محترمہ شاد بیگم

انسانی حقوق اور خصوصاً خواتین کی حقوق کیلئے جدو جہد کر نے والی امریکن ایوارڈ یافتہ بہادر خاتون۔

Spread the love

انٹرویو:
تحریر وعکاسی :حبیب محمد خٹک

انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی
سرکردہ کارکن اور مارچ 2012 میں امریکی محکمہ خارجہ سے انٹرنیشنل ویمن آف کریج ایوارڈ یافتہ خاتون محترمہ شاد بیگم نے دیر جیسے قدامت پسند معاشرے میں خواتین ووٹروں کو متحرک ہونے پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اب خواتین آزادی کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گی۔

انھوں نے کہا کہ پسماندہ علاقوں اور نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں خواتین کو بااختیار بنانے اور ترقی کے راستے پر انھیں گامزن کرانے کیلئے انتخابات میں ان کی شمولیت لازمی ہے۔

گزشتہ روز یہاں ضلع لوئر دیر کے اپنے مختصر دورے کے دوران تالاش میں ہمارے نمائندے حبیب محمد خٹک سے گفتگو کرتے ہوئے، محترمہ شاد بیگم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کردار کو بھی سراہا جس میں خواتین کی انتخابات میں شرکت کو یقینی بنانے اور ان کے حق رائے دہی سے محرومی کی حوصلہ شکنی کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

شاد بیگم ایسوسی ایشن فار ہیوئیر اینڈ نالج ٹرانسفارمیشن (ABKT) کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں، جو دیر، چترال، بونیر وغیرہ جیسے پسماندہ علاقوں میں معاشرے کے پسماندہ طبقات کو معاشی اور سیاسی طور پر بااختیار بنانے کے لیے کام کررہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کو خواتین کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے کہ پوری آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور ان کے ووٹ سے ہی امیدوار جیت سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کانٹا دار مقابلوں کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتیں زیادہ سے زیادہ خواتین کو پولنگ سٹیشنوں تک لانا چاہتی ہیں جو کہ ایک نیک شگون ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کوہستان میں علماء کرام کی طرف سے خواتین کی انتخابی مہم کو غیر اسلامی قرار دینے کے فتوی کا فوری اور بروقت نوٹس لیا اور خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کے متنازع حکم کو مسترد کر دیا اور خبردار کیا کہ اگر خواتین کو انتخابی مہم میں حصہ لینے سے روکا گیا تو پورے انتخابی عمل کو منسوخ کر دیا جائے گا۔

محترمہ شاد بیگم نے کہا کہ ای سی پی نے ایک جینڈر ڈیسک تشکیل دیا ہے جو ملک بھر میں یکم سے 8 فروری تک خواتین کی شرکت کے حوالے سے مختلف سرگرمیوں کا باریک بینی سے نگرانی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ان جیسی خواتین کارکن ای سی پی کے جینڈر ڈیسک کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور کسی بھی شکایت کی صورت میں فوری حل نکالا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اب خواتین کو سیاست میں حصہ لینے سے روکنا ناممکن ہے۔

انہوں نے سیاسی جماعتوں سے کہا کہ وہ خواتین کارکنوں کو اپنے پالیسی ساز اداروں میں بھی شامل کریں تاکہ خواتین کو حقیقی نمائندگی دی جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ مجھے اس بار یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں بشمول جماعت اسلامی، پی پی پی، پی ٹی آئی، جے یو آئی، اے این پی اور مسلم لیگ (ن) دیر میں نہ صرف اپنی خواتین ووٹرز کو متحرک کر رہی ہیں بلکہ انہیں ووٹ ڈالنے کے طریقے کی تربیت بھی دے رہی ہیں اور انھیں پولنگ ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کی تربیت بھی دی جارہی ہے۔

شاد بیگم نے کہا کہ خواتین ووٹرز اور خواتین پولنگ امیدواروں کے لیے معاشرے میں پہلے سے کہیں زیادہ قبولیت دکھائی دیتی ہے۔

ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی ضلع بونیر سے پی پی پی کی امیدوار ڈاکٹر سویرا پرکاش کی مثال دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ انہیں اپنی انتخابی مہم میں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کی طرف سے بھی زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان کے لیے اطمینان کی علامت ہے کہ دیر، کوہستان، بونیر اور خیبر پختونخوا کے دیگر حصوں میں کئی خواتین امیدوار انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔

محترمہ شاد بیگم نے کہا کہ ایک وقت تھا جب کوئی بھی خواتین کی بطور ووٹر شرکت یا الیکشن لڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن اب روایت بدل چکی ہے اور خواتین رہنما اپنے ثقافتی اصولوں کے اندر معاشرے میں آگے بڑھ رہی ہیں۔

لوئر اور اپر دیر میں خواتین کو متحرک کرنے کے بارے میں، انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ، اے این پی، پی ٹی آئی اور پی پی پی سمیت متعدد سیاسی جماعتوں نے خواتین رہنماؤں کی خصوصی ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو دونوں اضلاع میں خواتین ووٹرز کو متحرک کر رہی ہیں۔

یہ جماعتیں خواتین کارکنوں کو پولنگ ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کی تربیت دے رہی ہیں،

انہوں نے کہا کہ اب صوبے کے کچھ حصوں سے خواتین انہیں دعوت دے رہی ہیں کہ وہ آئیں اور خواتین ووٹرز کو اپنے حق رائے دہی کا صحیح استعمال کرنے کی تربیت دیں جو کہ ایک خوش آئند امر ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button