
صبح سے موسم ابر آلود تھا۔آسماں پر ہر طرف بادل چھائے ہوئے تھے۔ پھر کچھ دیر میں ہلکی ہلکی پھوار ہونے لگی تو میرے دل کا موسم بہت عجیب ہوگیا،سوچا ہر کام جلدی جلدی ختم کروں،کچھ کرنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔
پھر اچانک ہی دفتر پر جانے کا ارادہ کیا۔سوچا کہ شاید دل کی اداسی اس طرح کچھ کم ہو جائے ۔ گاڑی نکال لی اور دفتر کی طرف گاڑی کا رخ کیا۔مگر تھوڑی دیر چلنے کے بعد گاڑی نے آگے جانے سے منع کر دیا اور ایک دم رک گئی،جب چیک کیا تو بیڑی جل چکی تھی۔خیر مستری کو فون کرکے گاڑی اسکے حوالے کی اور خود ہی پیدل چلنے لگا۔ موسم تو آج بہت خوبصورت تھا، لیکن اگر دل اداس ہو تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔
یہ منظر بھی دیکھو کتنا دلچسپ ہے آسمان اور دھرتی کا۔جب صبح کے وقت دونوں ملتے ہیں تو کیا ہی دلفریب منظر ہوتا ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے رنگین بادلوں کے بستر پر استراحت کرنے کے لئے حجلہ مغرب میں پنہاں ہوتا ہے تو کیا ہی احساسات ہوتے ہیں انسان کے اس وقت۔میں پیدل کچے راستے پر چل رہا تھا اور خنک ہوا کی ہلکی ہلکی جھونکیں مجھے مسلسل تھپکیاں دے دے کر تنگ کر رہی تھے۔مگر آہ! وہ میرے اندر کے حالات سے کیا خبر رکھتے تھے؟
دور سے دیکھنے پر آسمان اور زمین ایک دکھائی دے رہے تھے، مگر یہ آنکھ کا دھوکا تھا۔آسمان اور زمین کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔کاش کے ایسا ہو پاتا۔بلکل ایسے جیسے امیر اور غریب،دوست اور دشمن،اندھیرا اور اجالا بہرحال سامنے رونق دیکھ کر اداسی میں کچھ کمی ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ کچھ دیر بعد دل کا موسم بھی باہر کے موسم کی طرح خوبصورت ہوتا چلا گیا۔زرد سورج اپنی اپنی خوبصورت شعاعوں کو کائنات پر پھیلا کر بےقرار اور ٹھنڈ بھرے دلوں کو سکون اور قرار بخش رہا تھا۔مگر آہ! میرے لئے یہ زرد سورج کی ضیا پاشی بھی سامان مسرت نہیں ہوتی۔ہوا کی لہریں، ٹھنڈی ہوائیں ، اور ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی پھوار نے میرے دل کی اداسی کو کم کرنے کا کام کیا۔اور خنک ہواؤں نے میرے جسم کے رگوں میں خون کو ٹھنڈ سے منجمد کر دیا تھا۔
ایک تو سردی کا موسم تھا اور اوپر سے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی۔تھوڑی دیر موسم کا مزہ لیا، اور سورج بادلوں میں کیا چھپا ہی تھا کہ ٹھنڈ بڑھنے لگی تو واپسی کے لئے دوسرے راستے کا رخ کیا ۔آتے وقت جو اداسی میرے ساتھ تھی وہ یہیں چھوڑ دی ۔
اس راستے پر چلتے چلتے مجھے دس منٹ ہو چکے کہ سامنے تالاب نظر آ گیا۔تالاب کے کنارے پر گلاب کے پودے بہت ہی حسین اور دلکش لگ رہے تھے ایک دم گلاب کی خوشبوؤں نے مجھے گھیر لیا ایسے لگا جیسے کسی نے گلاب کا عطر آس پاس انڈیل دیا ہو،بہت ہی مدھوش کن خوشبو رچی بسی ہوئی تھی،تالاب میں بطخیں مزے سے پر ہلا ہلا کے تیر رہی تھی۔
