"سورج افق کے پار ڈوب گیا، اپنی وسیع و عریض زمینوں کے پھیلاؤ کو دیکھنے میں مگن حمزہ خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ سورج ان وسیع و عریض زمین پر ممتا کیطرح گرم چمک ڈال اس زمینوں کو اپنی ممتا سے سیراب کر رہا ہے۔ خوشنما کھیت، سرسبز اور لہلاتے پودے اور سنہری پیلے رنگوں کا ملاپ، جہاں تک آنکھ دیکھ سکتی تھی، قدرت کے حسین رنگ پھیلے ہوئے تھے۔ ہلکی ہوا کا جھونکا نرم سرسبز و شاداب گھاس میں سے سرسراہٹ کر رہا تھا۔ ، اور ایک سریلی موسیقی کو تخلیق کر رہی تھی اور پرندے اپنی چہچہاہٹ کے ساتھ رقص کررہے تھے ۔
فاصلے پر درختوں کا ایک چھوٹا سا جھنڈ بڑے فخر اور غرور سے سینہ تھان کے کھڑا تھا، ان کے پتے خزاں کے متحرک رنگوں جلمل جلمل کر رہے تھے۔ ان درختوں کی شاخیں سورج کی کرنوں سے خوش آئند پیغام پا کر خوشی سے جھوم رہی تھی اور گویا خوشی سے جھوم جھوم کر آسمان کی بلندی کی طرف پہنچ گئیں تھی جیسے جیسے حمزہ اپنے گھر کے قریب پہنچا، ہوا ٹھنڈی ہوتی گئی، نم مٹی اور گرے ہوئے پتوں کی سرسراہٹ مٹی کی خوشبو اپنے ساتھ اڑا لے جاتی
ندی جس کا
کرسٹل کیطرح پاک صاف پانی آس پاس کے مناظر کی پر سکون خوبصورتی کو ظاہر کر رہا تھا ۔ندی کے بہتے ہوئے پانی کی ہلکی ہلکی ہلکی آواز نے میری روح کو سکون بخشا جب میں کائی سے ڈھکے کنارے پر بیٹھا، اس نظارے سے مسحور ہوگیا۔
حمزہ پندرہ سال کا ایک خوبصورت جوان تھا جس نے ابھی ابھی میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اپنے ذہن میں خواب سجائے اس دلکش نظارے میں مدھوش تھا اور سوچ رہا تھا کہ کائنات رب العالمین نے کتنی خوبصورت بنائی ہے اور وہ قدرت کی اس انمول تخلیق کا مشاہدہ کر رہا تھا وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوا مگر
جیسے ہی شام نے آسمان کو جامنی اور گلابی رنگوں میں لپیٹ لیا اور ہلکا اندھیرا چھانے لگا تو پہلے ستارے اوپر ٹمٹمانے لگے۔ ان کے آسمانی دودھیا سفیدی کی نرم روشنی اور چمک نے نیچے کی دنیا کو روشن کر دیا، اور پہلے سے ہی پرفتن منظر میں جادو کا ایک لمس شامل کر دیا تھا۔ چمکتے جگنو نمودار ہوئے ان کی ہلکی ہلکی روشنیاں اجتماعی اندھیرے میں ایک روحانی رقص پیدا کر رہی تھیں۔
اس دلکش لمحے میں، حمزہ اپنے ارد گرد کی قدرتی دنیا سے گہرا تعلق محسوس کر رہا تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے وقت ساکت کھڑا تھا، جس نے مجھے اپنے ارد گرد کی خوبصورتی میں پوری طرح غرق کرنے کی اجازت دی ہو جیسے ہی میں نے دلکش مناظر کو دیکھا، میں نے محسوس کیا کہ فطرت کے پاس روح کو سکون دینے کا ایک طریقہ ہے، جو ہمیں ان فطری عجائبات کی یاد دلاتا ہے جو ہماری دہلیز کے بالکل پرے ہیں۔”
حمزہ نے آج اپنی زمینوں پر گندم کی کٹائی کی اور اچھی خاصی برکت والی فضل ہوئی تھی اس بات پر وہ بہت ہی خوش تھا
چھوٹے سرکار آپ روز ہی آتے ہیں اور ہم غریبوں کیساتھ ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں حالانکہ ہم آپکے مزدور ہیں نوکر چاکر ہیں
