افسانہ ۔۔۔۔۔۔ رضیہ

ازقلم نورین خان

Spread the love

پہلا حصہ

1960 کی ایک خوبصورت رات چاند پورے آب و تاب کیساتھ آسمان پر چمک رہا تھا اور چاروں طرف روشنیاں بکھیر رہا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں سائیں سائیں کرکے چل رہی تھی اور یہ ٹھنڈ بھری ہوائیں کمرے کے ریشمی اور پھولوں سے گل کاری والی رنگین پردوں سے ٹکرا رہی تھی تو پردے کسی کنواری لڑکی کیطرح مستی سے مچل مچل کر لہراتی اور رات کے اس اندھیرے میں ایک عجیب ہی خاموشی کی آواز تھی جب تیز ٹھنڈی ہوائیں رضیہ کے نرم نرم اور خوبصورت گالوں کو چھونے لگی تو اسکے نازک بدن میں ایک سنسی سے دوڑ گئی اور سردی کے مارے اسکی نیند خراب ہوگئی رضیہ بستر سے اٹھی اور دیکھا کہ کھڑکی کھلی ہوئی ہے اور باہر تیز طوفانی ہوائیں چل رہی ہے اس نے جلدی جلدی اپنے کمرے کی کھڑکی بند کی اور گھڑی کیطرف دیکھا تو رات کے تین بج رہے تھے اور نیند سے اسکی آنکھیں بوجھل اور خمار آلود تھی رضیہ پھر سے جاکے بستر پر لیٹ گئی کیونکہ صبح کو اس نے اپنے دفتر جانا تھا اسکی ڈیوٹی تھی اسی فکر میں اسکی آنکھ لگ گئی
اچانک گھڑی کا الارم بجنا شروع ہوا اور رضیہ نیند سے بیدار ہو گئی اس نے دیکھا کہ صبح کے چار بج چکے ہیں رضیہ بستر سے اٹھی وضو کیا اور باہر برآمدے میں جھانک کر دیکھا تو ابھی بھی ہلکا ہلکا اندھیرا چھایا ہوا تھا اور ٹھنڈی ہوائیں بدستور چل رہی تھی اور فضا میں ٹھنڈک محسوس ہو رہی تھی رضیہ نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور نماز پڑھنے لگی نماز سے فارغ ہونے کے بعد رضیہ ساتھ والے کمرے میں گئی تو دیکھا کہ بی اماں اپنے پرانے تختہ پوش پر بیٹھی قرآن پاک کہ تلاوت کر رہی ہے دروازے کی سرسراہٹ سن کر بولی رضیہ بیٹی جلدی کرو ناشتہ بناو اور تیاری کرو کیا دفتر آج دیر سے پہنچنا ہے کیا؟ اور ہاں باہر موسم بڑا خراب ہے اتنی سردی ہے کہ میری ہڈیاں گویا سردی سے پتھر بن گئی ہے مجھے بھی گرم گرم ایک پیالی چائے دینا تاکہ ان بوڑھی ہڈیوں میں تھوڑی جان آئے ویسے بھی مجھے گھر میں ہزاروں کام ہیں اور اوپر سے آج موسم بھی خراب ہے
اچھا بی اماں میں ابھی بناتی ہوں آپ فکر نا کریں بی اماں رضیہ کی دادی تھی جو اکیلی رضیہ کی پرورش کر رہی تھی 1947 کے تقسیم کے وقت رضیہ کے دادا فسادات میں سکھوں کی فسادات اور قتل عام کے دوران لاہور ٹرین میں جس میں مسلمان ہجرت کر رہے تھے شہید ہو گئے تھے مگر بی اماں لوٹی پوٹی اپنے شوہر سے محروم بال بچوں اور جائیداد سے محروم ہو کر پاکستان پہنچی اور یہاں پشاور میں رہائش پذیر ہوئی رضیہ کے والدین ایک حادثے میں وفات پا گئے تھے اور اپنے ماں باپ کی واحد نشانی رضیہ اپنی دادی کے پاس اکیلی رہ گئی تھی
