پنجاب فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کا ریشم پیداوار بڑھانے اور 112 ارب روپے کی درآمدات کم کرنے کا منصوبہ

Spread the love

لاہور۔5اکتوبر (اے پی پی):پنجاب فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ نے صوبے میں ریشم کے شعبے (سیریکلچر) کو بحال اور مضبوط کرنے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں تاکہ مقامی ریشم کی پیداوار بڑھا کر ہر سال درآمد ہونے والے 112 ارب روپے کے ریشمی دھاگے پر انحصار کم کیا جا سکے۔سیریکلچر پنجاب کے دیہی علاقوں میں عشروں سے روزگار کا اہم ذریعہ رہا ہے اور مشکلات کے باوجود ہزاروں خاندان اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ اس وقت صوبے میں 4 ہزار سے زائد گھرانے، جن میں تقریباً 4 ہزار خواتین شامل ہیں، ریشم کے کیڑوں کی افزائش کر رہے ہیں۔

پنجاب فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر سیریکلچر فاروق بھٹی نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ پنجاب میں ریشم کے کیڑے سال میں دو سیزن میں پائے جاتے ہیں ۔ جنوری سے اپریل اور ستمبر سے اکتوبر تک۔ ان کے مطابق ریشم کے کیڑے شہتوت کے پتے کھاتے ہیں، اسی لیے یہ صنعت اُن علاقوں میں پھلتی پھولتی ہے جہاں شہتوت کے درختوں کے باغات ہوں۔فی الحال پنجاب بھر میں تقریباً 400 ایکڑ پر شہتوت کے درخت ہیں، جن میں سے صرف چھانگا مانگا جنگل میں 150 ایکڑ اور چیچہ وطنی میں 60 ایکڑ پر کاشت کی جاتی ہے۔

دیگر شہتوت اگانے والے علاقے منڈی بہاؤالدین، کمالیہ، رجانہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، فیصل آباد، سیالکوٹ، پیرووال اور بہاولپور شامل ہیں۔فاروق بھٹی نے بتایا کہ 1980 کی دہائی تک پاکستان دنیا کے قدرتی ریشم پیدا کرنے والے ممالک میں 12ویں نمبر پر تھا، لیکن بعد میں مقامی پیداوار میں کمی اور بھارت و وسطی ایشیا سے درآمد شدہ کوکونز پر انحصار بڑھ گیا۔ اب ٹیکسٹائل صنعت ہر سال قدرتی اور مصنوعی ریشم کا دھاگا مجموعی طور پر 112 ارب روپے میں درآمد کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مقامی قدرتی ریشم کی پیداوار کو فروغ دیا جائے تو زرمبادلہ کی نمایاں بچت ممکن ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ پنجاب حکومت کو اپنے سیریکلچر وِنگ کو غیر لکڑی جنگلاتی مصنوعات (Non-Timber Forest Products) ڈائریکٹوریٹ میں اپ گریڈ کرنا چاہیے جیسا کہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں کیا گیا ہے۔ اس سے ریشم کو دیگر غیر لکڑی جنگلاتی مصنوعات جیسے دواؤں کے پودے اور شہد کی مکھیوں کی افزائش کے ساتھ مربوط کیا جا سکتا ہے۔مقامی سطح پر خواتین کو معاشی مواقع دینے کے لیے محکمہ جنگلات نے پتیاں توڑنے کا پروگرام شروع کیا ہے۔ اس کے تحت بعض کمپنیاں خواتین سے شہتوت کے پتے خرید کر فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو فراہم کرتی ہیں۔

خواتین کو محکمہ جنگلات کی جانب سے پرمٹ جاری کیا جاتا ہے جس کے تحت وہ 40 کلو گرام تازہ پتیاں تقریباً ایک ہزار روپے میں فروخت کر سکتی ہیں۔ اگر دن میں خشک کی جائیں تو یہی پتیاں پانچ ہزار روپے فی 40 کلو گرام تک فروخت ہو سکتی ہیں۔فاروق بھٹی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ 1990 کی دہائی میں چھانگا مانگا میں شہتوت کے درختوں کی جگہ یُوکلپٹس لگانے سے سیریکلچر کو شدید نقصان پہنچا کیونکہ کیڑوں کے لیے پتے دستیاب نہیں رہے۔ریشم کے کسان سمجھتے ہیں کہ اگر مقامی بیج کی افزائش اور آسان قرضے فراہم کیے جائیں تو بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ آل پنجاب سلک فارمر اینڈ ٹریڈر ایسوسی ایشن کے صدر رانا سعید انور نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ ایک خاندان محض ایک پیکٹ بیج سے ریشم کے کیڑے پال کر تقریباً 50 ہزار روپے کما سکتا ہے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کسانوں کو ریشم ریلینگ مشینیں دی جائیں تاکہ وہ کوکونز کو براہِ راست ریشمی دھاگے میں تبدیل کر سکیں اور بیچ میں موجود مڈل مین پر انحصار کم ہو۔انہوں نے زور دیا کہ شہتوت کی شجرکاری میں اضافہ، معیاری ریشم کے بیج کی آسان دستیابی، مائیکرو فنانس کی سہولیات اور جدید مشینری فراہم کرنے سے پنجاب کی ریشم صنعت میں انقلابی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف دیہی آمدنی بڑھے گی بلکہ قیمتی زرمبادلہ کی بچت اور قدیم ہنر کا احیا بھی ممکن ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button