
کسی قوم کی ترقی کا راز ان کے ترجیحات اور سوچ کے معیار میں چھپا رہتا ہے.
عصرحاضر میں اگر دیکھا جائے تو جس ملک یا پھر جس معاشرے کی ترجیحات بلند ہو اور ان کی سوچ کا معیار اعلی ہو تو وہی قومیں ترقی کے اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں.
اب جن لوگوں کی سوچ کا معیار اور ان کے ترجیحات ایسے ہو کہ انہیں دیکھ کر افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا وہ بھلا کیسے ترقی کر پائیں گے.
تو جی میں بات کر رہا ہوں ہمارے اپنے معاشرے کی ، جہاں ہمارے سوچ کا دائرہ اتنا محدود ہو چکا ہے، کہ اگر یہی حال رہا تو جہاں دنیا کی اور قومیں آج ہیں شاید سو سال بعد بھی ہم وہاں تک نہ پہنچ سکے،
کیونکہ جس معاشرے میں بندہ ہزار دوہزار روپے میں اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل(ووٹ) بیچ سکتا ہے، اسے کیا پتہ میرے اس ایک ووٹ سے کیا ہوسکتا ہے، اسے تو بس ایک یا دوہزار روپے نظر آتے ہیں کہ چلو ایک دو دن کی دیہاڑی لگ گئی. اور یوں پھر ہم حکمرانوں سے گلے شکوے کرتے ہیں اور اللہ سے بھی شکایتیں لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ اللہ ہمیں مخلص حکمران نہیں دیتا.
تو بھئی! اللہ کیوں دے ہمیں اچھا حکمران، اللہ نے تو صاف صاف فرمایا ہے کہ جیسا رعایا ہوتی ہیں میں ان پر ویسا ہی حکمران مسلط کرتا ہوں.
حالیہ دنوں میں اگر آپ دیکھیں تو الیکشن نزدیک ہے اور زیادہ تر سیاسی جماعتیں الیکشن مھم کے لئے سرگرم ہیں، کوئی امیدوار آتا ہے کسی گاؤں میں ٹرانسفر لگواتا ہے یا ٹرانسفر کو چھوڑیں بجلی کا ایک کھمبا بھی نصب کرواتا ہے تو پورے گاؤں والے ووٹ دینے کے لئے قرآن و قسم پہ ہاتھ رکھ دیتے ہیں. اور کل پہر یہی لوگ خدا سے اور اس نظام سے شکایتیں لگائے رہتے ہیں.
خیر ہم یہ سارا ملبہ عوام پھر بھی نہیں ڈال سکتے کیونکہ ان بیچاروں کو بھی یہ حکمران سبز باغات دکھا کر پھر اپنے جائز حقوق کے بھی ترساتے ہیں. لیکن اس بار ایسا نہیں ہونے دیں گے.
اس بار ہمیں اپنے ترجیحات بدلنے ہونگے، اس سوچ کے ساتھ کہ ہم اس سسٹم کو بدلنے کی بھرپور کوشش کریں گے ، تو شاید اللہ بھی ہمارے حال پر رحم فرمائے گا.
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنے آپ بدلنے کا (اقبال)