رضیہ کیچن میں ناشتہ بنا رہی تھی اور کیچن کی کھڑکی تیز ہوا سے کھل رہی تھی اور خود بند بھی ہو رہی تھی اس قدر تیز ہوائیں چل رہی تھی کہ چولہے کی آگ بھی صیح سے نہیں جل رہی تھی چائے بنانے کے بعد رضیہ نے جلدی جلدی پراٹھے بھی بنائے اور ساتھ بی اماں کے ہاتھ کا نکالا ہوا تازہ تازہ مکھن بھی لیا اور ایک انڈہ بھی فرائی کر لیا ناشتہ تیار کرنے کے بعد رضیہ اور بی اماں کمرے میں ایک ساتھ ناشتہ کرنے لگے اور باہر موسم مزید طوفانی ہو گیا تھا
ناشتہ کرنے کے بعد رضیہ دفتر کے لئے تیاری کرنی لگی تو بی اماں بولی ارے بیٹی آج دفتر مت جاو موسم بڑا خراب ہے اور نجانے اس موسم میں سواری ملے یا نا ملے تو رضیہ بولی نہیں بی اماں آج جانا ضروری ہے بہت سے کام ہیں اور اوپر سے سرکاری نوکری ہے جو قسمت سے ملی ہے ورنہ ایف اے پاس کو کون نوکری دیتا ہے وہ بھی بینک میں؟
اچھا اچھا ٹھیک ہے چلی جاو مگر وقت پر گھر آجانا مجھے فکر ہوتی ہے اور آج کیا تاریخ ہے مجھے محلے میں رضوان کی امی کو کمیٹی دینی ہے رضیہ نے کہا بی اماں آج 5 جنوری 1960 ہے
اچھا اچھا یہ تو ابھی بھی دو دن باقی ہیں چلو پرسوں کمیٹی دینی ہے اچھا جاو اب تیاری کرو
رضیہ نے الماری سے مرینہ کا گرم سوٹ نکالا وہ پہنا اور اوپر سے شیفون کا ڈوپٹہ پہن لیا جس پر کڑھائی سے چھوٹے چھوٹے پھول بنے ہوئے تھے اور سفید سینڈل پہنے اور جانے لگی تو بی اماں نے کہا ارے رضیہ اوپر سے گرم چادر لے لو موسم سرد ہے
رضیہ کے نکلتے ہی آسمان پر بجلی چمکی اور بجلی کڑکنے کی آواز سے بی اماں دعائیں مانگنی لگی اچانک ہلکی بوندہ باندی شروع ہو گئی اور ساتھ ہی تیز ہوا کا طوفان آیا
موسلادار بارش نے چاروں طرف دھند کی دبیز چادر تان دی رضیہ کو دھند میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا وہ مسلسل راستے پر سیدھا چل رہی تھی
رات کے اولین لمحوں میں تیز تیز ہوا چل رہی تھی مگر اب تو بجلی بھی زور سے گرج رہی تھی اور اوپر سے ٹھنڈ رضیہ تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی مگر دھند میں کوئی سواری بھی نظر نہیں آرہی تھی سامنے سڑک بالکل سنسان تھی اور نا تانگہ نظر آرہا تھا نا رکشہ وغیرہ
رضیہ نے وہاں نصف گھنٹہ انتظار کیا مگر کوئی تانگہ نظر نا آیا اور سامنے سڑک پر بہت کم لوگ نظر آ رہے تھے جو غالبا سرکاری ملازمین ہی تھے شیروانی اور جناح کیپ پہنے ہوئے ادھیڑ عمر آدمی پیدل جارہے تھے ایک نے پوچھا بیٹی کہاں جارہی ہو؟ بارش شروع ہو چکی ہے اور تمھارے پاس چھتری بھی نہیں یہاں تمھیں سواری نہیں ملی گی کیونکہ آج موسم طوفانی ہے تم سیدھا جاو وہاں سے بائیں طرف مڑ جاو تو وہاں شاید تمھیں رکشہ مل جائیں یہ سن کر رضیہ بولی بہت شکریہ چاچا میں قریب ہی بینک جارہی ہو جو یونیورسٹی روڈ پر ہے تکال سے پہلے
اچھا اچھا وہ سرکاری بینک چلو جلدی کرو بارش تیز ہورہی ہے
