عورت کی تعلیم اور دور جدید کے تقاضے

ڈاکٹر گل ناز آفرین

Spread the love

تعلیم ایک بنیادی ضرورت ہے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہم اسی عنوان پر بحث کرتے نظر آرہے ہیں کہ عورت کی تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وہ دور گزر گیا جب لڑکیوں کے لیے دسویں تک تعلیم کو ضروری خیال کیا جاتا تھا۔ اب تعلیم کی حد دسویں یابارہویں نہیں ہے بلکہ تعلیم کے ساتھ شعور کی پہچان بھی ضروری ہو گئی ہے کیونکہ اس کا تعلیم و تربیت کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ شعور کے منازل طے کرنے کے لیے تعلیم کے اکٹھے راستوں سے گزرنا پڑتا ہے اور تعلیم کی بھٹی میں جلنا پڑتا ہے ۔
تعلیمی نسواں ( عورتوں کی تعلیم ) معاشی اور معاشرتی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم معاشی لحاظ سے دیکھیں تو مہنگائی کے اس دور میں گھر کے اخراجات بغیر کسی دقت کے پورے کرنا انتہائی مشکل کام ہے ۔ ہمارے پختون معاشرے میں اکثر یہ ذمہ داری گھر کے مرد کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ اگر اس بوجھ کو اٹھانے میں گھر کی عورت بھی حصہ ڈالے تو زندگی آسانی اور عزت سے گزر سکتی ہے۔

اکثر سنا جاتا ہے کہ ہم نے اپنی بیٹی یا بہن کو پڑھا لکھا کر نوکری نہیں کروانی۔ اس لیے انہیں پڑھانا ضروری نہیں۔ نوکری کا حصول اب جہاں ایک درد سر ہے وہاں اج کل گھر بیٹھی خواتین مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے کاروبار کر کے گھر کا چولہا خود جلانے کا بندوبست کر سکتی ہیں اور وہ بھی بصد عزت و احترام۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ شوہر کی وفات کے بعد بیوہ خواتین (اور اگر بچے بھی ہوں) محتاجی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں اگر عورت کے ہاتھ میں کوئی ہنر اور کچھ تعلیم ہو جو اس کو اپنا ہنر بیچنا سکھائے اور یہ طریقہ کار آسان بنائے تو معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے وہ کارآمد انسان کی طرح زندگی گزار سکتی ہیں ۔

کھانا پکانا کپڑے بنانا یا سودا سلف بیچنا عورت ازل سے اپنی گھریلو ضروریات کے لیے کرتی آئی ہے۔ اج کل کے سوشل میڈیائی دور کی یہ مہربانی اور احسان قابل ستائش ہے کہ عورت گھر بیٹھے اپنا ہنر بیچ سکتی ہے۔ سکولوں کے لیے لنچ باکسز یا یونیفارم کی تیاری اور سلائی ہو یا اپنے ارد گرد کے علاقے اور آس پاس کے گھروں میں کپڑا لتھا بیچنے کی تجارت، عورت کی یہ مشکل انٹرنیٹ نے بہت ہی آسان کر دی ہے۔ عورت انٹرنیٹ سے رہنمائی لے کر گھر پر بنائی گئی اشیاء کو گھر میں بیٹھ کر ہی دور دور تک فروخت کر سکتی ہے۔ اس مد میں بہت ساری سوشل میڈیا ایپس متعارف ہوئی ہیں اور ہر کسی کی دسترس میں ہیں۔

اس تمام کام میں محنت کے علاوہ کوئی ایسی طاقت ضروری ہے جو عورت کو اتنا مضبوط بنائے اور اس طرح کے اقدام اٹھانے کے لیے اعتماد دے۔ میری نظر میں یہ طاقت تعلیم کی طاقت ہو سکتی ہے۔
عورت اگر تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو جائے تو اس کے لیے شعور تک رسائی ناممکن نہیں۔ اسی طرح ایک باشعور عورت اپنی تعلیم کو اپنے سے متعلق بہت سارے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔

اسی پہلو سے جڑی ہوئی ایک اور حقیقت ہے تعلیم کا معاشرتی پہلو۔ اس جادوئی دور میں جب ہم گھر بیٹھے پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں ہیں، یہ سب اسی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی مرہون منت ہے۔
ایسے میں اگر عورت یہ شعور ہی نہ رکھتی ہو کہ انٹرنیٹ کس لیے استعمال ہوتا ہے اور کیسے استعمال ہوتا ہے یا کیسے استعمال ہونا چاہیے تو ایسی تعلیم کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ہر سہولت کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں ۔ اگر ان دونوں کو ذہن میں رکھ کر کوئی قدم اٹھایا جائے تو وہ زیادہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لیے تعلیم کے ساتھ تربیت اور شعور دونوں لازم ہیں۔

یہ طے ہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے کسی خاص ڈگری کا ہونا ضروری نہیں لیکن اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رسمی تعلیم انسان کو اقدار و اطوار سکھاتی ہے اور ایک انسان یہ شخصیت کو مکمل کرتی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا تعلیمی نظام ان اقدار و اطوار کی ترویج کرتا ہے یا نہیں، جو ہم اپنی آنے والی نسلوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے ۔

ہمارے ارد گرد ایسی خواتین کی کمی نہیں جو معاشرے میں عزت کے ساتھ کوئی کاروبار کرنا چاہتی ہیں لیکن تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ ہچکچا رہی ہیں۔ ایسی خواتین کو مواقع دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری تھوڑی سی رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے وہ اپنی مشکلات سے نکل سکتی ہیں چاہے وہ معاشی ہو یا معاشرتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button