سوشل میڈیا کے عروج نے ہمارے معاشرے میں بے مثال تبدیلیاں لائی ہیں۔ جہاں TikTok جیسے پلیٹ فارمز نے بہت سے لوگوں کے لیے تفریحی اور تخلیقی آؤٹ لیٹس فراہم کیے ہیں، وہیں انھوں نے فحاشی اور فحاشی کی ایک لہر کو بھی جنم دیا ہے جس سے ہماری روایتی اقدار کو ختم کرنے کا خطرہ ہے۔
پختون معاشرے میں، جہاں عزت اور وقار سب سے اہم ہے، TikTok لائیو گیمز کے ذریعے واضح مواد کا پھیلاؤ تشویش کا باعث ہے۔ ہمارے نوجوان جو پہلے ہی سوشل میڈیا کے اثرات کا شکار ہیں، ایسے مواد کو بے نقاب کیا جا رہا ہے جو نہ صرف قابل اعتراض ہے بلکہ ان کی اخلاقی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
اس رجحان کے نتائج بہت خطرناک ہیں۔ یہ نہ صرف ہمارے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ یہ والدین اور بزرگوں کے اختیار کو بھی مجروح کر رہا ہے۔ ہمارے بچوں کو یہ سکھایا جا رہا ہے کہ ایسے رویوں میں مشغول ہونا قابل قبول ہے جو پہلے ممنوع سمجھے جاتے تھے، اور یہ تباہی کا ایک نسخہ ہے۔
چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ لاکھوں پیروکاروں کے ساتھ ہمارے معا شری کچھ اثرورسوخ افراد بھی اس لت کی ریس میں شامل ہوچکے ہیں، اور یہ سب کچھ صرف پیسوں کے وجہ سے ہو رہا ہے، اب سوچنے کے بات یہ ہے کہ جب ہمارے نوجوان ان بااثر لوگوں کا اس لائیو اسٹریمنگ کے دوران یہ فحاش زبان استعمال کرتے ہوئے دیکھے گئے ، تو ہمارے معاشری کی بچی کیا سمجھے گئے.کہ یہ سب کچھ کرنا اور غلیظ زبان استعمال کرنا کوئی بورے بات نہیں ہیں
اس غلط استعمال کے نتائج بہت نقصان دہ ہیں۔ سائبر غنڈہ گردی کے شکار افراد بے چینی، ڈپریشن اور یہاں تک کہ خودکشی کے خیالات کا شکار ہوتے ہیں۔ نفرت انگیز تقریر اور فحش زبان کی مسلسل نمائش زہریلے کلچر کو جنم دیتی ہے، اس طرح کے رویے کو معمول بناتی ہے اور بدسلوکی کے ایک چکر کو جاری رکھتی ہے۔
تو، حل کیا ہے؟ سب سے پہلے، TikTok جیسی سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنے پلیٹ فارمز پر مواد کو ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ واضح مواد کو ہٹا دیا جائے، اور ایسے رویے میں ملوث صارفین کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
دوم، والدین اور سرپرستوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ان کے بچے آن لائن کیا کر رہے ہیں۔ انہیں واضح مواد کے خطرات سے آگاہ کرنا چاہیے اور قابل اعتراض مواد کی نمائش کو روکنے کے لیے ان کی آن لائن سرگرمی کی نگرانی کرنی چاہیے۔
آخر میں، کمیونٹی کے رہنماؤں اور بزرگوں کو اس رجحان کے خلاف بولنا چاہیے۔ انہیں ہماری روایتی اقدار اور رسوم و رواج کے تحفظ کی اہمیت پر زور دینا چاہیے، اور ہمارے نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی ترغیب دینا چاہیے۔
اب عمل کرنے کا وقت ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک معاشرے کے طور پر اکٹھا ہونا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہماری اقدار اور روایات آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رہیں۔