دیر(بیورو رپورٹ: سید زاہد جان سے) چار ماہ قبل فیس بک دوست نصراللہ سے ملنے انڈین چونتیس سالہ خاتون انجو، بالاخر انڈیا واپس چلی گئی، جہاں مبینہ شوہر نے بائی بائی اور آہ بھری نگاہ سے واہگہ بارڈر سے روانہ کردیا۔تفصیلات کے مطابق
انجو سے فاطمہ بننے والی چونتیس سالہ انڈین خاتون جو بائیس جولائی کو اپنے فیس بک دوست دیر کے 29 سالہ رہائشی نصراللہ سے محبت کی خاطر واہگہ بارڈر کے ذریعے چار ماہ قبل 21 جولائی کو پہنچی تھی۔ بروز بدھ دو پہر دو بجے واہگہ بارڈر ہی سے واپس اچانک چلی گئی توانجو کی واپسی کے بارے میں سوشل میٖڈیا پرافواہیں اور خبریں گردش کرنا شروع ہوگئی کہ انجو نے فاطمہ بن کر بھی شوہر نصراللہ کو چھوڑ کر واپس انڈیا چلی گئی ہے۔
اس بارے میں جب آنجو (فاطمہ) کے شوہر نصراللہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم تین روز قبل لاہور آئے ہوئے ہیں چونکہ انجو جب سے پاکستان آئی تھی وہ اپنے دونوں بچوں کو مس کررہی تھیں ۔ نصراللہ نے کہا کہ میں نے اپنی موجودگی میں انجو(فاطمہ ) کو لاہور سے واہگہ بارڈر تک چھوڑ کر رخصت کیا اور انہوں نے ٹھیک دو بجے واہگہ بارڈر کراس کیا۔نصراللہ نے بتایا کہ چونکہ میری انجو کے ساتھ فیس بک پر دوستی دوہزار انیس سے چل رہی تھی جو آہستہ آہستہ محبت میں تبدیل ہوگئی۔ جس کے بعد دونوں کی مشاورت سے وہ لاہور پاکستان اور پھر اسی دن لاہور سے راولپنڈی پہنچی جہاں میں نے خود بائیس جولائی کو ریسیو کرکے دیر شہر کے محلہ کلشو لے آیا۔انہوں نے کہا کہ چونکہ انجو کی ایک مہینے کا ویزہ پہلے ہی ختم ہوا تھا جس کی مدت میں توسیع کیلئے ہم نے وزارت داخلہ میں اپلائی کیا تھا لیکن کچھ مشکلات کی وجہ سے وہ ابھی تک مکمل نہ ہوسکا اور باقاعدہ پراسز لگنے میں چار مہینے سے ایک سال تک کا وقت لگنا تھا۔ انجو (فاطمہ) اور ہماری بار بار منت سماجت کی باوجود ویزہ میں توسیع نہیں کی گئی۔تو اس کے بعد انجو نے واپس جانے کیلئے پندرہ روزہ ڈیپارچر لیٹر کے ذریعے کے جانے کا فیصلہ کرکے ویزہ توسیع درخواست کو کینسل کرایا تاکہ وہ انڈیا میں اپنے دو بچوں سے ملنے پہنچ سکے۔ نصراللہ نے کہا کہ انڈیا واپس جانے سے قبل ہمیں لاہور میں مختلف دوستوں نے الوداعی پاڑٹی بھی کرائی ۔جبکہ اس دوران لاہور میں انہیں بادشاہی مسجد،شاہی قلعہ ، مینار پاکستان سمیت دیگر اہم تاریخی و تفریحی مقامات کا سیر کرایا گیا۔
نصراللہ نے کہا کہ اس کے بعد بدھ کے دن دو بجے دو پہر انہیں خود واہگہ بارڈر پہنچایا جہاں انکے کے ساتھ لوگوں نے تصاویر بھی بنوائی اور انہیں خیریت سے واپس کیا۔ جبکہ ایک سوال کے جواب میں نصراللہ نے کہا کہ وہ تین ماہ بعد دوبار دیر پاکستان آئے گی لیکن انکی باتوں میں افسردگی پائے گئی اور کہا گیا اگران کی ویزے میں ایک سال کا توسیع کیا جاتا تو بہتر ہوجاتا لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔ نصراللہ نے کہا کہ اگر مجھے انڈیا سے ویزہ ملا تو انجو کو واپس لینے میں خود پہنچ جاوں گا اور انڈین ویزہ نہ ملنے کی صورت میں انجو جن کا پہلے شوہر سے طلاق کے متعلق کیس چل رہا ہے اور دوسرا دو بچوں کا معاملہ حل ہونے کے بعد اسے دوبارہ چار,پانچ ماہ بعد ویزہ کے ذریعے پاکستان دوبارہ لے آوں گا
۔جبکہ انجو کی اپنے شوہر نصراللہ کے ہمراہ جانے سے قبل اخری گفتگو میں کہنا تھا کہ اج میرا پاکستان میں آخری دن ہے اور یہاں اکر مجھے بہت محبت ملی اور یہاں کے لوگ بہت مہمان نواز اور محبت کرنے والے لوگ ہے
انہوں نے کہا کہ دیر اور پاکستان کے لوگوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا پیار دیا کسی چیز کی کمی نہیں ہونی دی اور اسے میں ہمیشہ یاد رکھو گی۔ کیونکہ جب میں انڈیا سے پاکستان آئی تو دیر میں مرد و خواتین نے عزت دی اور ہر اہک نے گھروں میں بلا کر تکلف دعوتیں کرائیں جو میرے قابل فخر اور قابل عزت بات تھی۔
لیکن خود نصراللہ اور کے قریبی خاندانی ذرائع نے بھی بتایا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ ویزہ میں توسیع کے بعد وہ بیرون ملک دبئی جانا چاہتے ہیں تاکہ انجو اپنے بچوں کو وہاں بلا کر ملاقات ہوجائے گی اور وہی باقی زندگی گذار سکیں گے لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ جس کا دونوں میاں بیوی کو دکھ بھی ہوگا، اور ۲۲ جولائی سے شروع ہونے والی سٹوری کا دوسرا رخ اب انڈیا پہنچتے ہی شروع ہوگا۔
کہ انجو(فاطمہ ) حقیقت میں دوبارہ پاکستان واپس اسکے گی ؟ یا نہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جو انے والے دنوں اور مہینوں میں ظاہر ہونے لگے گی ۔چونکہ دیر آنے کے بعد لوگ طرح طرح کے باتیں کیا کرتے تھے کوئی کہتا کہ یہ انڈین جاسوس ہے اور اس بہانے وہ یہاں شادی اور محبت کا ڈھونگ رچاکر آئی ہیں۔
لیکن ایک بات واضح نظرآرہا ہے کہ دو پیار کرنے والوں کا اج چار ماہ کا دروانیہ تمام ہوگیا ۔
واضح رہے کہ انڈین خاتون کا دیر کے رہائشی ںصراللہ سے فیس بک پر دوستی اور محبت نے انڈیا کے انجو نامی خاتون دیر شہر ضلع آپر دیر پہنچی تھی ۔
دیر پہنچنے کے پانچ روز بعد دونوں کے درمیان دیر میں مبینہ کورٹ میرج ہوا تھا اور اس میں انجو کا اسلامی نام فاطمہ رکھا گیا لیکن اس کے باوجود نکاح کے عمل کو اسلامی قوانین کی رواح سے کئی روز تک تنقید کا سامنا ہوا۔