یہ بات بخشو کاکا نے کہی جو حمزہ کے کھیتوں کے چوکیدار تھے اور رات کو چوکیداری کا کام کرتے تھے بخشو کاکا یہ یہ میری عادت ہے کیونکہ
جیسے ہی میں گاؤں کے مناظر کو دیکھتا ہوں، ہم آہنگی اور سکون کا احساس مجھ پر چھا جاتا ہے۔ سرسبز و شاداب مکانات میں سادگی اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔مجھے یہاں خوشی ملتی ہے سکون ملتا ہے کاکا
گاؤں کے چاروں طرف گھومتی ہوئی پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہمارا پیارا گاوں ہے جہاں تک میری آنکھوں نظر جاتی ہے،خوبصورتی ہی خوبصورتی نظر آتی ہے موسموں کے ساتھ ان کے متحرک رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ خزاں کے سنہری رنگ مرغزاروں کے زمرد کے سبز رنگ کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے گھل مل جاتے ہیں، جو ہمارے اس دیہاتی گاؤں کے لیے ایک دلکش پس منظر بناتے ہیں۔
جنگلی پھولوں اور لمبے گھاسوں سے جڑے راستے گاؤں سے گزرتے ہیں۔ ہوا کھلتے پھولوں کی میٹھی خوشبو سے بھری ہوئی ہے، تازہ ہل چلائے گئے کھیتوں کی مٹی کی خوشبو سے مل رہی ہے اور انکا یہ ملاپ ایک خوش کن اور سوندھی سوندھی خوشبو میں ڈھل رہا تھا رنگ برنگے باغات گھروں کے سامنے کے صحن کو آراستہ کرتے ہیں، جو فطرت کی حسین و جمیل فنکاری کو پوری طرح سے ظاہر کرتے ہیں۔
ہاں بیٹا یہ تو آپ نے ٹھیک کہا رب سونھڑے کا بڑا کرم ہے اپنے گاوں پر اور زمین بھی کافی سرسبز دی ہے بس جی جتنا شکر ادا کریں کم ہے
حمزہ حمزہ میرے بھائی کہاں ہو
دور سے مرزا بھائی کی آواز سنائی دی مرزا حمزہ کے بڑے بھائی تھے اور شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ تھے اپنا پرائیویٹ بزنس کرتے تھے
اماں پریشان ہو رہی ہے حمزہ کافی دیر ہو گئی ہے تم ابھی تک گھر کیوں نہیں گئے
بھائی مصروف تھا اور مزدوروں کو تنخواہ دے کر تھوڑا یہاں سکون کیساتھ وقت گزار رہا تھا آپکو تو پتہ ہے مجھے کائنات کی خوبصورتی سے پیار ہے
اوپر سے بخشو کاکا نے مجھے روک لیا اور میرے لئے گڑھ والی چائے بنا رہا پے
اچھا اچھا گھر جلدی جاو اماں نے آج تمھارے لئے کوفتے بنائے ہیں کہتی ہے جب تک حمزہ نہیں آئیگا تب تک کوئی نہیں کھائے گا
مرزا عامر اور حمزہ عامر گاوں کے ایک بیوہ کے جوان بیٹے تھے جنکو اس نے مشکلات سے پال پوس کر بڑا کیا تھا
مرزا نے آٹھویں تک پڑھائی کی تھی اس سے زیادہ نا پڑھ سکا باپ کے مرنے کے بعد سارا بوجھ اس پر آگیا تھا بیوہ ماں نے نوجوانی میں ہی گاوں کی ایک سیدھی سادی لڑکی نجمہ سے اسکی شادی کر دی اور اب ماشاءاللہ دو بچوں کا باپ تھا جبکہ حمزہ عمر میں سب سے چھوٹا تھا ابھی پندرہ برس کا ہوا تھا مگر بہت ہی شریف النفس اور سیدھا سادہ لڑکا تھا حساس طبیعت کا مالک تھا اور ہر ایک کی مدد کرنا اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا میٹرک کے بعد کالج جانے کا شوق تھا مگر گاوں میں اس وقت کالج نہیں تھا صرف پرائمری اور ہائی سکول تھے کالج کے داخلے کے لئے شہر جانے کا اسکا پروگرام تھا اور اپنے بھائی سے اس پر کئی بار مشورہ بھی کر چکا تھا
