
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے حال ہی میں مبارک احمد ثانی نامی شخص کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-C اور دفعہ 298-B کو حذف کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے ملزم مذکور کی ایک دیگر درخواست منظور کرتے ہوئے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس فیصلے میں ایسا کیا ہے؟ کہ سوشل میڈیا پر ججز کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ جس پر سپریم کورٹ کو پہلے ویب سائٹ پر اردو میں فیصلہ جاری کرنا پڑا اور پھر وضاحتی پریس ریلیز جاری کرنا پڑا۔ اصل واقعات کچھ یوں ہیں کہ 6 دسمبر 2022 کو ضلع چنیوٹ کے ایک تھانے میں مبارک احمد ثانی کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی اور ایف آئی آر میں الزام یہ ہے کہ وہ ایک ممنوعہ کتاب تفسیر صغیر کو پھیلانے میں ملوث ہے۔ سال 2019 میں جس پر پنجاب ہولی قرآن (اشاعت و طباعت) ایکٹ 2011 کے سیکشن 7 اور 9 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-C اور 298-B کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔ دفعہ7 پنجاب ہولی قرآن (اشاعت و طباعت) ایکٹ 2011 کے مطابق قرآن پاک کی اس طرح تشریح کرنا جرم ہے جو مسلمانوں کے بنیادی عقائد سے متصادم ہو اور آرٹیکل 9 کے مطابق اسے شائع کرنے والے ناشر کی کم از کم سزا تین سال اور زیادہ سے زیادہ سزا سات سال تک ہے. جبکہ ملوث شخص کی سزا عمر قید ہے۔ اس طرح پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-C کے مطابق توہین رسالت پر سزائے موت اور عمر قید ہے جبکہ دفعہ 298-B کے تحت قادیانی اور لاہوری گروپ کا شعار اسلام کا نام اپنے لیے استعمال کرنا جرم ہے۔ اب جب مبارک احمد ثانی کو گرفتار کیا گیا تو اس نے پہلے سیشن کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی اور بعد میں اپنی رہائی کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ تاہم ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور پاکستان پینل کوڈ کی عائد شدہ دفعات کو خذف کرنے کے کے لیے ایک اور درخواست بھی دائر کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے دونوں درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کی اور اپنے فیصلے میں ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کے درج دفعات کو اس بنیاد پر حزف کرنے کا حکم دیا کہ ایف آئی آر کی متن سے دفعات میں ذکر شدہ جرم نہیں بنتا۔ جب جرم ہی نہیں بنتا تو دفعہ کیسے لگائی جا سکتی ہے؟ عدالت نے ایف آئی آر عدالت میں ہی پڑھ کر سنائی اور وکیل سائل سے پڑھ کر سنائی۔ اس طرح پنجاب ہولی قرآن (پبلی کیشن اینڈ پرنٹنگ) ایکٹ 2011 کے سیکشن 7 کے مطابق جس جرم کے خلاف اس کیس کا ملزم پر الزام ہے اس میں ترمیم کر کے 2021 میں ایزادگی کر دیا گیا اور جب ملزم کتاب کی پھیلاو میں مصروف عمل تھا تو مذکورہ جرم اس وقت اس قانون کی مطابق جرم نہ تھا ۔تاہم ایف آئی آر میں کتاب تفسیر صغیر کی اشاعت سال 2019 کی ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق جب کوئی فعل جرم نہیں تھا، اگر بعد میں قانون میں ترمیم کرکے اسے جرم قرار دیا گیا تو یہ جرم پہلے کے ایکٹ پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے آئین پاکستان کا آرٹیکل 12(1) بھی واضح ہے۔ عدالت نے مقدمے میں مذکورہ کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملزم کو مذکورہ کمزوریوں کا فائدہ دیتے ہوئے تعزیرات پاکستان کی دفعات کو ان کے خلاف خزف کرنے کے احکامات جاری کیے اور ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کا بھی حکم دیا۔ تاہم عدالت نے قرآن پاک کی آیات کا حوالہ دے کر عام لوگوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کر دیے ہیں۔ اس طرح عدالت نے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 کا حوالہ دیا جس میں ہر کسی کو اپنے مذہب کی تبلیغ اور اس پر عمل کرنے کی اجازت ہے۔ تاہم عدالت نے مذکورہ آرٹیکل کے الفاظ کا تذکرہ نہیں کیا جو کہ درحقیقت مطلق اجازت نہیں ہے بلکہ یہ دراصل قانون، اخلاقیات اور امن عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اجازت دینے سے متعلق ہے۔ اس کا منظم طریقے سے تجزیہ نہیں کیا گیا ہے جس سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان کے آئین کے مطابق قادیانی یا لاہوری گروہ کو اقلیت کے لیے محصوص کردہ حقوق کا فائدہ حاصل نہیں ہیں کیونکہ وہ خود کو اقلیت نہیں سمجھتے۔ عدالت نے ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے سے رائے دی ہے کہ عدالتوں نے قانون کی بجائے جذبات کو ترجیح دی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے کو 2011 کے اصل قانون کے حوالہ دیا ہے تاہم مذکورہ دفعہ جو کہ اصل میں 2011 کے ایکٹ میں تھی وہ لکھی نہیں گئی اور نہ ہی وہ بعد میں ترمیم شدہ الفاظ لکھی گئی ہے جو عام آدمی کے لیے سمجھنامشکل ہے۔ اس لیے اس فیصلے پر سوشل میڈیا پر لوگوں کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ حالانکہ یہ فوجداری قانون کا بنیادی اصول ہے کہ ملزم کوئی بھی ہو، شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دیا جائے گا اور یہ شریعت کا ایک اہم اصول بھی ہے۔ ملزمان کے مذہب سے قطع نظر، انہیں ہمیشہ شک کا فائدہ دیا جائے گا۔ جب مقدمہ میں قانون سقم موجود تھا تو کیا یہ کافی نہ تھا کہ سپریم کورٹ نے اس سے ہٹ کر فیصلہ میں اپنے جزبات کا اظہار بھی کیا ہے ۔ جس کیوجہ سے اب سپریم کورٹ کو پریس ریلیز بھی جاری کرنا پڑا اور اردو میں بھی فیصلہ کا تحریر جاری کرنا پڑھا۔ میرے حیال میں عدالت کو اسطرح مقدموں وضاھت کیساتھ ہر پہلو پر روشنی ڈلنا چاہیے ورنہ اس قسم شکوک اور شبہات جنم لینگے۔ ایک عام ادمی کو بھی عدالت کے فیصلوں پر تبصرہ کرتے وقت احتیاط سے کام لینے چاہیے۔ عدالتوں کے فیصلے قانون کے مطابق ہوتے ہیں جوکہ ایک عام ادمی کے لیے سمجھنے میں دشواری ہوتا ہے ۔
حبیب الر حیم ایڈوکیٹ