سفرنامہ ۔۔۔گلگت ہنزہ ویلی ۔۔۔۔۔

تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

Spread the love

بلند و بالا سنگلاخ اورفلک شگاف پہاڑوں کے درمیان میں واقع صوبہ گلگت بلتستان قدرتی حسن سے مالامال ہے یہاں کے بلندبالاپہاڑوں سے بہتے ہوئے ابشاریں ،ندی نالے کے دلکش مناظر اورخوبصورت جھیلیں دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف رخ کرنے پرمجبور کرتی ہیں۔
13نومبر2023 کواے کے آرایس پی کے دفترسے برادرسیدعارف حسین جان کاایک فون آیاکہ کل یعنی 14نومبرکوپانچ روزہ ایکسپوژرٹورپرگلگت اورہنزہ جاناہے آپ تیارہوکرصبح 8بجے دفترآجائیں ۔اُن کے بات کوٹالنے کی کوشش کی مگرانہوں ضدکی کہ آپ کاآنالازمی ہے۔14نومبرکے صبح جب اے کے آرایس پی آفس پہنچاتووہاں سے چارگاڑیوں کاایک قافلہ بالکل تیارکھڑے تھے پہنچتے ہی مجھے ایک گاڑی میں بیٹھادیا۔مقررہ ٹائم پراپناسفرجاری رکھاجب بونی آفس پہنچ گیا تو وہاں سے کچھ خواتین وحضرات ہمارے قافلے میں شامل ہوئے ۔اس معلوماتی دورے میں 4ڈرائیوروں سمیت کل 19افرادیعنی 6خواتین اور باقی مرد شامل تھے ۔ اس گروپ میں اپرچترال سے ایم ایس ٹی ایچ کیوہسپتال بونی ڈاکٹرفرمان علی،سوشل ویلفیئر آفیسراپرچترال ضیاء الرحمن،ڈپٹی ڈی ای اومحکمہ ایجوکیشن اپرچترال مقدس خان ، ثریا شہاب،غزالا بی بی ،حوریابی بی،گل قیہ اورلوئرچترال ارندوسےسوشل ورکرعبدالاکبر،وی سی چیئرمین بازاردروس عبدالقادر،کالاش کمیونٹی سے ممبرتحصیل کونسل اُنت بیگ ،رمبورسے خواتین یوتھ کونسلرشاہی گل، دروش سے سماجی کارکن زینب سجاداورناچیز شامل تھے۔جبکہ اے کے آر ایس پی کی طرف سے سیدعارف حسین جان اس ٹیم کی سہولت کاری کر رہے تھے ۔
چترال سے گلگت تک راستے میں جگہ جگہ کام ہورہاہے ۔ٹوٹے پھوٹے راستوں میں گاڑی زور زور سے ہچکولے کھاتی تھی ہم اندر سیٹوں پہ بیٹھے اوپر اچھلتے تھے۔جگہ جگہ روڈکھولنے کاانتظارکرتے ہوئے برست چیک پوسٹ سے آگے اندھیرا چھاگیا۔آس پاس کے خوب صورت مناظر کو بھی جی بھر کے دیکھنے کا موقع نہ ملا ۔ وہ کچی ٹوٹی پھوٹی سڑک کبھی کھیتوں کے بیچ سے ،کبھی نالے کے ساتھ ساتھ،کبھی خشک پہاڑوں کے دامن سےگزرکررات 1بجے ہم گلگت شہرپہنچ گئے۔
اس ایکسپوژرٹور کواپراورلوئرچترال میں گورنمنٹ افیشلز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو جی بی سی میں باہمی رابطہ مزیدفعال بنانے کے حوالے سے آغاخان رورل سپورٹ پروگرام چترال نے کنیڈین گورنمنٹ کی مالی معاونت سے بیسٹ فارویئر پراجیکٹ کے زیراہتمام انعقاد کیاتھا۔تاکہ سرکاری ،غیرسرکاری اورعوامی نمائندوں او ر برادریوں کے آپس میں باہمی تعلقات مضبوط ہو۔ خواتین کی معاشی خودمختاری ہی خواتین کی صحیح معنوں میں آزادی اورترقی کی ضامن ہیں۔