گھر جاتے ہوئے راستے میں حمزہ کو اکمل جان ملا جو اسی کے گاوں کا باشندہ تھا اور حمزہ سے باتیں کرنے لگا کہ آج رات کو ہمارے حجرے میں پروگرام ہے دوست پارٹی وغیرہ کرینگے شغل اور کریم بورڈ کی بازی بھی ہو گی تم بھی آنا اور ہاں خوب مزے کرینگے مرزا کو مت بتانا بس آجانا تم تو جانتے ہو نا میں تمھارا خیرخواہ ہوں اور چاہتا ہوں کہ تمھارا شہر کے بڑے کالج میں داخلہ کروا دو اس پر بھی مشورہ کرینگے
یہ سن کر حمزہ خوش ہوا اور بولا اچھا اکمل بھائی میں اپنے یہ دو لاکھ روپے اماں کو دے دو آج گندم کی کٹائی کا منافع ملا ہے
یہ ان کر اکمل جان نے کہا ارے پیارے یہ روپے مجھے دو میں امانت رکھ دونگا شہر میں کالج ہاسٹل وغیرہ کے کام آئینگے اچھا ٹھیک ہے بھائی یہ لو اور روپوں سے بھرا لفافہ حمزہ نے اکمل جان کو دے دیا کیونکہ وہ اکمل جان پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرتا تھا
اکمل جان بہت اچھا انسان تھا اور اسکا ڈھیرہ
گاؤں کی سرگرمی کا ایک ہلچل کا مرکز تھا دوستوں، یاروں اور وہاں کے رہائشیوں کے لیے اجتماع کی جگہ تھا وہاں مقامی لوگ متحرک اور سیاسی اور سماجی گفتگو میں مشغول ہوتے رھے، ہوا میں ہنسی گونجتی ہے، قہقہے گونجتے ہیں وہ خبروں کا تبادلہ کرتے ہیں اور کہانیاں بانٹتے ہیں۔ آس پاس کے یار دوست ایک دوسرے کو دکھ درد ایک دوسرے کو سناتے رہتے حمزہ اگرچہ ان سب میں کم عمر تھا اور اس ماحول میں فٹ نہیں ہو سکتا تھا لیکن اپنے تعلق کا احساس محسوس کر سکتا تھا وہ ان لوگوں کو پسند کرتا تھا ، حمزہ جب بھی وہاں جاتا لوگ پرجوش طریقے سے ملتے حمزہ محسوس کرتا گویا میرا ایک قریبی برادری میں خیرمقدم کیا گیا ہے جو زندگی کی سادہ خوشیوں کو اپناتی ہے آپس میں دکھ درد بانٹتی ہیں ۔
گاؤں سے پرے فاصلے پر ایک گھنا جنگل تھا۔ بلند و بالا درخت آسمان کی طرف پہنچتے تھے اور شاخیں جھوم جھوم کر زمین تک آتی تو ایک پراسرار سے آواز پیدا ہوتی اور ان کی شاندار موجودگی حیرت کے احساس کو جنم دیتی تھی۔ جیسے جیسے سورج کی روشنی درختوں کی جھنڈ سے گزرتی ہے، جنگل کے زمین پر روشنی کے دھندلے دھبے پیدا کرتی ہے، وہاں سکون کا احساس اردگرد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا حمزہ ان راستوں سے گزرتا ہوا بالآخر اپنے گھر پہنچا ۔
چھوٹے چاچا چھوٹے چاچا آپ کہاں تھے ہم سب آپ کا انتظار کر رہے تھے ابھی تک کھانا بھی نہیں کھایا دادی امی اور سارا آپکا انتظار کر رہی ہیں
یہ باتیں حمزہ کا چھوٹا لاڈلا بھتیجا عاطف کر رہا تھا حمزہ نے عاطف کو دیکھتے ہی گود میں اٹھا لیا اور جیب سے ٹافیاں نکال کے دینے لگا
ارے بیٹا اتنے دیر سے کیوں آئے میں بہت پریشان تھی کی بار مرزا کو تمھارے پیچھے بھیجا مگر تم نہیں ملے کہاں تھے ؟
