکستان(USEEP)کے پلیٹ فارم سےمختلف شہروں میں تعلیمی ہفتے منانے،اسپورٹس،آرٹس اور ثقافتی فیسٹولز کے انعقاد سے پاکستانی اور امریکی طالب علموں کے درمیان تعلقات استوار ہوئے۔

امریکا نے یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت دہشت گردی اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے نصاب اور اکیڈمی ، خاص طور پر پاکستان میں مذہبی تعلیم کے ذریعےمختلف مذاہب کے درمیان مذہبی ہم آہنگی کے پلیٹ فارم کی حمایت کرتے ہوئے نظام تعلیم میں اصلاحات کیں۔پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کے لیےمختلف قسم کے وظائف فراہم کیے گئے۔ پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے سائنس فیئر کا باقاعدہ انعقاد کیا گیا۔مختلف امریکی مندوبین نے تعلیمی کلچر کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔امریکہ اور پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے درمیان متعدد مفاہمتی پر دستخط کیے گئے۔

دونوں ممالک کے عوامی روابط کے لیے امریکہ نے پاکستان میں ورکشاپس اور تربیتی سیشن کا اہتمام کیا۔امریکی اور پاکستانی عوام کے درمیان تعلیمی و ثقافتی شعور کو اجاگر کرنے اور باہمی افہام و تفہیم کو بڑھانے کے لیے بیورو آف دی ایجوکیشنل اینڈ دی کلچرل افیئرز(BECA) کا  قیام عمل میں لایا گیا تاکہ پاک امریکا تعلقات مضبوط ہوں اور پُر امن ترقی کی راہیں ہموار ہوں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button