دوسرے دن ہمیں اے کے آرایس پی کے کورآفس گلگت لے گیاجہاں پروگرام منیجرایم این ای ذیشان ، جینڈر اسپیشلسٹ اے کے آر ایس پی سوسن عزیز،ایریامنیجر راحت علی ،منیجرصحت مندخاندان فریدہ ناز، پروگرام منیجرسول سوسائٹی منیرہ شاہین،نیازاحمدشاہ اوردوسروں نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (AKRSP)جی بی اورچترال کے پسماندہ اوردورافتادہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں کےجال بچھانے کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی، علم تک رسائی، غربت کے خاتمے ، سماجی شمولیت کو فروغ دینے ،کاروبار، صحت اوردیگرشعبوں میں بے شمارخدمات سر انجام دی ہیں ۔
اے کے آرایس پی کا قیام 1982کوعمل میں لایا گیا تھا جس کامقصدپسماندہ دیہی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ مختلف امورپرآگاہی دیناہے ۔اے کے آرایس پی چترال میں لوگوں کوہنرمندبنانے میں سماجی،معاشی،معاشرتی،،نفسیاتی ،تکنیکی ، زرعی، پن بجلی گھر اوردوسرے شعبوں میں اہم کرداراداکررہاہے ۔
آغا خان رورل سپورٹ پروگرام اپنے شراکتی طریقہ کار کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں ۔ جس میں غیرسرکاری اور علاقائی تنظیمیں متعلقہ علاقوں میں خواتین تک رسائی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ ادارہ ہذا معاشرے کے تمام طبقوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے تاکہ معاشرے میں حقیقی معنوں میں تبدیلی آ سکے اور کوئی بھی حصہ اس سے شمولیت سے محروم نہ رہے۔
گزشتہ چالیس سالوں سے اے کے آرایس پی جی بی اور چترال میں مختلف ورکشاپس ،کانفرنس،سمینار، ریسرچ،، تعلیمی کورسز، کمیونٹی ورک اوردوسرے پروگرام کے ذریعے گھرگھرآگاہی پہنچانے کی ہرممکن کوشش کرر ہے ہیں ۔اوردیہی خواتین کے معاشی کردار کی پذیرائی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کے حل اور ترقی کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی کررہی ہیں۔کئی چیلنجز کامقابلہ کرتے ہوئے پسماندہ علاقوں میں لوگوں کے معاشی حالات میں نمایاں تبدیلی لائی ہیں ۔ترقی سے مراد صرف سائنس یا ٹیکنالوجی کی موجودگی نہیں، بلکہ ترقی کا اصل مقصد اس معاشرے میں رہنے والے انسانوں کی حالت و روزمرہ زندگی میں بہتری لاناہے جس میں اے کے آریس کااہم رول ہیں ۔
آغاخان رورل سپورٹ پروگرام صنفی مساوات،اخلاقیات،مثبت ثقافتی پہلووں ،بچوں کے حقوق ،نوعمروں کی نشوونما، انفارمیشن ،ایجوکیشن ،بچوں اوربڑوں کی مینٹل ہیلتھ ،زندگی میں خوداعتمادی پیداکرنے اورذہنی وجسمانی صحت کاخیال رکھنے قدرت کی طرف سے عطا کی گئی صلاحیتوں کوصحیح معنوں میں استعمال واُجاگر کرنے کا درس ہرفورم میں دے رہی ہیں ۔پسماندہ علاقوں کی دقیانوسی اصولوں کامقابلہ کرتے ہوئے نوجوان نسل خاص کرخواتین کو معاشرے کا فعال اور مثبت رکن بنانے میں ایک نیا باب رقم کی ہے ۔
بعدمیں چترال سے آئے وفدکو سوشل ویلفیئر, پاپولیشن ویلفیئر اور وومن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا دورہ کیا۔جہا ں سیکرٹری سوشل ویلفیئر ، ویمن ڈویلپمنٹ ، ہیومن رائٹس اینڈ یوتھ افیٔرز فدا حسین چترال وفدکوخوش آمدیدکرتے ہوئے گلدستہ پیش کیا۔سیکرٹری فداحسین کاتعلق ضلع غذرسے ہےجو کھواربولتے ہیں اس وجہ سے انہوں نے ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ۔