کہی نہیں اماں اکمل جان بھائی کے پاس تھوڑا رکا تھا بس وہی دیر ہوئی
نجمہ بیٹی جاو باورچی خانے سے گرم روٹی اور جو کوفتے میں نے اپنے پتر واسطے بنائے ہے وہ لے آو
رہنے دو اماں ہم سب اکٹھے باورچی خانے میں جاتے ہیں وہاں چولہے کے پاس بیٹھ کر اکٹھے ہی کھانا کھائیں گے تم کیا کہتے ہو حمزہ ؟
بالکل بھائی میں آپکے سامنے انکار کی جرات کر سکتا ہوں بھلا چلو عاطف منھی سب کھانا کھاتے ہیں سب باورچی خانے میں کچے زمین پر لکڑی کی چوکیوں پر بیٹھ گئے
نجمہ نے پلیٹوں میں سالن ڈالا اور گرم گرم روٹی سامنے رکھ دی اماں کوفتے تو بڑے مزے کے بنے ہیں حمزہ شوق سے کھانے لگا
بھائی میں تو شہر میں داخلہ لینا چاہتا ہوں
ہاں چھوٹے تم ٹھیک کہتے ہو ہمارا گاوں گلگت کے پاس ہے یہاں صرف سرکاری سکول ہے اور کالج اور یونیورسٹی کی کوئی سہولت نہیں کل ہی نکڑ کی دوکان پر اسلم چاچا کہہ رہے تھے کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ہمارے گاؤں میں بھی ایک عدد لڑکوں اور لڑکیوں کے کالج بنائیں جائیں جب تک آگے تعلیم کے مواقع نہیں ملیں گے تو ہمارے بال بچے کیسے ماہرین بنے گے وطن کی خدمت کرینگے؟
ہاں مرزا بیٹا اس لئے تو تم آگے پڑھ نا سکے خدا ان وزیروں کو عقل دیں کہ اپنے ملک کے لئے کچھ اچھا کام کریں ورنہ تو صرف ووٹ مانگنے آتے ہیں اور بعد میں ہم غریبوں کو بھول جاتے ہیں
حمزہ نے اپنے بڑے بھائی مرزا سے پوچھا بھائی آپ شہر نہیں جائینگے
نہیں میرے بھائی میں دال روٹی اور بچے پیدا کرنے کی اس روایتی زندگی میں خوش ہوں مجھے گاوں کی زندگی پسند ہے
گاؤں کے مناظر صرف آنکھوں کے لیے عید نہیں ہوتے بلکہ یہ روح کی بھی پرورش کرتے ہے. یہ ہمیں فطرت کی خوبصورتی کی تعریف کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور ہم اس سادگی میں سکون تلاش کرتے ہیں، اور انسانی تعلق کی گرمجوشی کو پسند کرتے ہیں گاوں کی ہماری فطری زندگی یہ ایک نرم یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے کہ کبھی کبھی، سب سے زیادہ غیر معمولی لمحات عام زندگی میں بھی پائے جا سکتے ہیں.
حمزہ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمارا گاؤں تو پاکستان میں ہی ہے تو یہاں سرکار کالج کیوں نہیں بناتی یونیورسٹی کیوں نہیں بناتی کہ ہم غریبوں کا بھلا ہو جائے چلو ہم تو سفید پوش لوگ ہے ابا کی جانب سے اچھی زمین جائیداد کے مالک ہے مگر اور لوگوں کا کیا؟
اب اپنے چوکیدار بخشو کاکا کو ہی لو نا نوکری نا گھر بار نا کاروبار
اپنے محلے کے شیرو چاچا کو لو نا نوکری نا روزگار صرف جوتیاں سی سی کر گزارہ کر رہے ہیں کیا سرکار کو ہم غریبوں کی مدد نہیں کرنی چاہیے
کیا ہمارے پاس پاکستانی شناختی کارڈ نہیں ہے؟
کتنے بچے ہے جس نے بورڈ میں ٹاپ کیا ہے مگر سب کالج نا ہونے کیوجہ سے کھیتی باڑی میں لگ گئے ہیں اماں اس لئے میں کہتا ہوں کہ اپنے چھوٹے بھائی حمزہ کو شہر پڑھنے بھجوانے کا بندوبست ضرور کرونگا چاہے مجھے اس کے لئے اپنے حصے کی زمین کیوں نا بیچنی پڑی
