” اقبال حسین افکار ۔ شخصیت اور فن "

تحریر: مشتاق الرحمان شفق

Spread the love

نصف صدی کا قصہ ہے ، مردان میں اولسی ادبی ٹولنہ کے زیر اہتمام ایک ادبی تقریب ہونے والی تھی ۔ لان میں کھڑے تھے ۔ ہمعصر شاعر ادیب محمد اقبال اقبال مرحوم نے ایک خوبرو جواں سال کا تعارف کرایا۔ کہ یہ خوش کردار اقبال حسین افکار ہیں ۔ ادبی ذوق و شوق رکھتے ہیں ۔ اسلام آباد میں پشتو ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں آپ کا بھرپور ساتھ دیں گے۔
ہم ریڈیو پاکستان کے چند ساتھیوں نے 612۔ ڈی سیٹلائٹ ٹاؤن میں ڈیرے ڈال دۓ تھے ۔ ھمارے یہاں افکار صاحب آمد و رفت شروع ہوئی ۔ ان دنوں دارالحکومت اسلام اباد واحد پشتو سماجی و ادبی سور ثقافتی تنظیم پختون ورورولی سرگرم عمل تھی ۔ کچھ عرصہ بعد یہ تنظیم دو حصوں میں بٹ گئی افکار صاحب کی دونوں سے شناسائی تھی کبھی دل کو روتے تھے تو کبھی جگر کو ۔ دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے کہ اب تو پشتون ورورولی کے دونوں حصے بے حس ہوچکے ہیں ۔ خاکسار نے تجویز دی ۔ اب ان کی جگہ ، کیوں نہ ایک خالص ادبی تنظیم کو تشکیل دی جاۓ ۔ چنانچہ کدو کاوش کے بعد مئ 1986 میں پشتو ادبی سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا ۔ جو اب تک رواں دواں ہے اور پشتو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔
افکار صاحب کی چڑھتی جوانی تھی ۔ چند ساتھیوں کو لے کر راولپنڈی اسلام آباد کا گوشہ گوشہ چھان مارتے اور گلستان ادب سے خوشنما پھول چن چن کر لاتے نیز نئے نئے چہروں کو ادبی سوسائٹی سے روشناس کرانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔
اقبال حسین افکار خلوص و محبت اور صبر و استقامت کے مجسم پیکر ہیں ۔ سچ پوچھے تو ان کا تخلص بھی دوستی اور محبت کی نشانی ہے۔ یا زندگی کی کہانی ہے۔ تعلیم کے ابتدائی مراحل میں ان کے ایک ہم جماعت کا نام ” افکار” تھا۔ وہ اچانک فانی دنیا سے کوچ کرگیا تو غمگسار اقبال حسین کے لیے جدائی کا یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا تاہم انہوں نے اپنے مرحوم دوست کو خود سے روحانی طور پر جدا نہ ہونے دیا اور اس کے نام کو تخلص کے طور پر سینے سے لگاۓ رکھا۔
ستا افکار ھم ستا پہ لار دے
ستا مئین دے ستا دلدار دے
یہ شعر افکار صاحب نے مرحوم سردار پنج پیروال کی یاد سے منسوب کیا ہے۔ لیکن ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ شعر اسی نغمہ درد کی بازگشت ہے۔ ” تمھارا افکار تمھارا ہمسفر ہے اور تمھاری محبت کا دم بھرتا ہے” ۔
افکار صاحب عمدہ نظم گو شاعر اور کامیاب رہورتاژ نگار کے علاوہ انتظامی امور اور تنظیمی معاملات سلجھانے کے ماہر ہیں ۔ نظم و نسق کے پابند ہیں۔ صبر و تحمل اور مستقل مزاجی ان کی فطرت سہی مگر تقریب کے دوران ، سامعین کرام پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ اور کسی قسم کی خلل اندازی ان سے برداشت نہیں ہوتی ۔ اس جلالی کیفیت کو دیکھ کر بغض نازک مزاج دوست بدک بھی جاتے ہیں
امن اور عدم تشدد کے علمبردار ، باچاخان کی یاد میں ایک تقریب ہورہی تھی ۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکر مہمان گرامی وفاقی وزیر خان بھادر ایڈوکیٹ سے بے جوڑ سوالات پوچھنے لگا۔ افکار صاحب سٹیج سے اتر کر مزکورہ شخص کے پاس آۓ دھیمے لہجے میں اسے سمجھایا اور احترام کے ساتھ اسے کرسی پر بٹھایا۔ سوء اتفاق سے چند روز بعد وہ شخص سڑک کے کے ایک حادثے میں انتقال کرگئے اب یہ واقعہ معروف شاعر اور انشائیہ نگار ، ڈاکٹر اسرار کی زبانی سنیۓ فرماتے ہیں، ہم شاعر لوگ تو صرف شعر کہتے اور سناتے ہیں۔ کوئی ہمارے منہ پر طمانچہ بھی مارے تو جواب دینے کا یارا نہیں ہوتا ۔ لیکن پشتو ادبی سوسائٹی نے اپنے لیے ایسا سیکرٹری جنرل چنا ہے جو منتخب روزگار ہے ۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے، ادبی سوسائٹی کی ایک تقریب میں اندیش ، اقبال اور ھم دو اسرار بھی شریک ہوۓ تھے ۔ اس دوران میں ایک شخص نے اٹھ کر بلا جواز اعتراضات کرنے لگا بس پھر کیا تھا افکار صاحب کی موٹی اکھیوں سے شرارے پھوٹنے لگے اور جاکر اس شخص کے کمزور اور ناتواں کاندھوں پر اپنے بھاری بھر کم ہاتھ رکھے اور ایسے بٹھایا کہ وہ بیچارہ پھر اٹھ نہ سکا۔