تھوڑی دور چلنے کے بعد راستے پر مجھے حجام دریا جاوید کی دوکان نظر آئی جس میں میرا دوست یاور علی حجامت بنوا رہا تھا اور مجھے ہاتھ ہلا ہلا کے سلام کر رہا تھا،میں جواب میں مسکرا کے گزر گیا۔
یہاں سے بےشمار لوگ گزرتے ہیں۔
اس سڑک پر گزرتے ہوئے میں نے وقت کی مدھم سرگوشیاں سنی ہیں،اور آنے والے وقت کی گھن گرج بھی۔
اچانک زور سے بادلوں کی گرجنے کی آواز آئی۔ارے یہ کیا میں نے گھن گرج کا نام لیا اور بادلوں کو غصہ آ گیا۔
خیر چلتے چلتے سامنے ایک چائے کا پرانا ہوٹل نظر آگیا اور وہاں رک گیا۔
چائے والے چچا نے ہوٹل میں ایک پرانا ریڈیو لگا رکھا تھا۔
آج 1948 کی ایک خوش گوار اور ٹھنڈی صبح ہے یہ ریڈیو پاکستان ہے آئیے وزیراعظم لیاقت علی خان کی تقریر سنتے ہیں۔
میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
کیا پینا پسند کرینگے بابو جی؟ چائے والے چچا نے پوچھا؟
جی بس ایک کپ چائے ۔۔
بہت اچھا یہ کہہ کر چائے والے چچا اندر چلے گئے اور چولہے پر پتیلی چڑھا دی اور میرے لئے چائے بنانے لگے۔
بابو جی آج تو موسم بھی خراب ہے۔کیا کوئی ضروری کام ہے جو گھر سے نکلے ہو؟
میں نے جیب سے سیگرٹ نکالنا چاہا تو جیب میں کچھ نا ملا البتہ مجھے ریل کی بک کی گئی رسید مل گئی۔
مجھے یاد آیا کہ آج مجھے دفتر نہیں جانا بلکہ میں نے تو بڑے افسر سے آج دفتر کی چھٹی لی تھی۔
کیا ہوا بابو جی کچھ یاد آیا کیا؟
جی نہیں نہیں بس ایسے ہی۔۔۔میں نے بات ٹال دی۔
میں نے کل کی گاڑی سے سفر پے جانا تھا۔
مگر سوچا آج ہی چلا جاوں۔۔
یہ لیں بابو جی گرم گرم چائے نوش فرمائیں۔۔
میں مزے سے چائے پینے لگا اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی تقریر بھی سننے لگا۔
بہت ہی خوبصورت منظر تھا بارش کی پھوار موتیوں کی طرح گِر رہی تھی صبح مکمل جوبن پر تھی ٹھنڈ میں اضافہ ہو رہا تھا چاۓ کا مزا دوبالا تھا اردگرد لوگوں اور خیالات کا یجوم تواتر سے بڑھ رہا تھا ♥
جیب خالی ہے مگر دل میں بڑی وسعت ہے۔چائے والے چچا کا ظرف بہت ہی بلند تھا۔انکا اخلاق مجھے متاثر کر گیا۔
میں رومانوی داستانوں میں سانس لینے کا خواہشمند لڑکا ہوں، جیسے چاند،ستارے، تنہاٸ،چاۓ،بارش،پہاڑوں،شاعری اور مدھم دُھن پر جھومنے سے بے حد محبت ہے۔میں ٹھنڈک بھرے موسم سے چس اٹھا رہا تھا۔
او بابو صاحب! بارش شروع ہونے والی ہے اور آپکے پاس چھتری بھی نہیں ہے۔
اگر آپ اجازت دے تو میں آپکو اپنی چھتری دے سکتا ہوں؟
نہیں چچا اسکی ضرورت نہیں میں چلا جاونگا۔
ضد نا کریں بابو صاحب! موسم واقعی خراب ہے احتیاط کرنے میں دانش مندی ہے۔
اچھا ٹھیک ہے چھتری دے دو مگر ۔۔۔
میں نے جیب سے دس روپے نکال کے چائے والے کے ہاتھ میں روپے رکھ دئے۔
وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے دعائیں دینے لگے۔
کیونکہ آج کل کے زمانے میں تو پورے بیس روپے میں پوری شادی ہو جاتی ہیں۔
بہت شکریہ بابو صاحب! لگتا ہے آپ سرکاری اپسر
(افسر) ہے۔
