آئندہ ایسا کرو گے تو نتیجہ بھگت لوگے۔

نورین خان

Spread the love

تجارت میں بھی نرمی،سچائی اور ایمان داری سے کام لینا چاہیے۔

ناپ تول میں بھی کمی نہیں کرنی چاہیے۔

جو تاجر لوگ منافع خوری کے لئے جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور ناپ تول میں کمی بیشی کرتے ہیں

انکے پاس مال حرام کبھی ٹہرتا نہیں بلکہ نکل جاتا ہے۔

اسی طرح ہر ایک ساتھ اچھائی اور نرمی سے پیش آنا چاہیے۔

مکہ مکرمہ زمانہ جاہلیت میں بھی تجارت کا بڑا مرکز تھا۔

لوگ دور دور سے اپنے سامان تجارت کے ساتھ اس مقدس شہر میں آتے ۔

ابوجہل بن ہشام نہ صرف کفر کا سرغنہ تھا بلکہ وہ رسہ گیر بھی تھا، جس کو بھی چاہتا ذلیل کر دیتا۔

مارتا ، پیتا یا اس کے کاروبارکونقصان پہنچاتا۔

اس کے دل و دماغ میں فرعونیت بھری ہوئی تھی۔’’زبید‘‘ یمن کا بڑا تاریخی شہر ہے۔

وہاں کے رہنے والوں کوز بیدی کہا جا تا ہے ۔

ایک مرتبہ ایک زبیدی اپنے تین بہترین اونٹوں کے ساتھ مکہ مکرمہ کے بازار حزورہ میں آتا ہے ۔

اس نے انھیں فروخت کے لیے پیش کیا۔

لوگ انھیں دیکھ رہے ہیں ، بڑے خوبصورت اور مہنگے اونٹ ، ہر کسی کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوۓ ہیں۔

اتنے میں مکہ مکرمہ کا یہ بڑا چودھری ابوجہل بھی آ جا تا ہے۔

اس نے اونٹوں کو دیکھا تو اسے بڑے پسند آۓ ۔

ابوجہل نے زبیدی کو پکارا: ارے اوہ زبیدی! کتنے دام لو گے؟ زبیدی ایک لمبا سفر کر کے آیا تھا۔

اسے امید تھی کہ ان اونٹوں کی فروخت سے اسے ایک بڑی رقم مل جائے گی۔

اس نے اپنی خواہش اور توقع کےمطابق دام بتادیے۔

ابوجہل نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا اور کہا کہ اتنی زیادہ رقم ۔

سنو! جوتم نے دام طلب کیے ہیں، میں ان کا صرف تیسرا حصہ دوں گا۔

بولو: سودامنظور ہے؟

زبیدی بڑی آس اور امید لے کر آیا تھا۔

مطلوبہ قیمت کا صرف تیسرا حصہ ! اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔

میں تو منافع چاہتا ہوں اور مجھے یہاں خسارے کا سودا کر نے کے لیے کہا جارہا ہے ۔

قارئین کرام ! وہ ماحول ہی ایسا تھا۔

ابوجہل نے اونٹوں کی جو قیمت لگائی تھی ، اس کی خبر فورا پورے بازار میں پھیل گئی۔

سب کو معلوم ہو گیا کہ زبیدی نے اس کم قیمت پر اونٹ بیچنے سے انکار کر دیا ہے۔

ابوجہل کا خوف اور ڈر ہر کسی کو تھا۔

اب لوگ ڈرر ہے ہیں کہ اگر ہم نے ابوجہل سے بڑھ کر قیمت لگائی تو وہ ناراض ہو جائے گا اور اس کی ناراضی کا مطلب یہ ہے کہ رسوا ہونا پڑے گا ،لہذا اس کی ناراضی کے ڈر سےکوئی اونٹ خرید نہیں رہا تھا۔

انھیں نا قابل فروخت بنادیا گیا۔زبیدی نے کچھ دیر انتظار کیا کہ شاید اس کےاونٹ بک جائیں مگر کوئی گاہک ابوجہل کی ناراضی کے ڈر سے انھیں خریدنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔

اس کا رخ اب اس رحیم ورؤوف کی طرف ہے جو اعلی اخلاق والے ہیں۔

جس کی کوئی مدد نہیں کرتا وہ اس کی مدد کرتے ہیں۔

آپ ﷺ سیدنا ابو بکر صدیق ،سید نا عمر فاروق اور سیدنا سعد بن ابی وقاص شاہ کے ہمراہ مسجد حرام میں تشریف فرما ہیں ۔

بنو زبیدہ کا مالک آپ ﷺ کے پاس آتا ہے اور دہائی دیتا ہے، قریش کی جماعت! بھلا تمھارے پاس مال کیسے آۓ گا ؟

