کتابوں میں پھول رکھنے کی روایت بڑی رومانوی ہوا کرتی تھی مگر زمانہ اس قدر تیزی سے بدل رہا ہے کہ اب کتابیں ہیں اور نہ پھول باقی ہیں۔ کتاب اور لائبریری یا کتب خانہ اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کی ٹیکسٹ بک یا درسی کتب بھی ختم ہو رہی ہیں جب سے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو ڈگری جاری کرنے کا اختیار ملا ہے اس نے کتابوں پر انحصار کم کر دیا ہے اب پروفیسر صاحبان کلاس کے بچوں کا Whatsapp گروپ بناتے ہیں اور لیکچر اس گروپ میں اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔ جس نے پڑھنا ہے پڑھ لے اگر کسی کو مزید رہنمائی کی ضرورت ہو تو انٹرنیٹ پر خود سرچ کرے اس سے طالبان علم میں تحقیق کی عادت تو پیدا ہوتی ہے مگر کتاب کی روایتی اہمیت نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ جہاں تک تحقیق کی بات ہے تو ایسے کیسز کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جہاں ڈاکٹریٹ کرنے والے استادوں پر الزام ہے کہ انہوں نے مقالہ جات چوری کر کے اپنے نام سے چھپوا لیے ہیں اور بہت سے وہ ہیں جو پکڑے ہی نہیں جاتے ہمارا وہم و گمان تو اس کی وجہ کتاب سے قطع تعلق کو ہی سمجھتا ہے۔
کتاب کے ساتھ گم گشتہ تعلق کی بحالی کیلئے ہمارے ہاں کچھ نہ کچھ کوشش ہو رہی ہے مگر اس کوشش میں اہل مکتب یا اہل علم سے زیادہ دلچسپی ان کاروباری اداروں کو ہے جو کتابوں کی چھپائی کا کام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا کاروبار ترقی کرے مگر اس میں بھی انہیں کا میابی نہیں مل رہی۔
میلے ہماری ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ میلہ کا لفظ ذہن میں آتے ہی کھیل تماشا سیر و تفریح اور کھانے پینے کا خیال آتا ہے۔ عوام کی اس حس لطافت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کتاب کی واپسی کی تحریک چلانے والوں نے کتابوں کی نمائش کا نام اب کتاب میلہ رکھ دیا ہے تاکہ عوام کو میلہ کے نام پر کتاب کی طرف راغب کیا جاسکے اس لئے اب کتاب میلے منعقد کیے جاتے ہیں،
انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) کے انقلاب نے پرانی روایات کو ملک بدر کر دیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ذہن اب عملی نہیں بلکہ Virtual ہو چکے ہیں۔ اب ہم پھول کو شاخ سے توڑ کر اس پر جمے ہوئے شبنم کے قطروں اور اس کی خوشبو کا ذائقہ اٹھانے کے بجائے انٹرنیٹ پر پھولوں کی تصویروں سے لطف اندوز ہونے اور ان کو آگے شیئر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں نئی نسل تو ایسے سوفٹ ویئر کی ایجاد کی منتظر ہے جہاں بھوک لگنے پر ایسے میگا بائٹس ان کے لیپ ٹاپ یا موبائل سے ڈاؤن لوڈ ہو کر ان کے جسم میں ٹرانسفر ہو جائیں جہاں انہیں کھانا کھانے کی ضرورت نہ پڑے۔
ہمارے زمانے میں اساتذہ ہمیں آؤٹ آف سیلبس کتا بوں اور ادبی ناولوں کے بارے میں بتاتے تھے اور سکولوں، کالجوں اور گھروں میں لائبریری ہوا کرتی تھی۔ کوئز پروگراموں میں سوال مرتب کئے جاتے تھے کہ فلاں مجموعہ شاعری کا مصنف کون ہے یا فلاں مصنف کی کتاب کا نام کیا۔ اب رزق ہوا ہو چکا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہماری اخلاقی روایات دم توڑ گئی ہیں معاشرے میں مروت تحمل صبر و برداشت اور حسن کلام یا شائستہ گفتگو کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے زمانے میں کسی کی علمی یا شخصی استعداد کا اندازہ لگانے کیلئے دیکھا جاتا تھا کہ یہ کسی قسم کی کتابیں پڑھنے میں دلچسپی رکھتا ہے مگر اب ہماری زندگی سے کتاب کا خانہ خالی ہو چکا ہے اور اس کی جگہ اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ نے لے لی ہے۔