بلکہ میں کل ہی منشی سلامت سے بات کرتا ہوں اور اپنی زمین کے بدلے رقم کا مطالبہ کرونگا اور وہ ساری رقم حمزہ کے مستقبل کے لئے اسکی اعلی تعلیم پر خرچ کرونگا
حمزہ نے کہا دیکھا اماں میرا بھائی جب تک زندہ ہے مجھے کبھی بابا جان کی یاد نہیں آئی بلکہ میں نے مرزا بھائی کو ہی باپ کے روپ میں دیکھا ہے
یہ ساری باتیں سن کر نجمہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے
کھانا کھانے کے بعد نجمہ نے گرم گرم قہوہ بنایا وہ بھی الائچی والا اور حمزہ عاطف اور منی لوڈو کھیلنے لگے سب گپ شپ اور قہوہ کا لطف اٹھا رہے تھے ، اور سرد رات اسی طرح معمول کے مطابق گزر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
نئے دن کا سورج نئے امیدوں اور خوابوں کا پیغام لے کر طلوع ہوا حمزہ اور مرزا کی ماں جس نے اپنی بھری جوانی اپنے بیٹوں کی تربیت میں گزار دی اور جب بیٹے جوان ہوئے تو یہی بیوگی کندن بن گئی تھی شاکرہ خاتون کے لئے وہ روز دعائیں مانگتی کہ اسکے گھر کے حالات ٹھیک ہو جائے اور حمزہ پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن جائے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خدمت کر سکے حسب معمول شاکرہ خاتون نے ناشتہ تیار کیا اور نجمہ جو اسکی لاڈلی بہو تھی اس نے چائے بنائی ساتھ دیسی گھی کے پراٹھے بنائے سب نے دل کھول کے ناشتہ کیا اور رب کا شکر ادا کیا۔
کھڑکی سے باہر مرزا نے جھانکا تو بلکل خاموشی اور شانتی کی فضا چھائی ہوئی تھی ماحول میں ایک پرسکون اور خاموش موسیقی گنگنا رہی تھی۔۔۔
مرزا سوچ رہا تھا کہ نجانے شہر کا ماحول کیسے ہو گا۔کیا شہریوں کی زندگی اب بھی ویسی ہی جاری و ساری تھی۔ کیا اب بھی شہروں میں شوروغل اور ہنگامہ جاری ہوگا؟
کیا اب وہاں اب جیسے گمنام غریبوں کو جگہ ملی گی؟
کیا میرا بھائی وہاں پڑھ سکے گا جبکہ ہم اتنے مشکل حالات کا شکار ہیں ۔۔۔۔
نہیں نہیں میں اپنے چھوٹے بھائی کی خوابوں کو پورا کرونگا چاہے مجھے خود کو بیچنا پڑے۔۔۔۔
حمزہ حمزہ میرے پیارے بھائی
جی جی بھائی جان
حمزہ آج منشی صاحب سے مل لینا میں نے اپنی زمین کے کاغذات انکے حوالے کئے تھے وہ تمھیں بیس لاکھ روپے دینگے وہ منشی صاحب سے لینا اور گھر لاکر اماں کے حوالے کر دینا ۔۔۔۔
تو بھائی آپ نے اپنے حصے کی زمین گروی رکھ دی میرے لئے ؟ آخر کیوں یہ مناسب نہیں بھائی۔۔۔۔
میں نے جو کہا وہ کرو میں تم سے بڑا ہوں جو میں کہتا ہوں وہ کرو۔۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے بھائی جان ۔۔۔۔
یہ کہہ کر حمزہ منشی صاحب سے ملنے جاتا ہے انکے گھر کے سامنے موچیوں کا محلہ تھا وہاں زمین پر اپنی چھوٹی سے دوکان سجائے موچی رحیم داد نے کہا حمزہ بیٹا اتنی سویرے سویرے کہاں کا ارادہ ہے؟
کہی نہیں موچی کاکا بس قریب ہی دوست سے ملنے جارہا ہوں آپ سنائے ٹھیک ٹھاک ہے نا؟
اللہ کا بڑا کرم ہے بیٹا ۔۔۔۔