مختصربریفنگ دیتے ہوئے انہوں نےکہاکہ گلگت چترال ایکسپریس وے منصوبے کی تکمیل سے یہاں کے سیاحت کوفروع ملے گا۔ چترال اورگلگت بلتستان ایک گھرکے مانندہیں ہمارے زبان ،روایات اورکلچرمشترک ہے ہماری مہمان نوازی اورمنفرد کلچرپوری دنیامیں اپنی مثال آپ ہے ۔صوبہ گلگت بلتستان کا رقبہ تقریباً 73 ہزار مربع کلومیٹر (28 ہزار مربع میل) سے زیادہ ہے اور2017کے مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کی کل آبادی 14لاکھ 92ہزارہ ہے ۔یہاں شینا، بلتی،بروشسکی، کھوار اور وخی بولی جاتی ہے ، جبکہ سب سے بڑی زبان شیناہے جو کہ 65 فیصد لوگ سمجھ سکتے ہیں۔
دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ پاکستان اور دنیا بھر سے سیاح اس خطے کا رخ کرتے ہیں اور یہاں ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ اے کے آرایس پی گلگت بلتستان کے دور افتادہ علاقوں اور دیہی علاقوں میں تنظیمیں بنا کر خواتین کو اپنے پا وں پر کھڑا کرنے سمیت دیہی علاقوں کے تعمیر وترقی اور انکی زندگیوں میں تبدیلی کے لئے کردار ادا کیا گیا ۔ اے کے آرایس پی ہرمشکل وقت میں عوام اور حکومت کے شانہ بشانہ مصروف عمل ہیں گلگت بلتستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اے کے ڈی این کے تمام اداروں کے پوری ٹیم ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔
اس موقع پر سابق ممبرقانون سازاسمبلی گلگت بلتستان شہزادہ کنزظاہرہ اجلاس میں بیٹھی تھی چترال سے آئے وفدسے ملاقات کرکے انتہائی خوشی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ اے کے آر ایس پی نے جس طرح گلگت بلتستان کے لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کیااور ترقی کی راہ پر گامزن کیا جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔جی بی کے خواتین مختلف علاقوں میں دقیانوسی اصولوں کامقابلہ کرتے ہوئے معاشرے کا فعال اور مثبت رکن بننے کی عزم کے ساتھ آگے آنے کی ضرورت ہے اور قدرت کی طرف سے عطا کی گئی صلاحیتوں کوصحیح معنوں میں استعمال واُجاگر کرکے ملک کی ترقی میں اپناحصہ ڈال سکتے ہیں۔اس وقت صوبائی اسمبلی ڈپٹی اسپیکربھی خاتون ہے ۔
یہاں سے فارغ ہوکرساتھ ہی خصوصی افراد کی ایک سنٹرکادورہ کیاجہا ں درجنوں میل فیمل خصوصی افرادپڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنربھی سیکھ رہے ہیں ۔سی ای اوامجدندیم فاونڈیشن تمغہ امیتازامجدندیم جوخودویل چیئرپرچل پھررہاہے۔مگرمحنت ،لگن اورخدمت کے جذبے سے سرشارنوجوان امجدندیم خودتومعذورہیں لیکن حوصلے اورجہدمسلسل نے انہیں آج معاشرے کی کارآمدافرادکی صف میں لاکھڑا کیاہےدوران طلب علمی پشاورمیں حادثے کا شکار ہو گیاتھا اور تب سے انہیں ویل چیئر کا استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔جسمانی معذوری بھی امجدندیم کے حوصلے کوپست نہ کرسکااوروہ آج دوسرے خصوصی افرادکے لئے اُمیداورکامیابی کی مثال بن چکی ہیں۔امجدندیم نے سب سے پہلے گلگت بلتستان بھر کے خصوصی افراد کی حقوق کے لیے جنگ لڑی انہیں ویل چیئر سمیت دیگر ضرورت کی چیزیں مہیا کی۔