کیا زمانے تھے جب حُسن کے معیارات اور عشق کے معاملات کے بیان کے لئے بھی شاعر کتاب کے استعارے کا سہارا لیتے تھے۔کبھی خوبصورت چہرے کو کتابی چہرہ کہہ دیا تو کبھی محبوب کو غزل کی کتاب سے تشبیہ دے دی ۔
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کیا پر لطف بات تھی کہ کتابوں سے لگاؤ محض شاعر کا ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ محبوب بھی کتب بینی کا شوق رکھتا تھا۔ شاعر نے محبوب کی نگاہوں کو کتاب پر مرکوز دیکھا تو جھٹ سے کہہ دیا :
کبھی آنکھیں کتاب میں گم ہیں
کبھی گم ہے کتاب آنکھوں میں
محبوب کے رخ کو بھی کتاب کی طرح پڑھا جاتا تھا :
رہتا تھا سامنے تیرا چہرہ کھلا ہوا
پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں…
قبلہ نظیر اکبر آبادی نے تو دل کو بھی کتاب ہی سے تشبیہ دے ڈالی:
سب کتابوں کے کھل گئے معنی
جب سے دیکھی نظیر دل کی کتاب
کئی قصے کتابوں سے شروع ہوتے تھے اور کئی کہانیاں کتابوں میں دفن ہو جاتی تھیں۔ کبھی کتابیں خوشبو میں بسے خطوط کی ترسیل کا ذریعہ ہوتی تھیں۔۔۔ تو کبھی بڑی محبت کے ساتھ کتابوں میں رکھے گئے پھولوں کی امین ہوتی تھیں۔۔۔ نجانے کتنے آنسو کتابوں کے پنے اپنے اندر جذب کر لیتے تھے۔۔۔خاموشی سے۔۔۔رازداری کے ساتھ۔۔۔ غرض کتاب محبت کی داستانوں کا ایک جزو لاینفک ہوتی تھی:
کبھی کتابوں میں پھول رکھنا کبھی درختوں پے نام لکھنا ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ نظر سے حرفِ سلام لکھنا
محبتیں تو محبتیں تھیں ۔۔۔۔ فرقتوں کا بیان بھی کتاب کے ذکر کے بغیر مکمل نہ ہوتا تھا:
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
کیا زمانے تھے !!
کتاب جب لوگوں کا رومانس ہوا کرتی تھی۔۔ تبھی تو ان لوگوں میں خلوص، محبت، احساس، روایات اور اقدار کا رواج تھا۔۔۔ وہ معاشرہ جیتے جاگتے انسانوں کا معاشرہ تھا اور اب۔۔۔
کتابوں سے دوری کی وجہ سے ہماری زندگی مشینی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ اب کتابیں محض الماری کی زینت بن کر رہ گئی ہے ۔گلزار صاحب نے کس خوبصورتی سے کتابوں کے اس دکھ کو ایک نظم میں بیان کرتے ہیں:
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں’ اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے
آج ضرورت ہے ان کتابوں کے دکھ کو سمجھنے کی ان سے دھول مٹی جھاڑ کر دوبارہ ان سے ہم کلام ہونے کی۔لوئر دیر میں 10 اور 11 جنوری کو "کتاب میلہ ” کے طور پر منایا گیا ۔اس کا مقصد کتابوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا ۔میلے میں لوگوں نے ایک دوسرے کو کتابوں کے تحفے بھی پیش کئے ۔