مولا جس حال میں رکھیں ہم خوش ہے
رب کا بڑا کرم ہے ۔۔۔۔۔
موچی کاکا یہ لو پانچ سو روپے یہ کل گندم کی کٹائی سے مجھے منافع ملا تھا اچھا خاصا تو یہ اپکو ہدیہ ہے میری طرف سے اس سے اپنے لئے نئے جوتے خرید لینا موچی کاکا ۔۔۔۔
دوسروں کے جوتے تو سیتے ہو مگر اپنا خیال نہیں کرتے۔۔
بہت شکریہ حمزہ بیٹا بہت ہی خدا ترس اور عظیم ماں کے بیٹے ہو سلامت رہو۔۔۔۔
اسلام علیکم منشی چاچا کیسے ہے آپ
مجھے مرزا بھائی نے بھیجا ہے
واعلیکم اسلام آو آو حمزہ بیٹے یہاں آو
سامنے منشی صاحب کھڑے تھے جو لمبے تڑنگے اور مضبوط جسم کے مالک تھے
منشی صاحب نے کہا تم یہی انتظار کرو میں ابھی آتا ہوں ۔۔۔۔
کچھ دیر کے بعد منشی صاحب ایک لفافہ ہاتھ میں پکڑے آئے اور سامنے کرسی پر بیٹھ گئے کہا حمزہ بیٹا ادا لفافے میں پورے بیس لاکھ نقد روپے ہیں یہ امانت اپنے بڑے بھائی مرزا عامر کو پہنچا دینا سمجھ گئے یا نہیں۔۔۔۔
جی جی منشی چاچا بہتر۔۔۔
حمزہ منشی صاحب سے روپے لے کر واپس گھر کو روانہ ہوا تو راستے میں اسکی ملاقات اکمل جان سے ہوئی۔۔۔
کیسے ہو حمزہ کہاں سے آرہے ہو؟
میں ٹھیک ہوں اکمل جان بھائی میں منشی صاحب کے گھر سے آرہا ہوں۔
یہ ہاتھ میں کیا پکڑا ہوا ہے؟
اکمل جان بھائی یہ بیس لاکھ روپے ہیں مرزا بھائی کی امانت ہے ۔۔۔
یہ سنتے ہی اکمل جان کی آنکھوں میں ایک عجیب سے چمک آئی اور بولنے لگا آو یار حجرے میں چلتے ہیں چائے وائے پیو تھوڑا تازہ دم ہو جاو پھر بعد میں چلے جانا۔۔۔۔
چائے پینے کے بعد حمزہ بولا اچھا اکمل بھائی اب میں چلتا ہوں شام ہو رہی ہے کہی دیر نا ہو جائے۔۔۔
چلے جانا مگر میری ایک بات تو سن لو تمھارے پاس بیس لاکھ روپے ہیں اور یہ کوئی معمولی رقم نہیں خدانخواستہ راستے میں کوئی چور اچکا مل جائے یا کوئی ڈاکو مل جائے تو سوچو کیا ہوگا۔۔
تم یہ رقم میرے پاس امانت رکھوا دو پھر کل صبح آکر واپس لے لینا کیا خیال ہے پھر؟
تمھیں مجھ پر تو اعتبار ہے نا۔۔۔
جی جی کیوں نہیں اکمل جان بھائی آپ ایک قابل اعتماد انسان ہے اور گاوں میں سب کی مدد بھی کرتے ہیں آپ سے بہتر بھلا کون ہو سکتا ہے؟
یہ لیں اور حمزہ نے روپوں سے بھرا لفافہ اکمل جان کو تھما دیا۔۔۔
بس اب تم بےفکر ہو جاو اور آرام سے گھر جاو
حمزہ کو یوں لگا جیسے ایک بہت بڑا بوجھ اسکے دل سے اتر گیا ہو وہ بہت مطمئن تھا
اور جاتے جاتے اپنے قدموں کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔
گھر پہنچ کر مرزا نے جب روپوں کا پوچھا تو بتایا کہ میں نے منشی صاحب سے امانت لی اور محفوظ ہاتھوں میں رکھوا دی ہے آج تھوڑی دیر ہو گئی اس لئے سویرے لے آونگا۔
اچھا ٹھیک ہے مرزا سمجھا کہ شاید بخشو کاکا کے پاس رکھوایا ہوگا
جو انکے والد محترم کے قریبی دوست اور زمینوں کے رکھوالے بھی تھے۔
مگر مرزا کو اصل حقیقت کا علم نہیں تھا۔
رات کو مرزا اپنی بیوی نجمہ سے کہتا ہے
