نیشنلسٹ سیاستدان شاکر بونیری کو آخری آرام گاہ سپرد کر دیا گیا

Spread the love

بونیر ( اے ار عابد سے ) نیشنلسٹ سیاستدان بانی پختون لیبریشن فرنٹ شاکر بونیری کو ابائی قبرستان باجکٹہ میں سپرد خاک کیا گیا۔مرحوم شاکر بونیری طویل علالت کے بعد 84 سال کی عمر میں جمعہ کو صبح صادق کے وقت جہان فانی سے رحلت کرگئے۔مرحوم کا نماز جنازہ میں ھزاروں سیاسی سماجی مذہبی شخصیات علاقہ عوام گاوں کے لوگوں اور خاندان کے افراد شریک ہوئے۔
مرحوم شاکر بونیری نے پسماندگان میں ایک بھائی دو بیٹے سوگوار چھوڑے ہیں۔
مرحوم شاکر بونیری نے حالیہ ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ زمانہ طالبعلمی سے نیشنلسٹ سیاست سے وابستہ ہوئے تھے اور والئی سوات کے ریاست سوات کے خلاف تحریک میں شریک ہوکر اس ریاست کے خاتمے میں بھر پور کردار ادا کیا تھا جس کا بقول انکے پچھتاوا رہا تھا ۔بقول انکے اس وقت وہ نیپ کے پلیٹ فارم سے ریاست خلاف تحریک کا حصہ بنے تھے اور بیگم نسیم ولی خان کی قیادت تک پارٹی میں اھم عہدوں پر رہے تھے اور بہت سرگرم اور اھم لیڈران میں شمار ہوتے تھے لیکن بعد میں پارٹی سے اختلافات پیدا ہونے پر اے این پی کو چھوڑا جس کا انکو پچھتاوا رہا تھا۔مرحوم شاکر بونیری نے مذید بتایا تھا کہ اے این پی سے الگ ہونے پر اپنی پارٹی پختون لیبریشن فرنٹ بنایا اور چیئر میں کے فرائض خود سنھبالا لیکن اخری وقت میں پختون لیبریشن فرنٹ عملاً غیر فعال کردیا تھا اور اے این پی کے حمایت کرتے تھے تاہم غیر فعال رہے تھے اور سیاست اور حلات حاضرہ پر تبصرے کرتے تھے اور اخبارات سے سیاسی وابستگی کو اگے بڑھاتے ہوئے تجزیئے اور تبصرے لکھتے رہے رھے لیکن اخری وقت میں جب ھم کو انٹرویو دے رہے تھے تب صرف سیاسی اور صحافی ساتھیوں سے سنتے رہتے تھے اور جسم کی کمزوری کے ساتھ زہنی کمزوری کی شکایت بھی کرتے تھے اور زیادہ تر حجرے میں ہوتے تھے اور جہاں اج دفن ہوئے اپنی اس زمین تک واک بھی کرتے تھے اور ایک بھائی ہونے اور سیاسی ساتھی ہونے کے ناطے ایڈوکیٹ عطاء الرحمان سے بہت پیار کرتے تھے اور اپنے دوسرے بیٹے خلیق الرحمان عرف بابو سے بہت پیار کرتے تھے اور اج ان کے قبر پر سب ساتھی دوست احباب جاننے والے اور خاندان کے افراد افسردہ تھے لیکن انکے بھائی عطاء الرحمان ایڈوکیٹ اور دوسرے بیٹے خلیق الرحمان عرف بابو کی حالت بہت خراب اور قابل رحم تھا اور تدفین کے بعد مرحوم شاکر بونیری کے جسد خاکی کو کاندھا دینے والے واپسی پر غم سے نڈھال عطاء الرحمن ایڈوکیٹ اور غمزہ خلیق الرحمان عرف بابو کو کاندھا دئے واپس حجرہ لا رہے تھے اور اس صورتحال نے افسردہ ماحول کو مذید افسردہ بنائے رکھا لیکن یہی مشیت ایزدی اور موت اٹل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button