انہوں نے افراد باہم معذوری کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینے ،اُن کےجائز حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے اورکسی کے ساتھ امتیازی سلوک کے خدشات کوخاتم کرنے کے لئے امجدندیم فاونڈیشن کاقیام عمل میں لایاہے ۔گلگت بلتستان میں اپنی نوعیت کا پہلا سنٹر ہے جہاں معزور افراد کو خودمختار بنانے کے لیے انہیں مختلف ہنر سیکھائےجاتے ہیں۔یہاں سے فارغ ہوکردنیورایل ایس او کاوزٹ کیاجہاں خواتین مردانہ بالادستی کوکم کرکے مردخواتین کوبرابری کی بنیادپرکام کرنے کے حوالے تفصیلی گفتگوکی۔
دوسرے دن: صبح اٹھاکراپناسفرہنزہ ویلی کی طرف جاری رکھا جہاں پہنچتے ہی اے کے آرایس پی کے ایریاآفس میں مختصربریفنگ کے بعدوہاں کے ایریامنیجرصائمہ اورفنانس افیسر ہمیں ہنزہ کے خواتین کارپینٹری کے اسٹال میں لے گیا۔چترالی وفدسے گفتگوکرتے ہوئے کارپینٹرخاتون بی بی آمنہ نے بتایاکہ 2008میں کارپینٹری کاکام شروع کیا اس دوران کئی چیلنجوں کاسامناکرناپڑا۔مردوں کی بالاستی والے میدان میں جگہ بنانابہت مشکل تھی۔مگرہمیت نہیں ہاری گھروالوں نے ساتھ دیاحالات کامقابلہ کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچی ہوں۔آج درجنوں خواتین یہاں سے تربیت حاصل کرکے اپنے خاندان کی روزی روٹی کماتی ہیں۔اے کے آرایس پی یہ غیر منافع بخش ہے اور اس کا مقصد گلگت بلتستان اور چترال کے لوگوں خصوصاً خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے۔

بی بی آمنہ نے کئی نوجوان لڑکیوں کو تربیت دی ہے جنہوں نے لکڑی کے نئے سامان بنانے کے لیے جدید ہنر اپنایا ہے۔ وہ اپنے طالب علموں کو متنوع اور بہترین ہوتے دیکھ کر فخر محسوس کرتی ہے۔گلگت بلتستان کے خواتین میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرسکتے ہیں۔ ہنزہ کریم آباد میں خواتین کارپنٹرین اور دیگر کاموں میں مہارت رکھتے ہیں خواتین کے لئے مشال ہے۔
بعدمیں التت قلعہ کے سینئر گائیڈ جاویدہنزائی نے ہمیں قلعے کامکمل سیرکرایاتفصل بتاتے ہوئے کہاکہ ہنزہ کے قلعوں میں التت قلعہ سب سے پرا نا ہے۔یہی کوئی نو سو، ہزار سال پرانا۔ پہلے ہنزہ کے میر یہیں رہتے تھے۔وادی ہنزہ کے اصل باشندے بروشو کہلاتے ہیں۔ التت وادی کا ایک قدیم گاؤں اور اپنے قلعے کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔یہ گلگت بلستان میں قدیم ترین قلعہ ہے۔التت کے قدیم لوگوں کے بارے میں خیال ہے کہ ان کا تعلق سلطنت فارس کے قدیم ترقی پذیر اور زراعت سے وابستہ ترک قبیلے ‘ہن’ سے ہے۔کہتے ہیں اس بستی کا پرانا نام ہنوکشال تھا جس کا مطلب ہنوں کا گاؤں ہے۔یہ قلعہ نہ صرف کئی حملہ آوروں کے حملوں میں ثابت قدم رہا بلکہ تعمیر کے بعد آنے والے زلزلوں میں بھی اپنا وجود باقی رکھتا آیا ہے۔یہ امر اسے اپنے دور کی حیرت انگیز اور فن تعمیر کی شاہکار تعمیرات میں سے ایک بناتا ہے۔جسے2007ء سے عوام کے لیے کھولا گیا۔ ٹکٹ کی 30فی صد رقم لوکل کمیونٹی کودیاجاتاہے ۔