دیکھ نیک بخت ان روپوں سے میں اپنے بھائی کا مستقبل سنواروں گا اسکا شہر کے بڑے کالج میں داخلہ کرواونگا اور میرا حمزہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے گا۔۔۔۔
تاکہ کل اپنا گڈو بھی شہر جائے اپنے چاچا کے پاس پڑھنے بڑا آدمی بننے۔۔۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں گڈو کے ابا ہمارے گاؤں میں نا تو کالج ہے نا یونیورسٹی قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ میں نے خود آٹھویں تک پڑھا ہے اور میٹرک کا تو بس خواب ہی رہ گیا ۔۔۔۔
آپ تو جانتے ہیں ہمارے گاوں میں مڈل تک سکول ہے وہ بھی کافی پرانی اور ٹوٹی پوٹی عمارت تو کم البتہ ٹوٹا کمرہ سا ہے ۔۔۔۔
نجانے سرکار ہمارے علاقے کو ترقی کیوں نہیں دیتی
یہاں سرسبز درختوں کا سلسلہ ہے انتہائی زرخیز زمینیں ہیں سرکار کو چائیے یہاں پختہ سڑکیں بنائے ہسپتال بنوائے اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ ہائی سکول اور کالج بنوائے تاکہ ہم غریبوں کا بھی بھلا ہو کب تک ہم لوگ صرف خواب ہی دیکھتے رہے گے۔
یہ تو تم ٹھیک کہتی ہو نیک بخت ہمارے علاقے میں کوئی سہولت نہیں نا سڑکیں پختہ ہے نا کوئی کالج یونیورسٹی ہے اب ہم لوگ کرے تو کیا کریں۔۔۔۔
سویرے حسب معمول سب نے اکٹھے ناشتہ کیا اور ایک دوسرے کیساتھ ہنسی مذاق کر رہے تھے،حمزہ نے اماں سے اجازت لی اور رقم کے پیچھے جانے لگا۔
مرزا نے کہا حمزہ دوپہر تک گھر واپس آجانا زیادہ دیر مت کرنا اچھا۔۔۔
جی ٹھیک ہے بھائی جان۔
حمزہ نے دروازہ پر دستک دی۔۔۔
سلام چاچا کیا اکمل جان بھائی گھر پر ہے ؟
اسکے پاس ایک امانت رکھوائی تھی وہ واپس لینی ہے ۔۔۔۔
نہیں بیٹا اکمل جان تو کل رات سے نہیں واپس نہیں آیا شاید اپنے ڈھیرے پر دوستوں کیساتھ ہو گا وہی دیکھ لینا۔۔۔۔
حمزہ جب ڈھیرے پر پہنچا تو اکمل جان وہی گپ شپ میں مشغول تھا حمزہ کو دیکھتے ہی بولا آو حمزہ بیٹھو کیسے ہو،طبعیت وغیرہ تو ٹھیک ہے نہ؟
جی شکریہ ہے رب کا ۔ ۔۔۔
اکمل جان بھائی مجھے وہ امانت واپس کر دیں
یہ سننا تھا کہ اکمل کا چہرہ ایک دم پیلا پڑ گیا ۔۔۔
اور بولا حمزہ وہ امانت تو کل رات میں نے اپنے ایک دوست کے پاس رکھوائی ہے یہاں میرے پاس نہیں ہے۔۔۔چلو دوست کے گھر چلتے ہیں ۔۔۔حمزہ اکمل جان کیساتھ روانہ ہوا۔۔۔راستے میں گپ شپ لگاتے ہوئے چلتے چلتے بہت دور نکل گئے۔
اور ایک پہاڑی پر پہنچ گئے وہاں اکمل جان نے حمزہ سے کہا، دیکھو کتنا حسین منظر ہے وہ سامنے گاوں جو نظر آرہا ہے وہاں میرا دوست رہتا ہے۔
میں نے کل ہی بتایا تھا کہ کل میں یہاں ملونگا۔
حمزہ کی چونکی پیٹھ تھی اور اکمل جان پیچھے کھڑا تھا تو خاموشی سے پستول نکالی اور حمزہ کے سر پر گولی چلا دی ۔۔۔۔
گولی لگتے ہی حمزہ زمین پر گرا اور بولا اٹک اٹک کر۔۔۔۔۔۔اکمل بھائی
میں نے آپ پر اعتبار کیا۔۔۔۔
اعتبار۔ ۔۔۔کا۔۔۔کا۔۔۔کا۔۔۔خون
اور حمزہ کا سر ڈھلک گیا روح نکل گئی
اپنے دل میں اعلی تعلیم اور سنہرے مستقبل کے خواب لئے ایک جوان لالچ کی بھینٹ چڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