کون ہے جو اس غلام کو خریدے؟

ازقلم : نورین خان

Spread the love

اچھا اخلاق بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔اچھا اخلاق کیا ہے؟

اخلاق انسانیت کا زیور ہے کیونکہ یہ وہ وصف ہے جو  انسان کو جانوروں سے الگ کرتا ہے۔اس لئے ہمیں لوگوں کیساتھ اچھے اخلاق کیساتھ پیش آنا چاہیے۔اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں، اسی لیے تو جاہل، اجڈ اور بد اخلاق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تو بالکل جانور ہے،کیونکہ جانوروں میں وحشی پن ہوتا ہے،غصہ ہوتا ہے اسے تو ذرا بھی تہذیب نہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انسان کو صحیح راستے پر چلانے، اس کی ہدایت ، رہنمائی اور اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے انبیاء کرام مبعوث فرمائے ۔

اللہ کے رسول ﷺ کے اعلی اخلاق کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ نے ایسے عام آدمی کو بھی عزت اور وقار عطا فرمایا جسے معاشرے میں کوئی خاص اہمیت حاصل نہ تھی ۔بنواشجع عربوں کے مشہور قبیلہ بنو غطفان کی ایک شاخ ہے ۔یہ قبیلہ زمانہ قدیم سے مدینہ طیبہ کےاطراف میں آباد تھا۔اس قبیلے کا ایک بدوی زاہر بن حرام رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ سے کچھ فاصلے پر رہتا تھا۔یہ نہایت غریب شخص تھا، شکل و صورت میں بھی زیادہ خوبصورت نہ تھا مگر اس کی ایک اہم خوبی یہ تھی

کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ سے بہت محبت کرتا تھا اور اللہ کے
رسول ﷺ بھی اس سے خوب محبت کرتے تھے۔
زاہر بن حرام رضی اللہ عنہ جب بھی مدینہ طیبہ آتا تو اللہ
کے رسول ﷺ کے لیے کچھ دیہاتی تحفے ،مثلا: تازہ
سبزیاں،پھل،ستو،شہد وغیرہ لے کر آتا۔زاہر رضی اللہ جب واپس جانے لگتا تو اللہ کے رسول ﷺ بھی اسے شہری سوغاتیں دے کر رخصت فرماتے ۔ ایک دن تو اللہ کے رسول ﷺ سی نے زاہر رضی اللہ کو ایک ایسا اعزاز عطا فرمایا جوغالبا کسی اور صحابی کے حصے میں نہیں آیا۔ ارشادفرمایا: زاہر
رضی اللہ عنہ ہمارا د یہاتی دوست اور ہم اس کے شہری دوست ہیں ۔
ذرا حدیث کے الفاظ پرغورفرمائیں:
آپ ﷺ نے فرمایا۔۔۔
ترجمہ ”یقینا ہرشہری خاندان کا ایک دیہاتی دوست ہوتا ہے اور تو آپ نے پیچھے سے
آل محمد کادیہاتی دوست زاہر بن حرام ہے ۔“
معجم الصحابة لأبي القاسم:292/2.
زاہر رضی اللہ سیدھا سادہ آدمی تھا۔شہری آداب سے ناواقف تھا،جب اپنے گاؤں سے آتا تو اپنے ہمراہ لائی ہوئی
سوغاتیں لےکر بازار ہی میں کسی جگہ کھڑا ہو جاتا اور بیچنا شروع کر دیتا۔ پرانے زمانے سے یہ دستور چلا آ رہا ہے کہ دیہات سے جب کوئی شخص سبنریاں ، پھل وغیرہ لے کر آتا ہے تو لوگ بھاگتے ہوئے اس کے اردگرد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔انھیں تازہ سبزیاں مل جاتی ہیں جونہایت سستی ہوتی ہیں ۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ زاہر رضی اللہ عنہ اپنے ہمراہ کچھ دیہاتی سوغاتیں لے کر مدینہ طیبہ کے
بازار میں آیا اور ایک جگہ کھڑا ہو کر انھیں بیچنے لگا۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ اللہ کے رسول ﷺ بھی بازار میں تشریف لے آئے۔ آپ ﷺ نے اپنے دیہاتی دوست کو دیکھا تو آپ نے پیچھے سے جا کر اس کی آنکھوں پر اپنے مبارک ہاتھ رکھ دیے۔
قارئین کرام! آگے بڑھنے سے پہلے ذرا غور کیجیے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا اخلاق کتنا بلند و بالا
ہے۔اور محبت،شفقت اور لاڈ والا ہے۔زاہر رضی اللہ ایک عام سا آدمی ہے مگر اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اس سے محبت فرماتے ہیں اور یہ بھی اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ کا ایک ارشاد ہے:
ترجمہ ” مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کیا کرو۔ اور پھر مزید ارشادفرمایا:
ترجمہ: تھیں ان کمزوروں اور ضعیفوں کی بدولت رزق اور فتح حاصل ہوتی ہیں۔
قارئین کرام ! ذرا تصور کیجیے کہ زاہر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں پر اللہ کے رسول ﷺ کے ریشم سے زیادہ نرم و نازک اور عنبر وگلاب سے زیادہ خوشبو دار ہاتھ ہیں۔پہلے تو وہ گھبرایا۔ وہ گھبراہٹ کے عالم میں کہہ رہا ہے: کون
ہے بھئی؟ میری آنکھوں پر کس نے ہاتھ رکھ دیے ہیں لیکن جب اس نے اللہ کے رسول ﷺ کے مبارک
ہاتھوں کی نزاکت کو محسوس کیا اور آپ ﷺ کی خوشبو سونگھ لی تو اسے معلوم ہو گیا کہ اس کے پیچھے تو کائنات کے امام کھڑے ہیں۔اس نے موقع غنیمت جانا اور اپنی پشت کو اللہ کے رسول ﷺ سرا کے سینے سے ملنا شروع کر دیا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے محبت بھرے انداز میں فرمایا: لوگو! کون ہے جو اس غلام کوخریدے؟‘‘
زاہر رضی اللہ عنہ نے بھی محبت بھرے انداز میں عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ مجھ جیسے کالے کلوٹے دیہاتی کوکوئی خرید کر کیا کرے گا۔ وہ تو بڑے خسارے کا سودا کرے گا۔ میری تو قد رو قیمت ہی کوئی نہیں ۔ میں تو بے کار آدمی ہوں ۔ آپ سی نے جواب میں ارشاد فرمایا: پیارے! ایسا نہ کہو، کیا تمھیں کسی نے کہا ہے کہ
تمھاری کوئی قدرو قیمت نہیں؟ تم اللہ کے ہاں بیکار نہیں ہو۔ تم اللہ اوراس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والے ہو ، اس لیے تم اللہ کے ہاں بڑے قیمتی ہو ‘‘
صحیح ابن حبان: 107/13 ، و شرح السنة: 181/13 ، و جمع الوسائل في شرح الشمائل:29/2

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button