ہلکی ہلکی بوندہ باندی شروع ہو گئی تھی اور تیز ہواؤں کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا رضیہ جلد سے جلد دفتر پہنچنا چاہتی تھی کہ منہ زور آندھی چلنی لگی اور دھواں دھار بادلوں نے برسنا شروع کیا اچانک دور سے سڑک پر ایک پرانی پھٹیچر گاڑی نظر آئی جو آہستہ سے آرہی تھی وہ گاڑی رضیہ کو دیکھتے ہی رک گئی اسکے اندر آگے سیٹ پر ایک بڑی عمر کی خاتون چادر اوڑھے بیٹھی ہوئی تھی اور پیچھے ایک بابا جی ہاتھ میں لاٹھی لئے بیٹھے ہوئے تھے اور ڈرائیور سیٹ پر ادھیڑ عمر آدمی کوئی پچاس سے اوپر کے لگ رہے تھے رنگ گورا چٹا اور بدن قدرے فربہ تھا بڑی بڑی مونچھیں تھی اور مسلسل مونچھوں کو تاو دے رہے تھے ناک موٹی اور قد درمیانہ تھا وہ آدمی بولا بیٹی کہاں جانا ہے بارش شروع ہو چکی ہے ؟ آو ہمارے پاس بیٹھو میں پہنچا دونگا میرا نام افراسیاب خان ہے اور میں تنگی چارسدہ سے آرہا ہوں یہ پیچھے میرے والد محترم ہے اور ساتھ میری خوش دامن میری بیگم جانہ ہے تم فکر نا کرو میں پٹھان ہوں پٹھان ہم خواتین کا احترام کرتے ہیں اس پر وہ عورت بولی آو بیٹی بیٹھ جاو ہم تمھیں چھوڑ دینگے رضیہ بولی آنٹی جی مجھے یونیورسٹی روڈ سامنے سرکاری بینک جانا ہے یہ سن کر پیچھے بیٹھے ہوئے بابا جی بولے منھے میاں ہم بھی تو حیات شیرپاؤ ہسپتال جارہے ہیں راستے میں اس بیٹی کو اتار دینگے رضیہ جب مطمئن ہوئی تو گاڑی میں بیٹھ گئی اور اللہ اللہ کرکے گاڑی سفر پر روانہ ہوئی موسلادار بارش سے نشیبی علاقوں اور راستوں میں پانی کھڑا ہو گیا اور طوفان کی وجہ سے کئی گھروں کی چھتیں تک اڑ گئی اور راستے میں لوگ ادھر ادھر دوڑ رہے تھے اور خود کو بارش سے بچا رہے تھے اچانک گاڑی میں افراسیاب خان بولے ارے میری بیگم صاحبہ کیا ہم کل نہیں آسکتے تھے ؟ جو آج اس بارش میں اپنے مظلوم شوہر پر ظلم کر رہی ہو اوپر سے ابا جان بھی ساتھ ہے اس پر وہ عورت بولی دیکھو سرتاج جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے اب تم خود کو مت کوسوں اب آگئے ہے تو خوشی خوشی چلو جوں جوں آگے بڑھتے جا رہے تھے طوفان مزید شدت اختیار کر رہا تھا اور ہواؤں میں مزید شدت پیدا ہو گئی تھی ہوا آندھی کی صورت اختیار کر چکی تھی سڑک کے کنارے درخت تیزی سے جھوم جھوم کر ایسے ایک دوسرے سے مل رہے تھے جیسے ایک دیوانہ اپنی محبوبہ سے ملتا ہے مچل کر اور جھوم کر اور شاخیں ایک دوسرے سے الجھ رہی تھی اور ماحول میں ایک عجیب سی سرسراہٹ اور سنسی پھیلا رہی تھی رضیہ گاڑی کا شیشہ اوپر کرنا چاہتی تھی مگر آدھا اوپر ہوا اور اٹک گیا کیونکہ گاڑی کافی پرانی تھی اچانک آسمان پر بجلی غضبناک انداز میں گرجنی لگی ساتھ بیٹھے بابا بولے یا اللہ خیر یا اللہ خیر اتنی تیز بارش شروع ہو گئی تھی کہ باہر ہر گلی اور محلے میں پانی کھڑا ہو گیا تھا اور سڑکیں بھی پانی سے بھر گئی تھی اور نالیوں اور سڑکوں کا پتہ نہیں چل رہا تھا ہر طرف پانی