دس جنوری کو دیر کے تاریخ میں پہلی مرتبہ سٹریٹ بک فئیر 2024 کا اہتمام کیاگیا۔ ضلعی انتظامیہ دیر لوئرنے یوتھ ڈیپارٹمنٹ ، نیشنل بک فاونڈیشن اور ٹی۔ایم۔اے تیمرگرہ کے تعاون سے تیمرگرہ میں دو روزہ کتاب میلہ کا اہتمام کیا۔ ڈپٹی کمشنر دیر لوئرواصل خان نے اسسٹنٹ کمشنر تیمرگرہ ڈاکٹر ندا اقبال کے ہمراہ تیمرگرہ میں دو روزہ کتاب میلے کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ کتب میلے کا مقصد نوجوانوں کی توجہ کتب بینی کی طرف مبذول کروانا ہیں کیونکہ ہمیشہ تعلیم یافتہ قومیں ہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں اور اس کتب میلے کا مقصد نوجوانوں میں کتابوں سے محبت اور اہمیت اجاگر کرنا ہے۔ڈی سی نے بہترین اور کامیاب کتاب میلے کے انعقاد پر یوتھ آفیسر شہزاد طارق، ٹی۔ایم۔او تیمرگرہ قادر نصیراور نیشنل بک فانڈیشن کو سراہا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ سماجی کارکن اکبر خان لالہ نے ڈپٹی کمشنر کو دیرلوئر کی تاریخ اوریہاں پر مختلف تہذیبوں کے حوالے سے بریفینگ دی۔ بعد ازاں ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنر تیمرگرہ کے ہمراہ کتب میلے میں کثیر الموضاعاتی کتابوں کے سٹالز کا معائنہ کیا۔ ڈپٹی کمشنر نے تیمرگرہ پبلک لائیبریری کی طرف سے لگائی گئے کتب سٹالز کا معائنہ کیا اوراعزازی ممبرشپ فارم کو پر کیا۔اس موقع پر اسسٹنٹ ڈائریکٹراحتشام الحق نے ڈپٹی کمشنر کو تیمرگرہ پبلک لائیربری کے حوالے سے بریفینگ دی۔ ڈپٹی کمشنر نے کتب میلے میں 20 مستحق طلباء کو فری کتابیں بھی گفٹ کی۔ دو روزہ کتب میلے میں چار ہزار سے زائد کتابوں کے ساٹلز لگائے گئے ہیں۔ کتب میلہ میں ڈپٹی کمشنر کے ہدایات پر ڈیجیٹل سکرین بھی لگایا گیا ہے تاکہ طلبا و طالبات کو ای۔لائیبریوں ، اۤرٹیفیشل انٹیلیجنس کے بارے میں آگاہی دی جاسکیں۔ میلے میں پرنسپلز، اساتذہ کرام ، ماہر تعلیم ، طلبا و طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور ضلعی انتظامیہ کے اس کاوش کو سراہا۔ کتب میلے میں ہر قسم کے کتابیں 50 فیصد رعایتیں ریٹ پر دستیباب ہیں۔ دو گھنٹوں میں ریکارڈ کتب سیل ہوئے۔ کتب میلہ کل شام 8 بجے تک جاری رہے گا۔ میلے میں اۤل سپورٹس ایسوسی ایشن کے صدرملک شاہ نسیم خان ، صدر بازار ٹریڈ یونین انورالدین اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔
اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی پس ماندگی کی بنیادی وجہ بھی کتب بینی کا فقدان ہے۔
عزیزان من کتب بینی کے بے انتہا فائدے ہیں، محققین کا کہنا ہے کہ کتب بینی کی عادت ذہنی صحت کے لئے ایک اکسیر کا درجہ رکھتی ہے، اگر روزانہ بیس منٹ کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو ڈیمنشیا اور الزائمر جیسی بیماریو ں کا خطرہ 2.5 فی صد تک کم ہو جاتا ہے۔ اس لئے ذہن کو صحت مند رکھنے کے لئے اچھی کتابوں کا مطالعہ اسی طرح ضروری ہے جیسے جسمانی فٹنس کو برقرار رکھنے کے لئے ورزش ضروری ہے۔ اس سے نا صرف انسان کا شعور بیدار ہوتا ہے بلکہ سوچ کا زاویہ بھی وسیع ہوتا جاتا ہے۔
انگریز شاعر شیلے کہتا ہے کہ مطالعہ ذہن کو جلا دینے اور اس کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ ابراہیم لنکن کا کہنا ہے کہ کتابوں کا مطالعہ ذہن کو روشنی عطا کرتا ہے۔ والٹیئر کا قول ہے کہ وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں۔ کتابوں کی سیاحت میں انسان شاعروں، ادیبوں، مفکروں اور داناؤں سے ہم کلام ہوتا ہے، جب کہ عملی زندگی میں احمقوں اور بے وقوفوں سے واسطہ پڑتا ہے۔