قراقرم ایریاڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (KADO) کادورہ کیاجو عام لوگوں کے ساتھ خصوصی افرادکے ترقی کے لئے کام کررہی ہے جس مقصدکاروباری ،سماجی اوراقتصادی ترقی کوفروغ دیناہے ۔خاص کرخصوصی افراد،خواتین اورمعاشرے کے دیگرپسماندہ طبقات کی غربت اورپسماندگی کوکم کرنے کے بااختیاربنانے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔ قراقرم ایریاڈیولپمنٹ آرگنائزیشن پسماندہ علاقوں میں پائیدارترقی کوآگے بڑھانے کے لئے جدیداورمقامی طریقوں کوملاتی ہے۔یہاں کےایک ذمہ دارنے بتایاکہ ہمارا مقصدپسماندہ کمیونٹیزکوانٹرپرینیورشپ ،ڈیجیٹل ذریعہ معاش،خواتین کوبااختیاربنانے ،پی ڈبلیوڈی ایس کی شمولیت اورمہارت کی ترقی کوفروع دنیاہے
یہاں سے ہمارے قافلے عطاء آباد جھیل کی سیرکے لئے نکل کیاگیا۔عطاء آبادجھیل کے دلفریب قدرتی نظاروں اورآسمان تلے جادوئی نیلے پانی سے لطف اندوزہونے کے لئے دنیابھرسے سیاح اس رح کرتے ہیں ۔ ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع گلگت بلتستان کی جنت نظیر سیاحتی وادی ہنزہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیابھرکے سیاحوں کی توجہ کامرکزہے۔یہاں سے گلمیت میں ہم نے دوپہرکاکھانہ کھایا۔وہاں میاں بیوی ایک ریسٹوریٹ چلاتے ہیں ۔ہوٹل مالک نے بتایاکہ ہم نے چترال کے کونے کونے گھوم پھرچکاہوں چترال کے لوگ بہت خوش اخلاق اورمہمان نواز ہے ۔انہوں نے یہ بھی بتایاکہ چترال انتہائی پسماندہ اوردورافتادہ علاقے بروغل کے 25بچوں کوہم نے یہاں لاکراچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم دے رہے ہیں ہماری کوشش ہے وہاں کے پسماندگی میں کوئی کمی آجائیں ۔یہاں سے ہم واپس گلگت پہنچ گئے ۔
تیسرادن:صبح سویرے گلگت سے واپس روانہ ہوکرایریاآفس اے کے آرایس پی گاہگوچ پہنچایہاں کے ایرمنیجرجاویدعارف نے ہمیں ضلع غذرمیں اے کے آرایس پی کے ترقیاتی اورآگاہی کے کاموں کے حوالے تفصلی بریفنگ دی ۔جمعہ کادن تھابعدازنماز جمعہ گروپ کے خواتین گاہکوچ کے آس پاس علاقوں کودیکھنے کی خواہش کی اور مردحضرات اشکومن جانے کاپروگرام کیا۔گلگت کاٹورہم نے کئی دفعہ کرچکے تھے اوربعض دوست نئے تھے اشکومن ویلی ہم سب کے لئے نئے تھے ۔اشکومن کی طرف سفرجاری رکھتے ہوئے پھکورہ سے تعلق رکھنے والےمعروف شاعر،ادیب ،منفرداندازکے گلوکارسیدممتازعلی اندازسے رابطہ کیا۔انہوں نے ہمیں اپنے دولت خانے میں دعوت دی بہت خلوص دل سے ہمارے مہمانوازی کے مگروقت کی کمی سے زیادہ دیرتک وہاں نہ رھ سکی ۔واپس گاہکوچ میں آکررات گزاری اورچھوتے دن اپنے سفرچترال کی طرف جاری رکھتے ہوئے براستہ شندورشام چھ بجے چترال شہرپہنچ گئی
اسی لئے سالانہ ہزاروں ملکی اورغیرملکی سیاح ان سربفلک چوٹیوں اوران پرستانوں کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔اس پانچ روزہ معلوماتی ٹورکوچارچاندلگنے میں ہمارے ڈرئیورحضرات بشیراحمد،غلام چچا،حاجی وزیراورسرتاج خان کابڑاہاتھ تھا انہوں کے تمام گروپ ممبروں کاانفرادی اوراجتماعی خیال رکھتے ہوئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی فضل کرم سے چترال پہنچا دی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button