اسلام آباد: فہیم جوزی کی شخصیت اور فن پر "اہل قلم سے ملیے” تقریب میں مکالمہ

سارہ خان 

Spread the love
اسلام آباد: اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیر اہتمام تقریب "اہل قلم سے ملیے”  میں جناب فہیم جوزی کے ساتھ مکالمہ 25 ستمبر 2024ء کو منعقد ہوا جس میں معروف اہل قلم  نے شرکت کی۔ محترمہ کشور ناہید، پروفیسر جلیل عالی، جناب محمد حمید شاہد، جناب شاہد مسعود، جناب شعیب خالق اور جناب علی محمد فرشی  نے جناب فہیم جوزی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے گفتگو کی۔ نظامت جناب منیر فیاض  نے کی۔ اکادمی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو اور کوئٹہ سے تشریف لائے مہمان جناب محسن شکیل نے خصوصی شرکت کی۔
جناب فہیم جوزی  نے اپنی ذاتی اور فنی زندگی کے نمایاں پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے بتایا کہ اُن کا اصل نام محمد اقبال ہے مگر انھوں نے اپنے دوست قیوم صبا کے اصرار پر اپنا قلمی نام نام فہیم جوزی منتخب کیا اور آج لوگ اسی نام سے انھیں جانتے ہیں۔ انھوں نے اپنے سکول کے ابتدائی دنوں کا دلچسپ احوال سنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پہلی کلاس میں  انھوں نے اپنے استاد محمد ابراہیم کو ایک نظم ’’ہنستا ہنستا بچہ سب کو پیارا لگتا ہے‘‘سنائی۔ انھوں نے کہا کہ وہ سائنسدان بنتا چاہتے تھے لیکن ایف ایس سی میں سائنس کے مضامین میں فیل ہوئے اور پھر سائنس کی جگہ دوسرے مضامین  لے لیے۔ پھر انھیں شوق ہُوا کہ فلسفی بن جائیں لیکن فلسفی بھی نہ بن سکے۔ انھوں  نے کہا کہ وہ یونیورسٹی میگزین کے مدیر اعلیٰ بھی رہے۔ افتخار جالب کی وجہ سے انھیں آزاد اخبار میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ا یم اے کرنے کے بعد 10 سال تک ریڈیو پاکستان میں بطور پروڈیوسر کام کیا۔ 10 سال کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ملازمت اختیار کی۔ انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے دوران افتخارجالب  نے اُن کی بہت پذیرائی کی اور بطور شاعر ان کی شناخت بنائی۔ محترمہ کشور ناہید نے کہا کہ فہیم جوزی کو اپنی آپ بیتی لکھنی چاہیے۔ جب وہ ریڈیو سے منسلک تھے تو بہت سے ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ اُن کا رابطہ رہا۔ کشور ناہید نے کہا کہ انھوں نے اپنے آپ کو کسی کے حوالے نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اندر کے احساس کا ضرور اظہار کرے۔ فہیم جوزی  نے اپنی منتخب نظمیں سنائیں اور حاضرین سے داد وصول کی۔
اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے تحت "اہلِ قلم سے ملیے” کے مقبول سلسلے کا احیا صدرنشین ڈاکٹر نجیبہ عارف کی ہدایات پر چند ماہ قبل کیا گیا ہے۔ اِس کا مقصد جہاں بزرگ اہلِ قلم کو خراجِ تحسین پیشش کرنا ہے وہاں یہ مقصد بھی پیشِ نظر ہے کہ اُن کے علمی، تحقیقی، اور تخلیقی سفر کی داستان خود اُنہی کی زبانی سُنی جائے۔ یوں تو ہر بدھ کو شام چار بجے "چائے، باتیں، اور کتابیں” کے عنوان کے تحت غیر رسمی نشست منعقد ہوتی ہے مگر مہینے کے کسی ایک بدھ کو اِسی نشست کو "اہلِ قلم سے ملیے” کے تحت منعقد کیا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button