
کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ملک مصوری، ادب و کلچر، فنون لطیفہ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے کتنا ترقی یافتہ ہے۔ اس ملک کے رہنے والے ان سب چیزوں میں کس قدر دلچسپی رکھتے ہیں اور حکومت اس ضمن میں انہیں کیا کیا سہولیات فراہم کرتی ہے۔ مصوری، ادب و ثقافت جہاں کسی بھی ملک کی پہچان بنتے ہیں۔ وہیں فنون لطیفہ کے یہ شعبے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج اس سلسلے میں ہم بات کرتے ہیں ضلع بہاولنگر کے ایک ہونہار طالب علم کی، جنہوں نے فن خطاطی میں اپنی مدد آپ کے تحت ملكی و غیر ملکی سطح بے شمار کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ یہ تمام کامیابیاں سمیٹنے والا ہونہار طالب علم محمد ذین ایف ایس سی سال اول دانش سکول چشتیاں کا طالب علم اور ایک مزدور کا بیٹا ہے، جس کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں کے ایک پسماندہ ترین گاؤں 119مراد سے ہے۔ محمد ذین کا کہنا ہے کہ میں جب چھوٹا تھا تو میں نے غور کیا کہ ملک پاکستان میں رسم و رواج کو بہت اہمیت دی جاتی ہے جیسے کوئی شادی کی تقریب ہو یا کسی کی سالگرہ یا پھر کسی کی برسی ہو حتی کہ کوئی قومی یا مذہبی تہوار ہو یا پھر ثقافتی تہوار، زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہ تھا کہ جس میں رسم و رواج کو اہمیت نہ دی گئی ہو۔ یہ اپنے ماضی سے بے پناہ محبت و عقیدت سارے پاکستانیوں کی شناخت ہے۔ محمد ذین کا کہنا ہے کہ میں نے جب تاریخ پاکستان اور دین اسلام کا مطالعہ کیا تو اپنے لیے خطاطی کے فن کو پسند کیا کیونکہ فن خطاطی وہ پاکیزہ اور لطیف ترین فن ہے جس کے ذریعے اللہ تعالٰی کا پیغام بنی نوع انسان تک پہنچا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم نے بھی اپنے دور میں خوش خطی اور فن خطاطی کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر فتح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم نے غزوہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کے لئے فدیہ کی رقم مقرر کی، ان میں سے جو نادار تھے وہ بلا معاوضہ ہی چھوڑ دیئے گئے لیکن جو خطاطی یعنی لکھنا یا پڑھنا جانتے تھے انہیں حکم ہوا کہ دس دس بچوں کوخطاطی یعنی لکھنا یا پڑھنا سکھا دیں تو چھوڑ دیئے جائیں گے لہٰذا ان کے لیے یہ فدیہ ٹھہرا۔ خطاطی ایک فن ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ مسلمانوں کا شاندار اور قابل فخر ماضی جڑا ہوا ہے۔ فن خطاطی مسلمانوں کا تہذیبی و ثقافتی ورثہ ہے، اس لیے اس کی بقاء اور استحکام کے لیے ہمیں ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے۔ دنیا کے تقریباً تمام مسلم ممالک میں دیگر فنون کی طرح فن خطاطی کو بھی نہایت اہم درجہ دیا جاتا ہے۔ با شعور قومیں اپنے ماضی کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ فرزند بہاولنگر محمد ذین کا کہنا ہے کہ اللہ کریم کے فضل و کرم سے میں نے آج سے تین سال پہلے فن خطاطی پر کام شروع کیا حالات و ذرائع نہ ہونے کے باوجود بھی میرا فن خطاطی کا شوق مجھے ابھارتا گیا اور میں نے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے اس شوق کو بھی وقت دیا۔ چند فرصت کے لمحات میں آرام کی بجائے خطاطی کے فن کے فروغ کے لئے محنت اور لگن سے کام کیا اور الحمدللہ آج میں چار بین الاقوامی اور دس قومی سطح پر خطاطی کے مقابلہ جات میں حصہ لے چکا ہوں۔ میں نے ڈیڑھ ماہ قبل بین الاقوامی سطح پر سری لنکا میں منعقد ہونے والے خطاطی کے مقابلہ جات میں دوسری پوزیشن اپنے نام کر کے پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔ پاکستان میں منعقد ہونے والے خطاطی کے مقابلہ جات میں بھی میں نے بہت سی پوزیشنز حاصل کیں۔ مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے میں بہت سے مقابلہ جات میں حصہ نہیں لے سکا اور منعقد ہونے والی آرٹ ایگزیبیشنز (نمائشوں) سے بھی محروم رہا ہوں۔ اگر حکومت پاکستان اور دیگر این جی اوز خطاطی کے تحفظ اور فروغ کے لئے ہونہار طالب علم محمد ذین کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ یہ مزید کامیابیاں سمیٹ کے ملک و قوم کا نام روشن کر سکے۔ اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ملک پاکستان کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے۔ آمین