انصاف اور شفافیت کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہیں۔ لیکن جب یہ اصول سرکاری ملازمین کے تبادلوں پر آتے ہیں تو کیا ہم انہیں یکساں طور پر نافذ دیکھتے ہیں؟ محکمہ صحت کے ملازم عمر خطاب کا حالیہ تبادلہ جنوبی وزیرستان کے دور دراز علاقے میں اس سوال کو پھر سے زیر بحث لے آیا ہے۔
یہ تبادلہ محض ایک معمول کا انتظامی فیصلہ ہے یا پھر کوئی سیاسی انتقام یا پھر گہری سازش؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں کچھ اہم حقائق پر نظر ڈالنی چاہیے۔ عمر خطاب پچھلے تقریباً چھبیس سال سے ضلعی دارالحکومت تیمرگرہ میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ ان کی کارکردگی رپورٹس مثبت رہی ہیں اور انہوں نے اپنے شعبے میں نمایاں بہتری کے لیے متعدد اقدامات کیے۔
لیکن حال ہی میں انہوں نے اپنے ہی محکمے کے ایک اعلیٰ آفیسر کے ساتھ وابستگی بشرط ماتحتی انجام دینے کی غلطی کی یا پھر قانونی یا اخلاقی پیروی کی جو دلیل ہے حکم عدولی نہ کرنے بشرط
ملازمت یا پھر مجبوری ملازمت میں ایک ماتحت ہونے کی۔ ان کے تبادلے کا حکم اسی کے بعد جاری ہوا۔ یہ محض اتفاق ہے یا پھر سیاسی انتقام یا پھر کسی اور کیلئے اس کو دبانے کی ایک بھونڈی کوشش؟
جنوبی وزیرستان کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سہولیات کی کمی، سیکورٹی کے مسائل اور انفراسٹرکچر کی خرابی وہاں کی زندگی کو مشکل بنا دیتی ہے۔ ایسے میں کسی ملازم کا اچانک تبادلہ، وہ بھی بغیر کسی واضح وجہ کے، سوالات کو جنم دیتا ہے۔
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ تبادلہ معمول کے مطابق ہے اور اس میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ معمول کا تبادلہ ہے تو پھر اس کی ضرورت کیا تھی؟ کیا وزیرستان میں پہلے سے موجود عملہ ناکافی تھا؟ یا پھر عمر خطاب کی خصوصی صلاحیتوں کی وہاں ضرورت محسوس کی گئی؟
ہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کے تبادلوں کی تاریخ سیاسی انتقام کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ کئی بار کارکردگی کی بجائے سیاسی وفاداریاں فیصلوں کا محرک بنتی ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف انتظامی معاملات کو متاثر کرتا ہے بلکہ ملازمین کے جذبہ خدمت کو بھی کمزور کرتا ہے۔
عمر خطاب کا معاملہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہمارے انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات کی ضرورت نہیں؟ کیا یہ وقت نہیں آگیا کہ تبادلوں کے لیے ایک شفاف اور منصفانہ نظام وضع کیا جائے؟ جہاں فیصلے صلاحیت اور ضرورت کی بنیاد پر ہوں، نہ کہ سیاسی مفادات کے تحت۔
اگر ہم واقعی ایک مضبوط اور کارکردہ انتظامی نظام چاہتے ہیں تو ہمیں ان تلخ حقائق کا سامنا کرنا ہوگا۔ سرکاری ملازمین کو ان کی صلاحیتوں اور کارکردگی کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ تبادلوں کو سزا کی بجائے ترقی کا ذریعہ بنانا ہوگا۔
کیا مزاج پایا ہے ہماری سیاہ ست نے آپ خود کریں تو میری حکومت میری مرضی ، وہی سلوک جب تمھارے ساتھ ہو تو پھر ظلم؟
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ آخر انصاف کے دعویدار اس بے انصافی کو کیا نام دیں گے؟
عمر خطاب کا قصہ شاید کل کو کسی اور کا بن جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں؟ یا پھر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا؟ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے انتظامی نظام کو شفاف اور منصفانہ بنائیں، تاکہ ہر ملازم بغیر کسی خوف کے اپنی خدمات سر انجام دے سکے۔