افکار صاحب ادبی سفر کے منازل کامیابی کے ساتھ طے کئے ہیں۔ اب ماشاء اللّٰہ ساٹھ کے پینٹے میں داخل ہوچکے ہیں لیکن چشم بد دور اب بھی جواں جہاں نظر آتے ہیں ۔ ادبی سوسائٹی کے ابتدائی دور میں ماہانہ اجلاس منعقد ہوتے تو نظامت کے فرائض ہچکچاتے ہوئے ہمیں سونپ دیتے ۔ مگر اب صورت حال یہ ہے۔ کہ مشق سخن کے ساتھ چکی کی مشقت بھی جاری رہتی ہے۔ یعنی نظامت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں ۔ اور بیٹھ کر موبائل پر انگلیاں بھی ناچنے لگتی ہیں۔ جونہی تقریب احتتام پذیر ہوتی ہے چند لمحوں بعد اسی تقریب کی مکمل رپورٹ فیس بک پر کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے۔
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہوں آۓ مجھے شکار کرے
دوستو! ہمارے لیے خوش آئند آمر یہ بھی ہے کہ آج افکار صاحب کی تازہ ترین تصنیف ” د دردونو نغمہ گر ” یا یوں کہئے مجموعہ کالام ” نغماتِ درد ” کی رونمائی کا اہتمام ایک معزز ادارے شھید بھٹو فاونڈیشن نے کیا ہے ۔ ہم پشتو ادبی سوسائٹی کے تمام اراکین اس ادارے کے ممنون۔ احسان ہیں ۔ اور افکار صاحب کو خلوص دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ یہ انکی ہر دلعزیزی کا بین ثبوت ہے۔ پختونخوا بھر بھر میں حتیٰ کہ برادر ہمسایہ ملک افغانستان میں ممتاز شاعر ادیب یا کوئی ادبی تنظیم اور ثقافتی ادارہ ایسا نہیں ہوگا جس سے افکار صاحب کا بلا واسطہ یا بلواسطہ رابطہ نہ ہو۔ سبھی ان کو جانتے پہچانتے ہیں۔
جناب اقبال حسین افکار نے ” د دردونو نغمہ گر ” کا انتساب انقلابی شاعر اور معتبر سیاسی رہنما جناب اجمل خٹک صاحب ترقی پسند مزدور رہنما شاعر شیرعلی باچا ۔ ممتاز ادیب و دانشور جناب منتظر بیٹنی اور عہد ساز شخصیت جناب قمر راہی کے ناموں سے کیا ہے۔ نیز اپنا مجموعہ کلام سنیٹر دلاور خان اور ادب نواز شخصیت عطاء الحق اقبال کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا ہے۔ اس سے بھی آپ اقبال حسین افکار کی ذہنی اور فکری رحجانات کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ کہ ان کا شمار مقصدی ادب کے تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ وہ ذہنی عیاشی کے لیے قلم کی جولانیاں نہیں دکھاتے بلکہ شعر و سخن میں معاشرے کی صلاح و فلاح جیسے عوامل و محرکات ان کے پیش نظر رہتے ہیں ۔
محقق ڈاکٹر یار محمد مغموم نے کتاب کا دیباچہ رقم فرمایا ہے۔ ان کے بقول افکار صاحب نے نظم گو شاعر کی حیثیت سے ایک پیغام دیا ہے۔ جو کسی خاص دائرے تک محدود نہیں ہے۔ انہوں نے سماجی زندگی کے مثبت اور منفی رویوں کی نشاندہی کی ہے۔ انسانوں کے مابین الفت و ہمدردی اور اخوت کے جذبات کو اجاگر کیا ہے ۔ اپنے پیغام کو عوام تک پہنچانے کے لیے سادہ عام فہم لہجہ استعمال کیا ہے۔
د رحمان بابا ملنگ یم ۔۔۔۔۔۔ پیروکار د باچاخان یم
ہماری راۓ میں بھی اقبال حسین افکار فکر و نظر کے اعتبار سے باچا خان کے پیروکار ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ امن اور صلح جوئی سے کام لیا ہے۔ باہمی مفاہمت اور مکالمے پر یقین رکھتے ہیں ۔ رحمان بابا کا مسلک اختیار کیا ہے۔
په ښه خوئی لہ د بدخواہانو بی پروا یم
پہ نرمۍ لکہ اوبہ د اور سزا یم
یعنے عمدہ اخلاق کے سبب بدخواہوں سے بی پروا ہوں۔ نرم خوئی میں پانی کی طرح آگ کی سزا ہوں۔
اس روئے کا اظہار علامہ اقبال نے یوں کیا ہے
میری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دکھے
کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ اسماں مجکو
اتوار 20، اکتوبر 2024

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button