ان تمام اقوال سے کتب بینی کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کتب بینی کے یوں تو بے شمار فائدے ہیں، تاہم چند چیدہ چیدہ فوائد یہ ہیں۔ کتب بینی کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ کتب بینی سے معلومات اور ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے، ذہن اس تمام معلومات کی پروسیسنگ کے بعد جو مواد تخلیق کرتا ہے اسے علم کہا جاتا ہے، لہذا جس قدر کتابوں کا مطالعہ کیا جائے گا اس قدر علم زیادہ اور پختہ ہو گا۔ اس طرح کتابیں انسان کے علم میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
کتب بینی کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر تحقیقی اور تجزیاتی سوچ پروان چڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان دینی، قومی اور بین الاقوامی امور پر ایک واضح سوچ رکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ ایک کثیر المطالعہ شخص کو کسی جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے متاثر نہیں کیا جاسکتا ہے، ایسا شخص بڑی تیزی سے کسی بھی معاملے کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ مطالعے سے فصاحت و بلاغت کی صفت پیدا ہوتی ہے اس طرح انسان میں لکھنے کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے اور پہلے سے لکھنے والے کی تحریر میں مزید شگفتگی اور پختگی پیدا ہو جاتی ہے۔
چوتھا فائدہ یہ ہے کہ انسان کو میٹھی نیند آتی ہے، ایک تحقیق کے مطابق اگر سونے سے قبل کم از کم بیس منٹ کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو بڑی گہری اور میٹھی نیند آتی ہے۔ پانچواں فائدہ یہ ہے کہ مطالعہ سوچ بچار اور قوت ارتکاز کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، جس سے انسان کی یاد داشت بہتر ہوتی ہے۔ مزید برآں کتب بینی جذباتی ذہانت میں بھی اضافہ کا باعث ہے، جس کے نتیجے میں انسان اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا سیکھ لیتا ہے اور انسان میں بردباری کی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔ چھٹا فائدہ یہ کہ مطالعے کے دوران میں انسان علما اور حکما سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اس سے اپنی ذات پر اعتماد پیدا ہو جاتا ہے۔ عالی دماغ دانشوروں، مفکروں اور مایہ ناز شخصیات کی برابری کرنے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔
ساتواں فائدہ یہ ہے کہ مطالعہ ذہنی اور اخلاقی تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے ہم جو کچھ پڑھتے رہتے ہیں وہ ہمارے دل و دماغ اور جسم و جان میں رچ بس جاتا ہے اور پھر ہمارے عمل کی صورت میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔
آٹھواں فائدہ یہ ہے کہ وسیع مطالعہ انسان کو تنگ نظری اور تعصب کے بھنور سے نکال کر وسعت قلب عطا کرتا ہے۔ اس سے انسان میں رواداری اور گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
نواں فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خداداد صلاحیتوں کو پہچاننے کے قابل ہو جاتا ہے، یہ ایک ایسا فائدہ ہے جو ہر قسم کے فائدے سے برتر ہے کیوں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو افراد اپنی خداداد صلاحیتوں کو پالیتے ہیں اور ان کے مطابق ہی مشاغل کو اختیار کر لیتے ہیں، ایسے انسان ہی آسمان کے درخشندوہ ستاروں کا روپ دھارتے ہیں۔ دسواں فائدہ یہ ہے کہ کتب بینی کے نتیجے میں انسان اپنے مقصد حیات کو متعین کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جو ایک بامقصد زندگی گزارنے کے لئے از حد ضروری ہے۔
