
~ایم اے چلائے ٹانگا، بے اے اٹھائے بوری
ہم بھی وکیل بن کر بیچیں گے بھنڈی توری۔
وہ مسلمان جو پورے برصغیر پر آٹھ صدیوں تک بڑی آن بان سے حکومت کرتے رہے تھے۔ تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں وہ بہت آگے تھے مگر بدقسمتی سے مغلیہ دور حکومت کے آخری سو سال میں مسلمان ہر طرح سے سیاسی، علمی، مذہبی، اخلاقی اور ثقافتی زوال کا شکار ہوچکے۔ جس کی بنیادی وجہ اسلام کے شائستہ تعلیمات سے روگردانی،بود وباش میں تعیش پسندی اور اپنے اسلاف کے نقشِ قدم سے سر منہ انحراف کرنا تھی۔ پھر انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں اس مسلمان غلام قوم کو پستیوں کی انتہا تک پہنچادیا۔ لارڈ میکالے نے مسلمانوں کے لیے ایسا نظام تعلیم مرتب کیا جو صرف فرماں بردار غلام ہی پیدا کرسکتا ہے۔
جس پر علامہ اقبال نے کچھ یوں تبصرہ فرمایا ہے۔
~اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروّت کے خلاف
کسی بھی قوم کو زوال سے نکالنے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے جدید علوم اور اچھی خاصی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن صد افسوس کہ آزادی کے بعد بھی ہم لارڈ میکالے کے دئیے ہوئے رسوائے زمانہ نظام تعلیم پر کار بند رہے۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والا چین تو سپر پاور بننے کے قریب ہے، دوسری جنگ عظیم میں ایٹم بموں سے تباہ کیا جانے والا جاپان بھی اپنے نظام تعلیم کی وجہ سے مصنوعات میں پوری دنیا سے آگے نکل گیا جبکہ ہم نظام تعلیم کی خرابی کی وجہ سے بے راہ روی اور بے مقصدیت کا شکار رہے۔ ہم ناچ گانے اور فیشن کو ترقی سمجھتے رہے اگر چہ یہ چیزیں بھی ثقافت کا حصہ ہے لیکن کامیابی کا راز سمجھنا حماقت ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں تعلیم کے دو بڑے دھارے ہیں۔ ایک کو دنیاوی یا عصری تعلیم کہا جاتا ہے جبکہ دوسرے کو دینی تعلیم سے موسوم کیا جاتا ہے۔ دنیوی تعلیم کے لیے تو شہر شہر بڑے بڑے کالج اور یونیورسٹیاں موجود ہیں لیکن پچیس کروڑ مسلمانوں کے اس ملک میں آج بھی اگرکوئی دینی تعلیم حاصل کرنا چاہے تو اسے گھر گھر دستک دے کر خیرات مانگنی پڑے گی۔ آخر دینی تعلیم سے ریاست کا یہ سوتیلی ماں والا سلوک کب ختم ہوگا؟ البتہ اس مد میں صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کا جامع مسجدوں کے آئمہ کرام کے لیے کچھ نہ کچھ ماہانہ وظیفہ مقرر کرنا قابل تعریف ہے۔ دینی تعلیم سے قصداً حکومت کی غفلت کا تو ذکر ہی چھوڑئیے، دنیوی تعلیم جس کے ہمارے ملک میں بہت سے شعبے قائم ہیں۔ وہاں بھی قدم قدم پر غفلت چھائی ہوئی ہے ہمارے ہاں پرائمری، مڈل اور ہائی سکول کے ساتھ ساتھ کالج اور یونیورسٹیاں موجود ہیں جہاں ادبی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنسی اور فنی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جبک اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں عملی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بے روزگاری عام ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کے نظام تعلیم سے ضرور وابستہ ہوتا ہے
ہمارے ہاں میٹرک اور انٹر کلاسوں کے امتحانات سیکنڈری بورڈز لیا کرتے ہیں۔ اس سے اوپر کی تعلیم کے امتحانات یونیورسٹی کے سپرد ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ تحریری، کچھ عملی جبکہ بعض تقریری (زبانی پوچھ گچھ کی صورت میں) سے ہوتے ہیں۔ امتحانات کا یہ نظام بھی ترقی یافتہ ممالک کے نظام سے بہت پیچھے ہے۔
یہاں ایک طالب علم کے سال بھر کی محنت کا جائزہ صرف ان تین گھنٹوں کی کارکردگی سے لگایا جاتا ہےجب وہ امتحان ہال میں پرچہ دے رہا ہوتا ہے۔ اگر بدقسمتی سے اس دن اسکے گھر میں کوئی بڑا سانحہ پیش آگیا تو وہ طالب علم تو مارا گیا اس کی سال بھرمحنت پر تو پانی پھر گیا۔ پھر بہت بڑے نصاب میں میں سے صرف چھ سات سوالات کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے اگر ایک طالب علم کو پورا کورس تو یاد ہو، مگر صرف یہ چھ سات سوالات کے جوابات نہ آتے ہوں تواس کی محنت خاک میں مل گئ۔ اس کے مقابلے میں ایک طالب علم کو پورا کورس یاد نہیں مگر صرف یہ چھ سات سوالات کے جوابات آتے ہیں سو اس کے تو مزے ہوگئے۔ ان خرابیوں نے نقل کو جنم دیا۔ اب نقل کو تو ہمارے ہاں اتنی ترویج ملی ہے کہ بورڈ کا عملہ بھی بھاری رشوت لے کر امتحانی ہال فروخت کردیتا ہے۔ آگے ممتحن دونوں ہاتھوں سے طلباء کو لوٹتے ہیں۔ ادھر امتحان کا اعلان ہوتا ہے ادھر پاکٹ اور مائیکرو سائز کے کتابچے بازاروں میں کھلے عام فروخت کیے جاتے ہیں۔ جب امتحانی ہال فروخت ہورہی ہے بازار میں کھلے عام مائکرو پاکٹ کی خرید وفروخت ہورہی ہے ہال میں پرچہ دینے سے پہلے واٹس ایپ گروپوں میں پرچے گردش کررہے ہوتے ہیں۔ جب اہلیت و قابلیت کا معیار چھ سات سوالات کے جوابات لکھنا ہو اور اس کے لیے بھی امتحانی نظم کاپورا ڈھانچہ نقل پر استوار ہوتو ملک و قوم خاک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے سائنس، ٹیکنالوجی، سیاست اور معاشیاتِ میں مقابلہ کرے گی؟