آزادی اظہار رائے پر قانونی پابندی

کالم نگار: حبیب الرحیم ایڈووکیٹ

Spread the love
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، موجودہ حکومت نے پیکا ایکٹ( دی پریونشن آف الیکٹرانک کرایمز ایکٹ 2016)  میں ترمیم کے ذریعے اس بنیادی حق پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس قانون کے تحت، کسی بھی شخص پر جھوٹی خبر چلانے کا الزام ہونے کی صورت میں، اس کا ٹرائل کسی عام عدالت میں نہیں بلکہ ایک خصوصی ٹریبونل کے ذریعے ہوگا جس کے بعد اپیل کا حق صرف سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہوگا۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 10 کے مطابق، ہر ملزم آزاد اور شفاف ٹرائل کا حقدار ہے۔ لیکن پیکا ایکٹ 2016 میں ترمیم کے بعد، ملزم سے یہ حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اس قانون کے تحت، آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو تین سال تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں آزادی اظہار رائے پر اس طرح کی پابندی نہیں ہے۔ اگرچہ بعض ممالک میں اس کو ریگولیٹ کرنے کے قوانین موجود ہیں، لیکن تنقید پر کسی کو سزا دینے کا کوئی قانون نہیں ہے۔ خاص طور پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پابندی تو سراسر عام ادمی کو سچائی سے پس پردہ رکھنے کا مترادف ہے۔  مگر اس ترمیم کا واحد مقصد آزادی اظہاری رائے کو مکمل طور پر کنٹرول کرناہے۔ تاکہ حکومت اور مخصوص ادارے جو بھی کرنا چاہتے ہوں بالاججک کرسکے اور کوئی بھی پرسان حال نہ ہوں۔ ورنہ آواز اٹھانے والا کو گردن میں اس قانون سے پھندہ ڈالا جائیگا۔ تاکہ کوئی بھی حکومت اور اداروں کے غلط اقدام کے نشاندہی نہ کرسکے۔ اس قانون میں ترمیم کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب حکومت اور اداروں کو شوشل۔میڈیا پر ایک جماعت کو زیادہ پذیرائی ملنے اور 26 نومبر 2024 کو ڈی چوک اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کیساتھ ایک دھرنے میں  ہونے والے واقعات کو شوشل میڈیا پر جس انداز سے پیش کیا جارہا ہے اس کو روکنا،ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کیساتھ ملٹری کسڈی اور پولیس کسڈی میں ہونے والے واقعات کو عام لوگ کے سامنے انے کے خوف سے، صحافیوں کیساتھ ہونے والے ناروا سلوک کا تزکیرہ  روکنا اور ساتھ  ہی کچھ خواص غیر قانونی اقدامات کو لوگوں کے سامنے لانے سے رکنااس قسم کے کالے قوانین کے زریعے ممکن ہوتا ہے۔
پیکا ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے بعد، اب دو ہی راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس قانون کو دوبارہ پارلیمنٹ کےکے ذریعے تبدیل کیا جائے۔ لیکن موجودہ سیاسی صورتحال میں اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اس قانون کو مجاز عدالتوں میں چیلنج کیا جائے اور اسے آئین کے منافی قرار دینے کی استدعا کی جائے۔ اس صورت میں کامیابی کے کچھ امکانات ہیں۔ لیکن، آئین میں 26 ویں ترمیم کے بعد، عدلیہ کی آزادی میں واضح مداخلت سے یہ امید بھی نہیں رکھا جاسکتا جا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے زریعے جس طرح عدالیہ کے اذادی کو ختم کیا گیا ہے اسطرح اب موجودہ ترمیم سے ازادی صحافت کو بھی ختم کرنا ہے۔ لہذا، اب جبکہ سوشل میڈیا ہی حکومت کے غیر آئینی اقدامات کو عوام کے سامنے لانے کا واحد ذریعہ تھا، وہ حق بھی اب عام آدمی کے پاس نہیں رہا۔ باقی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر تو جانبداری کے الزامات پہلے سے بزبان عام اور خاص ہے۔
اس قانون کے بعد، شوشل میڈیا پر صرف وہی خبریں ہوں گی جو حکومت کی مرضی کے مطابق ہوں گی۔ جو خبریں حکومت کے خلاف ہوں گی، ان پر پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔ اس سے میڈیا کی آزادی مزید محدود ہو جائے گی اور سچائی کا اظہار مشکل ہو جائے گا۔ آزادی اظہار رائے جمہوریت کا ایک بنیادی قرینہ ہے۔ جہاں پر آزادی اظہار رائے نہ ہو، وہاں پر حقیقی معنوں میں جمہوریت قائم نہیں ہو سکتی۔  جو قومیں تنقید برداشت نہیں کرسکتے وہ قومیں اپنے متقبل کو روشن نہیں بنا سکتے۔ تنقید سے ہمیشہ بہتری کے راستے کھلے ہوتے ہیں مگرجہاں پر تقنید نہ ہو وہاں پر اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے۔اس کالے قانون کو اگر یوں ہی برقرار رکھا گیا تو پھر اس ملک میں جینا محال ہو جائے گا۔اس قسم کے قوانین کے روک تام کے لیے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو باہر نکلنا ہوگا۔ یہ صرف صحافیوں کے لیے نہیں بلکہ پوری ملک کے لیے انتہائی حطرناک ہے جس نتائج دور تک جاسکتے ہیں اور ہمارے آنے والے نسلوں کے زندگی کو بھی اجیرن بنا سکتا ہے۔ کسی ایک پارٹی یا کسی ایک آدمی کے خوف سے پوری ملک کو داو پر لگانا انتہائی ظلم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button