
تمام انبیاء کرام کی بعثت تب ہوئی جب معاشرے میں عمومی بگاڑ و فساد رونما ہوا جس سے بداخلاقی پیدا ہوئی اور انسانیت کے حقوق دھڑلے سے توڑے جانے لگے۔ اس سے معاشرے کا ارتقائی عمل زوال پذیر ہوگیا۔
ان خیالات کا اظہار ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ پاکستان کے ریکٹر ممتاز دانشور و مصنف شیخ التفسیر مفتی مختار حسن نے ادارہ رحیمیہ پشاور کیمپس میں جناب خالد خان کی صدارت میں سیرت النبی کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں شرکاء کی کثیر تعداد سےخطاب کرتے ہوئے کیا۔
ریکٹر مولانا مفتی مختار حسن نے کہا کہ انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والسلام آکر انسانی معاشروں کے ارتقائی بند دھارے کو کھولا کرتے ہیں،انسانی حقوق کی فراہمی اور انسانی معاشرے کے ارتقاء و ترقی کو آگے کی طرف بڑھاتے ہیں اور بد اخلاقی دور کر کے اعلی’ اخلاقیات پر مبنی معاشرے قائم کرتے ہیں.
انہوں نے کہا کہ اگر دیگر انبیاء کرام کی سیرت کا بالعموم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا بالخصوص جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے اتی ہے کہ انبیاء کرام انسانیت کو ابو جہل، فرعون، ہامان اور قیصر و کسری’ جیسے جابر اور مستبد طاقتوں کے نظام سے چھڑانے اور نظام عدل کی قیام کیلئے تشریف لاتے ہیں جس سے انسانوں کو اشرف المخلوقات والا عزت و وقار حاصل ہو جبکہ انسانیت عامہ کو کوئی سرمائے کی طاقت پر اپنی حقوق سے محروم نہ کر سکے.
مولانا مفتی مختار حسن نے کہا کہ آج سیرۃ النبی کی پیروی کا اہم ترین تقاضہ اس موجودہ سرمایہ داری نظام کا خاتمہ ہے جس کی جڑیں برطانوی سامراج کے دور غلامی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے آج بھی ہمارے مستقبل کے فیصلے عالمی مالیاتی ادارے اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دین اسلام کو بطور نظام حیات غالب کرکے سماجی تشکیل اسکے وضع کردہ اصولوں کیمطابق کیجائے جیسا کہ ہمارے دور عروج میں کرکے دکھایا گیا ہے تاکہ تمام ادیان کو باور کروایا جاسکے کہ دین اسلام درحقیقت تا قیامت انسانی سوسائٹی کی رہنمائی کی اہلیت و استعداد رکھتا ہے اور اسکا پیش کردہ نظام حیات کل انسانیت کی فلاح کا پروگرام ہے۔