تجارتی قافلے تمھاری طرف کیسے آئیں گے؟

کوئی تاجر تمھارے پاس کیسے مقیم ہوگا؟

جو تمھارے پاس حرم میں آ جاتا ہے تم اس ظلم کرتے ہو۔

یہ شخص پہلے قریش کے مختلف حلقوں کے پاس اپنی فریاد سناچکا تھا مگر تمام نے خاموشی اختیار کر لی تھی ۔

اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے پوچھا: (من ظلمك؟)

تجھ پرکس نے ظلم کیا ہے؟

زبیدی نے بتایا کہ ابوجہل نے مجھ پر ظلم کیا ہے، پھر اس نے پوری تفصیل کے ساتھ سارا واقعہ آپ ﷺ کے گوش گزار کر دیا۔

اللہ کے رسول ﷺ نے پوچھا: (أبــن أخـــــــالك؟)

تمھارے اونٹ کہاں ہیں؟‘‘

ز بیدی کہنے لگا کہ وہ ابھی ’’حزورہ ہی میں ہیں۔

کوئی بات کر سکے ۔

آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو اپنے ہمراہ چلنے کا اشارہ کیا اور ان کے ساتھ اونٹوں کی طرف گئے۔

زبیدی کے اونٹ واقعی بڑے خوبصورت اور حسین و جمیل تھے ۔

زبیدی سے پوچھا: ان کی کتنی قیمت لو گے؟

اس نے جو قیمت بتائی آپ نے وہ سودا منظور کر لیا اور اسے قیمت ادا کر دی ۔

تھوڑی دیر گزری ہے ، اللہ کے رسول ﷺ ان خریدے ہوئے اونٹوں کو فروخت کر رہے ہیں۔

گاہک آ کر دیکھ رہے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے دواونٹوں کا سودا ہو گیا ہے ۔

جانتے ہیں کتنی قیمت پر؟

جتنی قیمت آپ نے تین اونٹوں کی زبیدی کو ادا کی تھی اتنی قیمت میں دو اب منافع میں ایک اونٹ ہی گیا۔

تھوڑی دیر گزری ، اس کا بھی گاہک آ گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے بھی فروخت کر دیا ہے۔

اور جو رقم آپ ﷺ ملی ہے آپ ﷺ نے وہ بنو عبدالمطلب کی بیواؤں کو دے دی۔

زبیدی کو اس کا حق مل گیا ہے ، اس کے اونٹ اس کی مرضی کی قیمت پر فروخت ہو گئے ہیں ۔

مگر اس بڑے مجرم کو سبق تو سکھانا ہے، اسے بتانا ہے کہ دوبارہ اس قسم کی حرکت نہ کرے۔

ابوجہل اس بازار میں خاموش چپ چاپ بیٹھا ہوا ہے۔

وہ کسی سے کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔

سوچ رہا ہوگا کہ سوائے محمد ﷺ کے کون ہے جو میرے مقابلے میں آنے کی جرات کر سکتا۔

اللہ کے رسول ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اسے ڈانٹتے ہوئے خبر دار کیا:

"اے عمرو دوبارہ اس طرح نہ کرنا جس طرح تم نے اس دیہاتی شخص کے ساتھ کیا ہے ورنہ
تم میری طرف سے وہ کچھ دیکھو گے جسے تم نا پسند کر تے ہو ۔“

ابوجہل نے آپ ﷺ کو دیکھا تو شدید مرعوب ہو گیا۔

اس میں ہمت اور جرات ہی نہ رہی کہ وہ آپ ﷺ کے سامنے کوئی بات کر سکے۔

جب آپ ﷺ نے اسے متنبہ کیا تو فورا کہنے لگا: اے محمد! میں دوبارہ کبھی ایسا نہیں کروں گا۔

اللہ کے رسول ﷺ واپس تشریف لے گئے ہیں۔

بازار میں امیہ بن خلف اور و ہ مشرکین جو اس وقت وہاں موجود تھے، ابوجہل کے پاس آئے ہیں۔

کہہ رہے ہیں: ابوالحکم تمھیں کیا ہو گیا ؟

ارے تم تو محمد ﷺ کے سامنے بالکل مرے جارہے تھے ۔

کیا تم ان کی پیروی کرنا چاہتے ہو یا ان کا رعب اور دبدبہ تم پر طاری ہو گیا تھا؟

ابوجہل ان کی بات کے جواب میں کہہ رہا ہے: اللہ کی قسم میں بھی ان کی پیروی نہیں کروں گا۔

ان کے روبرو میری عاجزی اس وجہ سے تھی کہ میں نے دیکھا۔

میں نے دیکھا کہ ان کے دائیں بائیں کچھ آدمی ہیں جن کے پاس نیزے ہیں ۔

انھوں نے وہ نیزے مجھ پر تان لیے تھے۔

اگر میں محمد ﷺ کی تھوڑی سی بھی مخالفت کرتا تو وہ نیزے میرے بدن میں گھونپ دیتے۔

أنساب الأشراف:146/1-147، وسبل الهدى والرشاد: 420/2.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button