ہی پانی نظر آرہا تھا سامنے سڑک ویران تھی اور آندھی چل رہی تھی افراسیاب گاڑی کو گھسیٹ کر لے جارہے تھے اور چشمہ اتار اتار کر سامنے دیکھ رہے تھے کہ کہی کسی نالے میں ٹائر نا پھنس جائیں پشاور صدر کی سڑکیں گویا سردریاب کی شکل اختیار کر چکی تھی ہر طرف پانی ہی پانی اس پر ساتھ بیٹھی عورت بولی سرتاج آج واپسی پر گورا بازار جا کر شاپنگ نا کر لو اس وقت تک بارش شاید رک جائے مجھے ایک دو پراندے اور میک اپ کا سامان لینا ہے کیونکہ تنگی چارسدہ کے دوکانوں میں ایسا سامان نہیں ملتا اس پر افراسیاب بولے بیگم صاحب اس طوفانی موسم میں کیسی شاپنگ؟ نہیں آج موقع نہیں ہے لہذا اپنا یہ پروگرام ملتوی کر دو ابھی یہ باتیں ہو رہی تھی کہ سامنے گورہ قبرستان کیساتھ ایک درخت کڑکڑا کر اچانک پل بھر میں جڑ سے اکھڑ گیا اور گاڑی کے سامنے سڑک پر گر گیا اس پر وہ عورت چلائی آرے ارے سامنے دیکھو اچانک افراسیاب خان نے بریک پر پاوں رکھ دیا اور گاڑی روک دی اور ایک زور کا جھٹکا لگا کہ سب کے سر گاڑی کے چھت سے جا لگے افراسیاب گاڑی سے باہر نکلے تو راستہ مکمل درخت نے بند کر دیا تھا افراسیاب جلدی سے واپس گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی کا رخ دائیں طرف موڑ دیا اور چھوٹے پتھریلے کچے راستے پر چلنے لگا اور ساتھ ساتھ بارش کو کوستا رہا پاس بابا جی بولے منھے میاں آج تو تم نے مجھے اوپر پہنچانے کا انتظام کر ہی لیا تھا مگر اللہ نے بچا لیا یہ سن کر رضیہ بولی بس بس گاڑی یہاں روک دیں میرا بینک سامنے ہے افراسیاب خان نے گاڑی روک دی اور رضیہ گاڑی سے اتری اور سب کا شکریہ ادا کرکے بینک کی جانب روانہ ہوئی افراسیاب خان نے گاڑی سٹارٹ کر دی اور گنگنانے لگا
لاڑ شا پیښاور تا قمیض تور مالہ روڑہ
تازہ تازہ گلونہ دری سلور مالہ روڑہ
بارش اب بھی مسلسل برس رہی تھی رضیہ دفتر کے اندر داخل ہوگئی تو سامنے مین چوکیدار محبوب نے سیلوٹ مارا اور کہا سلام میڈم رضیہ خوشامدید رضیہ نے جواب دیا وعلیکم السلام محبوب چاچا اور چادر جو بارش سے مکمل بھیگ چکی تھی اتار دی اور اپنے ماتھے سے گیلے بالوں کو پیچھے کیا اور شیفون کا ڈوپٹہ ٹھیک کرکے کرسی پر بیٹھ گئی کہ اس دوران بینک کا پی این چپڑاسی گل خان بولا سلام بی بی آپ سب سے پہلے آج دفتر پہنچی ہے ابھی تک کوئی نہیں آیا میں ذرا دفتر کی صفائی ستھرائی کر لو یہ کہہ کر گل خان چلا گیا رضیہ نے میز پر رکھا ہوا اخبار اٹھایا اور وہ پڑھنے لگی اخبار میں لکھا تھا کہ آج موسم ابرآلود رہے گا مگر یہاں تو مسلسل بارش برس رہی تھی یہ کیسی خبر ہے بھلا ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ اچانک پروین آگئی اسکو دیکھ کر چوکیدار چاچا نے پھر سے سیلوٹ مارا اور پروین نے آتے ہی چھتری بند کی اور اپنے جارجٹ کے ڈوپٹہ کو پرس سے نکال کے پہن لیا اور چادر