
اسلام آباد۔8اکتوبر (اے پی پی):حکومت دوطرفہ بزنس چیمبرز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک نئی لائسنسنگ پالیسی تیار کر رہی ہے تاکہ شفافیت، ساکھ اور غیر ملکی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جا سکے،وزارت تجارت نے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ٹریڈ آرگنائزیشنز (ڈی جی ٹی او) کے تعاون سے مجوزہ فریم ورک تیار کرنا شروع کر دیا ہے جس میں سرکاری منظوری کے خواہاں چیمبرز کے لیے اہلیت، مالی شفافیت اور گورننس کے سخت معیارات شامل کیے گئے ہیں۔ویلتھ پاکستان کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق ہر دوطرفہ بزنس چیمبر کے لیے لازم ہوگا کہ اس کے کم از کم 50 فعال پاکستانی اور اتنے ہی غیر ملکی ممبران ہوں۔
رکنیت میں کارپوریٹ اداروں اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار (ایس ایم ایز) کی متوازن نمائندگی لازمی قرار دی گئی ہے تاکہ کاروباری طبقے کے وسیع تر مفادات شامل ہوں تاہم وزارت تجارت کا فارن ٹریڈ ونگ ان ممالک کے لیے جہاں معاشی دلچسپی تو ہے لیکن چیمبرز کا ڈھانچہ محدود ہے، غیر ملکی رکنیت کی حد میں نرمی کی اجازت دے سکے گا۔نئے فریم ورک کے مطابق ایگزیکٹو کمیٹی میں پاکستانی اور غیر ملکی شہریوں کی متوازن نمائندگی لازمی ہوگی اور چیئرمین یا صدر کا عہدہ دونوں جانب باری باری منتقل ہوگا۔ اس نظام کو مسودے میں منصفانہ قیادت اور مساوی شرکت کو فروغ دینے کا بہترین طریقہ قرار دیا گیا ہے،مزید یہ کہ ہر چیمبر کو شراکت دار ملک میں تسلیم شدہ ہم منصب تنظیم کے ساتھ قانونی طور پر باضابطہ مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کرنا ہوں گے، اگر کسی وجہ سے ایم او یو ممکن نہ ہو تو متعلقہ غیر ملکی وزارت یا مجاز اتھارٹی سے تحریری تصدیق قبول کی جائے گی۔مالی شفافیت اور پائیداری مجوزہ اصلاحات کا اہم حصہ ہیں۔
ٹائر-ون چیمبرز کے لیے کم از کم 10 کروڑ روپے (100 ملین روپے) کا ریزرو فنڈ رکھنا لازمی ہوگا جبکہ ٹائر-ٹو اور ٹائر-تھری چیمبرز کو کم از کم 5 کروڑ روپے (50 ملین روپے) کا فنڈ رکھنا ہوگا۔ تمام چیمبرز کے لیے مستحکم بزنس پلان اور آڈٹ شدہ مالی گوشوارے جمع کرانا لازم ہوگا۔ لائسنس تین سال کے لیے جاری ہوں گے اور تجدید کارکردگی کے اشاریوں جیسے سرمایہ کاری میں سہولت، کاروباری فروغ کی سرگرمیوں اور اراکین کی معاونت کے نتائج پر کی جائے گی۔دوطرفہ حیثیت کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت تصدیقی نظام بھی تجویز کیا گیا ہے۔ ڈی جی ٹی او درخواستوں کو 21 ورکنگ ڈیز میں متعلقہ پاکستانی سفارتخانوں کو بھیجے گا جہاں تجارتی و سرمایہ کاری افسران غیر ملکی تنظیم کی قانونی حیثیت، ساکھ اور اعتبار کی تصدیق کریں گے، ساتھ ہی پاکستان میں متعلقہ ملک کے سفارتخانے سے بھی رکن کمپنیوں کی حیثیت اور ساکھ کی تصدیق کی جائے گی۔
مجوزہ قانون کے تحت کسی بھی چیمبر اور ریگولیٹر (ڈی جی ٹی او)کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کا فیصلہ صرف پاکستانی قوانین اور ٹریڈ آرگنائزیشنز ایکٹ 2013 کے سیکشن 21 کے تحت ہوگا، اس شق سے پاکستان کے دائرہ اختیار اور ریگولیٹری اختیار کو مزید مضبوط بنایا گیا ہے۔وزارت تجارت کے ایک سینئر افسر نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ یہ نئی پالیسی دوطرفہ بزنس چیمبرز کو پیشہ ورانہ بنیاد پر لانے اور غیر فعال یا یکطرفہ ایسوسی ایشنز کے رجحان کو روکنے کے لیے متعارف کرائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصلاحات سے پاکستان کی تجارتی سفارتکاری کو مزید قابل اعتبار اور موثر بنایا جا سکے گا۔