جی چچا میں نوروز پور کے ڈاکخانے میں ڈیوٹی پر ہوں۔آج مجھے ضروری دفتری کام سے دوسرے گاوں جانا ہے۔
اچھا اب میں چلتا ہوں چائے کا بہت شکریہ چچا۔
سلامت رہیں۔۔۔خداحافظ۔۔
بارش تیز ہو چکی تھی اور میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔
بالآخر مجھے املتاس کا پرانا بوڑھا درخت نظر آگیا اور اسکے نیچے کھڑا ہو گیا۔
بارش اب بھی اچھی خاصی تیز برس رہی تھی۔
اس سے پہلے کہ میرے سارے کپڑے گیلے ہو جاتے میں نے دایاں راستہ اختیار کیا اور ایک بڑی پرانی عمارت کے سامنے گزر گیا۔
بالآخر میں ریلوے سٹیشن پر پہنچ گیا۔
چلتے چلتے میں ایک آدمی سے ٹھکراتے ٹھکراتے بچا۔
کیا ہوا بابو جی! تیز گام کیطرح آپ اڑ رہے ہیں؟
کیا تیز گام کی گاڑی آئی؟ میں نے پوچھا۔
کب کی۔۔۔تیز گام تو دس منٹ پہلے چلی گئی۔۔
اب شالیمار ایکسپریس پانچ منٹ میں پہنچنے والی ہے آپ اس میں سوار ہو سکتے ہیں۔
اچھا بہت شکریہ بھائی۔۔
میں وہاں ریلوے سٹیشن پر انتظار کرنے لگا۔
سامنے ایک لڑکا ہاتھ میں بریف کیس تھامے آ رہا تھا اسکی پتلون اور قمیض بری طرح بھیگی ہوئی تھی اور اسکے کالے بوٹوں پر خوب کیچڑ لگی ہوئی ہوئی تھی۔بارش میں وہ مکمل بھیگ چکا تھا اور تیز تیز سٹیشن کی جانب رواں دواں تھا غالبا وہ بھی ریل گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔
بارش تھی کہ مسلسل برس رہی تھی اور رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
یہ تو اچھا ہوا کہ چائے والے ہوٹل سے مجھے چھتری مل گئی ورنہ میرا حال بھی بہت برا ہوتا اس وقت۔
آسمان پر گھنگور گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔زوروں کی بارش گھن گرج کیساتھ ہو رہی تھی،ہر دم،ہر سمت،ہر جگہ پانی ہی پانی کھڑا تھا۔
وہ لڑکا میرے قریب آ گیا اور بولا۔۔
آج تو بارش ہے نا بھیا۔۔۔کہاں جارہے ہو؟
میں نے مسکرا کے جواب دیا جب گھر سے نکلا تھا تب موسم صاف تھا۔۔
جواب میں وہ بھی مسکرا دیا۔
آج پلیٹ فارم پر کچھ خاص رش نہیں تھا۔
ابھی پانچ منٹ گزرے ہی تھے کہ دور سے شالیمار ایکسپریس آتی دیکھائی دی۔
ریل گاڑی سیٹی بجاتے ہوئے سٹیشن پر رک گئی اور مسافر اترتے گئے۔
وہ لڑکا دوڑتے ہوئے ریل میں سوار ہو گیا،ایسے لگتا تھا جیسے اسے جانے کی بڑی جلدی تھی۔
میں بھی جلدی جلدی ریل گاڑی کے قریب جانے لگا۔
اور چڑھ گیا۔۔
ریل میں چڑھنے کے بعد دھکم پھیل شروع ہو گئی اور ڈبے میں بہت زیادہ رش تھا۔
ایک آدمی سے ٹھکراتے ٹھکراتے بچ گیا۔
ارے بھائی اندھے ہو کیا ؟ نظر نہیں آتا سامنے میں کھڑا ہوں اور تم مجھے دھکا دے رہے ہو؟
میں نے کہا معذرت مجھے علم نہیں تھا۔
اس ڈبے کی تمام سیٹیں فل تھی اور سب پر مسافر بیٹھے ہوئے تھے۔
دوسرے ڈبے میں داخل ہوا تو وہاں بھی اچھا خاصا رش تھا۔
اچانک میرے سامنے چھ سال کا بچہ آ گیا وہ پریشان تھا اور ادھر ادھر کچھ تلاش کر رہا تھا۔
میں نے پوچھا ننھے میاں کیا ہوا؟
کہا چچا جان میں اپنے ٹومی کو ڈھونڈ رہا ہوں؟
ٹومی۔۔۔کون ٹومی ننھے میاں؟
چچا جان وہی ٹومی جو باوں باوں کرتا ہے۔