مطالعے کے دوران میں کسی ایسے فرد کی زندگی کے بارے میں پڑھنا جو اپنی زندگی میں آنے والی رکاوٹوں کو عبور کر کے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کر لیتا ہے، درحقیقت آپ کے اندر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے عزم کو بڑھا دیتا ہے جس سے انسان کو یک گونا تحریک ملتی ہے اور اپنے مقصد میں کامیابی کے حصول کے لئے جستجو میں لگ جاتا ہے۔
کتاب کی اہمیت ہماری زندگیوں میں بہت زیادہ ہے۔ یہ کتاب ہی ہے جو ہمیں برے بھلے میں تفریق کرنا سکھاتی ہے۔اسی نے ہمیں شعور بخشا۔ آگہی دی۔ یہ تو بات ہوئی اس کتاب کی جو ہم نصاب میں پڑھتے ہیں۔ جو ہمیں ہمارے مضمون کے مطابق آگہی اور علم دیتی ہے۔ لیکن میرا آج کا موضوع نصابی کتب نہیں بلکہ غیر نصابی کتاب ہیں جس کا ہماری تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ یعنی وہ کتابیں جو ہم نصاب سے ہٹ کر پڑھتے ہیں۔
کتاب پڑھنے سے انسان کو علم و آگہی تو ملتی ہی ہے بلکہ ایک سکون اور طمانیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ۔ کتاب انسانی زندگی پر مختلف اثرات ڈالتی ہے۔ ہر انسان دوسرے سے مختلف سوچتا ہے اور اس کی نفسیات بھی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کتاب کا اثر بھی ہر شخص پر دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اگر کسی ایک کتاب کو پڑھ کر ایک تاثر لیتے ہیں تو کچھ لوگ بالکل اس کے متضاد سوچتے ہیں لیکن کتاب کا کام ہر شخص کی زندگی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لانا ہوتا ہے۔ جیسے ہم کسی بڑے فلسفی کی کتاب پڑھ کر تھوڑا مختلف انداز میں سوچنے لگتے ہیں۔زندگی کو ایک دوسرے رخ سے دیکھتے ہیں ۔اسی طرح دین و مذہب کی کتاب سے ہم نصیحت لیتے ہیں۔اپنی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاعری کی کتب سے ہم محظوظ ہوتے ہیں۔بعض اوقات یوں محسوس کرتے ہیں کہ شاعر نے ہمارے دل کی بات کہہ دی۔ تاریخ کی کتاب ہمیں ماضی کی سیر کراتی ہے ، اس سے ہمیں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کا علم ہوتا ہے۔ ادب کی کتاب سے ہم ادبی فن پاروں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ان میں زندگی کے تمام موضوعات پر لکھا جا چکا ہے۔ کسی ملک کا ادب اس ملک کی صحیح نمائندگی کرتا ہے۔ مختلف ممالک کا ادب پڑھنے سے ہم ان کی تہذیب و تمدن سے واقف ہوتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی کتابوں سے ہم نئے دور کے بارے میں صحیح طور پر سمجھنے اور جاننے کے قابل ہوتے ہیں۔سائنسی ایجادات کے مثبت اور منفی عوامل کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ فکشن پڑھنے سے ہمیں لوگوں کے ذہنی و فکری نکتہ نظر سے واقفیت ملتی ہے۔ وہ کیا اور کیسی سوچ رکھتے ہیں اور اس سے ہمیں زمانے کیساتھ چلنے کی تحریک ملتی ہے کیونکہ فکشن حقائق کی ہی ایک ترمیم شدہ تصویر ہوتی ہے۔ نفسیات پہ لکھی گئی کتاب پڑھنے سے ہمیں اپنی اور دوسروں کی نفسیات کو بہتر طور پر جاننے کاموقع ملتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہدوسرے شخص کی عادت و خصلت کے مطابق اس سے رویہ روا رکھیں۔ آپ بیتیاں ، سفر نامے، سوانح عمریاں یہ ہمارے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ دلچسپی کا باعث بھی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ جغرافیہ، جنگی کتب ، مختلف مہارتوں پر لکھی گئی کتب ،سیاست پر، کھیلوں پر ، پودوں پر سبزیوں پھلوں ، فصلوں کی نشو نما پر ، طب پر ، فنون لطیفہ پر غرض ہر طرح کی کتب موجود ہیں۔جن کو پڑھ کر ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ ان سے متعلقہ مہارتوں یا متعلقہ مضامین کے بارے میں مفصل آگاہی ملتی ہے۔
کتاب سے ہم صرف آگہی ہی نہیں حاصل کرتے بلکہ اچھی کتب پڑھنے سے انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے۔ تسکین قلب حاصل ہوتی ہے۔ کتاب پڑھنے کے عادی لوگ جب تک مطالعہ نہ کریں ان کو چین نہیں ملتا۔ ان کو کتاب پڑھنے سے سرور حاصل ہوتا ہے۔ وہ اپنے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال و عادات میں بھی بہتری لاتے ہیں ۔ ایک اچھی کتاب انسان میں مزید اچھے اوصاف پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ اس کی عادات و اطوار میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔اس کی سوچوں اور خیالات کو وسعت ملتی ہے۔ اس کا انداز ایک عام آدمی سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اچھی کتاب ایک انسان کی کردارسازی میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔
بدقسمتی سے اب ہمارے ہاں اس عادت کا خاتمہ ہوتا نظر آرہا ہے۔کتب بینی بالکل ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔افسوس مجھے آج کے دور کے لوگوں پر ہوتا ہے کہ کتاب کا استعمال انتہائی کم ہو کر رہ گیا ہے ۔ کتاب کی جگہ نئی ٹیکنالوجی نے لے لی ہے ۔ آج کے بچے کے ہاتھ میں جدید ٹیکنالوجی ہے جس کی وجہ سے وہ کتاب اور کتب بینی سے دور ہو گیا ہے۔ بہت سے لوگ کتاب کو کمپیوٹر پر، ٹیبلٹیا موبائل پر ڈاؤن لوڈ کر لیتے ہیں یاآجکل کتاب(ebook) کو سننے کا بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ لیکن جو مزا کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے میں آتا ہے وہ اس ٹیکنالوجی میں کہاں۔ میں نے کوشش کی تھی کہ میں انٹر نیٹ سے کتاب پڑھ سکوں لیکن مجھے ناکامی ہوئی کیونکہ کتاب سے محبت کرنے والا کسی اور طریقے یا ذریعے سے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔بہرحال کسی بھی طریقے سے پڑھیں کتاب لیکن پڑھیں ضرور۔۔
کبھی کتابوں میں پھول رکھنا کبھی درختوں پہ نام لکھنا
ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ نظر سے حرف سلام لکھنا
وہ چاند چہرے وہ بہکی باتیں سلگتے دن تھے مہکتی راتیں
وہ چھوٹے چھوٹے سے کاغذوں پر محبتوں کے پیام لکھنا
گلاب چہروں سے دل لگانا وہ چپکے چپکے نظر ملانا
وہ آرزوؤں کے خواب بننا وہ قصۂ ناتمام لکھنا
مرے نگر کی حسیں فضاؤ کہیں جو ان کا نشان پاؤ
تو پوچھنا یہ کہاں بسے وہ کہاں ہے ان کا قیام لکھنا
کھلی فضاؤں میں سانس لینا عبث ہے اب تو گھٹن ہے ایسی
کہ چاروں جانب شجر کھڑے ہیں صلیب صورت تمام لکھنا
گئی رتوں میں حسنؔ ہمارا بس ایک ہی تو یہ مشغلہ تھا
کسی کے چہرے کو صبح کہنا کسی کی زلفوں کو شام لکھنا………