ایک طرف تہہ کرکے رکھ دی پروین بھی رضیہ کیساتھ ہی بینک میں سرکاری نوکری کرتی تھی اور طبعیتا خاصی باذوق اور شوخ چلبلی طبعیت کی مالک تھی آتے ہی بولی آج تو میرا آنے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا اور پپو کے ابا فراز صاحب بول رہے تھے کہ آج دفتر نا ہی جاو گھر پر رہو مگر میں پھر بھی آگئی اور دیکھو جیسے گھر سے نکلی موسلادار بارش برسنی شروع ہوئی اور بھیگ کر آئی ہوں
یہ سن کر رضیہ نے کہا ارے تو آج نا آتی نہ چھٹی کر لیتی ۔چھٹی کیسے کرتی ارے بھولی لڑکی بھول گئی آج کلوزنگ ڈے ہے اور سارے رپورٹ آج سٹیٹ بینک پشاور میں جمع کروانے ہیں ورنہ فراز نے تو مجھے آج آنے ہی نہیں دینا تھا انہیں باتوں کے دوران دفتر کے ایک اور ملازم عبداللہ بھی آگئے اور پروین کے میز پر پڑے حاضری والے رجسٹر پر دستخط کرنے لگے اور بولے کیسی ہو مسز فراز آج تو موسم بھی شاندار ہے یہ سن کر پروین ہلکا سا مسکرا دی اور شرارتی انداز میں عبداللہ کو دیکھنے لگی عبداللہ دستخط کرنے کے بعد اپنی ٹیبل پر چلے گئے اور فورا کام پر لگ گئے
یار گل خان بارش بڑی تیز برس رہی ہے اللہ رحم کرے ایسی بارش پہلے کبھی نہیں ہوئی ہاں واقعی یہ تو سچ کہا محبوب بھائی یہ کہہ کر گل خان ریسیپشن پر چلے گئے اور وہاں کی صفائی کرنے لگے
اسلام علیکم دفتر میں ایک آواز گونجی دیکھا تو اختر پہنچ چکے تھے اختر بھی بینک کے پی این یعنی چپڑاسی ہی تھے جو حسب معمول دیر سے آئے تھے اسکو دیکھ کر محبوب چاچا بولے ارے اختر میاں آج پھر سے لیٹ آئے ہو؟
سامنے گل خان نے کہا اختر آج کونسا بہانہ بناو گے دفتر دیر سے آنے کا؟ اس پر اختر بولا اگر وقت پر بھی آجاتا تو مجھے کونسے ایگرمینٹ لگ جانے تھے اور سرکار نے مجھے بنگلہ دینا تھا ہم تو غریب لوگ ہیں آج تک کوئی ترقی بھی نہیں ہوئی ہماری یہ سن کر گل خان بولا بہانے مت بناو اختر دیکھو میں نے ہر جگہ کی صفائی کر لی ہے اب تم کام میں لگ جاو یہ کہہ کر گل خان کیچن میں گیا اور دو کپ چائے بنا کر لے آیا اور رضیہ اور پروین کے آگے گرم گرم چائے رکھ دی اور بولا بی بی گرم چائے پیو طبیعت بحال ہو جائیگی ابھی بھی وقت ہے ڈیوٹی شروع ہونے میں ابھی ساڑھے سات بجے ہے
پروین نے چائے کا کپ اٹھایا اور مزے سے چائے پینے لگی اور کہا آج تو موسم بھی عاشقانہ ہے واہ واہ اور ساتھ گنگنانے لگی
بھیگے بھیگے موسم میں
اسی دوران دفتر کے ملازم بلال بھی آگئے بلال بولے اسلام علیکم خواتین کیا حال چال ہے باہر تو موسم بڑا خراب ہے سڑک پر گرتے گرتے بچا ہو اتنا پانی کھڑا ہے کہ کیا بتاوں
اور میز پر پڑی حاضری والے رجسٹر پر دستخط کرنے لگا اور کہا سنا ہے مسز فراز مسٹر فراز کے دفتر میں نئی خوبرو سیکرٹری آئی ہے ایک شرارتی مسکراہٹ کیساتھ
پروین بولی بلال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button