مجھے اس چھوٹے بچے کا چچا جان بولنا بہت اچھا لگا۔میں نے جواب دیا ننھے میاں کیا آپکو نہیں پتہ کہ یہ ریل گاڑی ہے،اور یہاں کتے اور جانوروں کا لانا منع ہے؟ یعنی نہیں لانا چاہیئے۔
مگر چچا جان میرا ٹومی چابی سے چلتا ہے نہ۔
اچھا اچھا میں سمجھ گیا یعنی کھلونا۔میں نے ادھر،ادھر نظر دوڑائی تو مجھے ایک سیٹ کے نیچے وہ کھلونا نظر آ گیا۔
میں نے ٹومی اٹھایا اور اس بچے کو دے دیا۔
شکریہ چچا جان اور وہ بچہ مسکراتے چلا گیا اپنی ماں کے پاس جو برقعے میں ملبوس یہ ساری روداد دیکھ رہی تھی۔
خیر اس ڈبے میں بھی کافی رش تھا اور کوئی سیٹ خالی نا تھی۔میں بمشکل اس ڈبے سے گزر گیا۔
تیسرے ڈبے میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ سامنے ایک لڑکی ہاتھ پھیلا کے بڑی بےتکلفی سے میرے سامنے کھڑی ہوگئی۔
اس خاتون نے کافی بھڑکیلا اور چمکدار پیلے رنگ کی جارجٹ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔جس کے کناروں پر بنارسی سنہری گوٹا لگا ہوا تھا۔اور سرخ رنگ کا تنگ اور چست بلاوز زیب تن کیا ہوا تھا۔
اس لباس میں وہ غضب ڈھا رہی تھی اور اسکا شباب مکمل نظر اور واضح دیکھ رہا تھا۔لبوں پر سرخی لگائی ہوئی تھی اور دونوں ہاتھوں میں پھولوں کے تازہ گجرے پہنے ہوئے تھے۔جس سے چنبیلی کی محسورکن خوشبو آرہی تھی۔جو مجھے بہت ہی بھلی لگی۔ہاتھوں میں کانچ کے سرخ سرخ بیس بیس چوڑیوں پہنی ہوئی تھی۔اور ہاتھ کی انگلیوں میں مخروطی پتھلی انگلیوں میں ہیروں کیطرح چمک دار موتیوں والی انگوٹھیاں پہنی ہوئی تھی۔ناخنوں پر سرخ نیل پالش لگائی ہوئی تھی۔اور اسکے جسم سے تیز فرفیوم کی خوشبو آ رہی تھی۔
مجھے دیکھتی ہی بولی ارے بابو صاحب! اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ تھوڑا ٹہر جائیں نہ۔
دیکھئے نہ باہر تیز بارش بھی ہے۔موقع بھی ہے،دستور بھی ہے،رسم دنیا بھی ہے، آنکھ مارتی ہوئی بولی۔۔
مجھے تو یہ سن کر ہی شرم آگئی۔
ارے بابو صاحب! کیوں تکلف کرتے ہیں،آئیے نہ۔
توبہ استغفار۔۔۔ اجی خاتون تھوڑا شرم ہی کر لیں۔
آپ تو ناحق پریشان ہوتے ہیں بابو صاحب! بھلا ہمارا شرم سے کیا واسطہ؟
کیا تم مجھے نہیں جانتے؟
نہیں جناب میں نہیں جانتا آپکو۔
میں ہو ستارہ بائی۔۔۔ستارہ بائی۔۔
جس کا انگ انگ بجلی سے بھرا ہوا ہے۔ٹیکسالی گیٹ والی۔۔۔
ساڑھی کا پلو ہٹا کر بےتکلفی سے انگڑائی لیتی ہوئی۔۔
توبہ توبہ میری تو نظریں ہی جھک گئی اسکی یہ بیباکی دیکھ کر۔
چلئے مجھے راستہ دیجئے مجھے آگے جانا ہے۔
چلو چنبیلی بائی اپنے ساتھ دوسری لڑکی کو مخاطب کرتے ہوئے۔
یہ بابو صاحب! بہت ہی بدذوق اور کنجوس ہے۔
چلو اپنے لئے کوئی نیا گاہک ڈھونڈھنے ہیں۔
کم از کم آج کا خرچہ تو نکل آئیے۔
چوتھے ڈبے میں داخل ہونے پر میں نے ادھر،ادھر دیکھا تو وہاں خلاف توقع بالکل بھی رش نہیں تھا۔
بلکہ پورا ڈبہ ہی خالی تھا۔
مجھے بالآخر کھڑکی کے قریب اپنی سیٹ مل گئی۔
میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔چھتری ایک طرف رکھ دی۔اور آرام سے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
تھوڑا سکون کا سانس لیا۔کہ شکر ہے یہاں زیادہ رش نہیں۔
کھڑکی سے باہر دیکھا تو زوروں کی بارش ہو رہی تھی۔اور بارش کے قطرے کھڑکی سے میرے چہرے پر پڑ گئے۔
میں نے جیب سے رومال نکالا اور اپنا چہرہ پونچھنے لگا،کس اسی دوران ریل گاڑی کی سیٹی بجنی لگی اور ریل آہستہ آہستہ منزل کی جانب روانہ ہوئی۔میری جان میں جان آئی۔
کھڑکی سے باہر دیکھا تو بارش کے قطروں نے موتیوں کا فرش سبزے پر بچھا دیا تھا۔بارش کے قطرے سبزے پر چمکدار موتیوں کیطرح جھلمل جھلمل کرکے چمک رہے تھے۔گلوں کی رعنائی،غنچوں کا خاموش حسن میرے دل میں سرور کفیت پیدا کر رہا تھا۔کیا ہی دلکش نظارہ ہے واہ! اس نظارے میں مست،فکر سے کوسوں دور،زیر لب محمد رفیع کا گانا گنگناتا ہوا،آج موسم بڑا بےایمان ہے،بڑا بےایمان ہے،سیر میں مصروف تھا۔کہ مجھے احساس ہوا کہ ریل گاڑی نے کافی سپیڈ بڑھا دی۔سفر آرام سے جاری تھا۔
گاڑی لاڑکانوں جنکشن پے رکی اور ریل گاڑی کا عملہ نیچے اتر گیا مشینری وغیرہ چیک کرنے،کئی مسافر بھی اتر گئے قریبی دوکانوں سے چیزیں خریدنے مسافر مسلسل گاڑی سے اتر رہے تھے اور پلیٹ فارم پر جمع ہو رہے تھے کچھ تو چائے کا آرڈر دے رہے تھے،اور کچھ اپنے اہل خانہ کے لئے کھانے پینے کا سامان خرید رہے تھے۔
چائے والا۔۔۔چائے والا۔۔بابو جی! آپ چائے پینا پسند کرینگے؟
ایک پیالی چائے کتنے کی ہے؟
بابو جی! ایک پیسے کی۔۔
اچھا لاو دو ویسے بھی آج سخت سردی ہے۔
چائے پینے کے بعد میرے جسم میں گرمی آ گئی اور میں تازہ دم ہو گیا۔
اچانک ریل گاڑی نے سیٹی بجائی اور روانہ ہونے کا گرین سگنل دے دیا۔
تمام مسافر اور میں جلدی جلدی واپس ریل میں سوار ہو گئے۔
خیر سے ریل گاڑی پھر سے روانہ ہوئی اور چک چک کرتے ہوئے کیا ہی ٹھنڈ بھرا ماحول تھا۔
میں کھڑکی کیساتھ اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک بزرگ جس نے کالا لمبا اوورکوٹ پہنا ہوا تھا ہاتھ میں چھتری تھامی ہوئی تھی،اور سر پے جناح کیپ پہنی ہوئی تھی۔
وہ آدمی بڑے حلیم و دانا اور بردوبار نظر آرہے تھے غالبا اسی سال کے قریب لگتے تھے۔اس کے چہرے سے بزرگی اور تجربے کی روشنی جھلکتی تھی۔
آتے ہی سلام کیا۔۔اسلام علیکم برخوردار کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟
جی جی بڑے محترم ضرور اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے بھلا۔۔
اسکے چہرے کیطرح اس کی آواز بھی کافی اعتماد اور یقین کے روشنی سے منور تھی۔
برخوردار اس طوفانی موسم میں اگر ضروری کام نا ہوتا تو ہر گز سفر نا کرتا،مگر کیا کروں مجبوری تھی۔ورنہ باہر بارش نے تباہی مچا دی ہے۔
جی جی بڑے محترم آپ ٹھیک کہتے ہیں۔
آپ کہاں جا رہے ہیں؟
برخوردار میں پنڈ فتح پور جا رہا ہوں۔
کیا ہوا بیٹے؟ فتح پور کا نام سن کر تمھاری آنکھیں چمک اٹھی؟ خیریت۔۔۔
نہیں بڑے محترم بس ایسے ہی کچھ یاد آ گیا تھا۔
آہاہاہاہاہا آہاہاہاہاہا، آج کل کے نوجوان بھی عجیب ہی ہے کچھ سمجھ نہیں آتا بس ہر کام میں جلدی۔۔۔
ہم لوگ گفتگو میں مصروف تھے کہ اچانک ایک بوڑھی عورت اپنی نواسی کو شبینہ مخاطب کرکے پکار رہی تھی۔۔ارے شبینہ جلدی کرو ٹکٹ چیکر والے کے پاس لے چلو ابھی تو یہی تھا ورنہ میرے بقایا روپے ہڑپ لے گا کم بخت۔۔۔
یہ سن کر وہ بزرگ مسکرائے۔۔۔اور پھر ایک سرد آہ بھری کہنے لگے ایک شبینہ نامی لڑکی ہمارے گاوں فتح پور میں بھی رہتی تھی۔۔
کیا کہا بڑے محترم شبینہ کیسی ہے کہاں ہے؟
کیا تم شبینہ کو جانتے ہو برخوردار؟
نہیں تو۔۔۔نہیں بس مجھے ایسے ہی تجسس ہوا۔
اچھا اچھا میں سمجھا کہ تمھاری جاننے والی تھی۔
اب بڑے محترم کیا جانے؟
کہ میں بھی فتح پور کے چودھری کا بڑا بیٹا چودھری کرامت علی خان ہوں جو پانچ سال ہوئے گاؤں موڑ کے نہیں گیا۔
بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ کسی نے مجھے قسم دی تھی۔آہ میری شبینہ کاش تمھاری محبت میرے آڑے نا آتی تو آج فتح پور میں ہم ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہوتے مگر افسوس تمھاری ضد۔۔۔
میں ماضی کے جھروکوں میں کھو سا گیا تھا۔
ہاں تو برخوردار میں کہہ رہا تھا کہ فتح پور میں بھی ایک شبینہ رہتی تھی۔افسوس کیا بتاوں؟
کیوں بڑے محترم کیا ہوا بتائیے مجھے۔۔
بس کیا بتاوں بیٹا سنا ہے کہ شبینہ نے گاوں کے بڑے چودھری شوکت علی خان کے بڑے بیٹے کو عشق کے جال میں پھنسایا تھا۔
جبکہ شبینہ کرامت کا نام لے لے کر اپنے گھر والوں کو بےوقوف بناتی رہی کہ مجھے چودھری کرامت بیانے آئے گا۔
غریب لوگ تھے وہ خوش تھے اور گاوں والے بھی خوش تھے۔
مگر افسوس ایک مہینہ پہلے اپنے عاشق بلال کمہار کے ساتھ بھاگ گئی۔سنا ہے کراچی گئے ہیں۔شبینہ کے والدین گاوں میں کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔آہ! افسوس
یہ سن کر میرے دماغ میں دھماکے سے ہونے لگے مجھے ایسا لگا جیسے میرا دل پھٹ جائے گا۔
میری شبینہ کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی؟
نہیں یہ جھوٹ ہے،یہ جھوٹ ہے۔
وہ وعدے،وہ پیار کی قسمیں وہ سب کہاں گیا شبینہ تم نے ہی مجھے پانچ سال پہلے شہر بھیجا تھا۔میں یہ سب نہیں مان سکتا۔
کیا ہوا بیٹے تم مجھے بہت پریشان لگ رہے ہو؟
نہیں نہیں۔۔خود کو سنبھالتے ہوئے میں نے کہا۔
بڑے محترم مگر شبینہ تو چودھری کرامت علی خان سے پیار کرتی تھی نا؟
ارے برخوردار کیا پیار کرتی تھی؟ اس نے تو کرامت علی کو چارہ کے طور پر استعمال کیا۔
اور بھاگنے کے منصوبے بلال کمہار کیساتھ بناتی تھی۔اصل میں اسکا بلال کیساتھ رشتہ تھا۔
بچارہ چودھری کرامت علی پتہ نہیں آج کل کہاں ہوگا۔سنا ہے کسی شہر میں نوکری کرتا ہے۔
استعمال ہو گیا۔آہ آج کل کے نوجوان کتنے جلد باز ہیں۔بس خیالی دنیاوی زندگی میں مست رہتے ہیں۔
اور میں یہ سب سن کر صدمے میں تھا۔
میرا دل کرچی کرچی تھا۔
اور درد بھرا سفر جاری تھا۔
ریل گاڑی نے ایک بار پھر سے سیٹی بجائی۔۔
ختم شد