جاسوسی افسانہ۔ نشی ڈاگ آخری حصہ

ازقلم: نورین خان

Spread the love

سر ہمیں اطلاع ملی ہے کہ شانستان دیش کے خطرناک جاسوس مراد پورب داس کے قید میں ہے۔
ہاہاہاہا۔۔۔ ویل ڈن یہ سن کر چیف رائے سنہا کا دل باغ باغ ہو گیا۔
میں اس مراد کا دل نکال لونگا اسکی ہڈیاں تھوڑونگا اس بار شانستان کو وہ نقصان پہنچاونگا کہ اسکا ازالہ ہی نہیں کر سکے گے۔۔
میں ابھی نکلتا ہوں پورب داس کی جانب کہ بڑے آقا کو بھینٹ پہنچا دی جائے۔
سنو شنکر تم ہری چند سے کہنا کہ دو تین بیمار لوگوں کا بدبست کریں کہ اسکی بلی شیطان کو دے جائے۔تاکہ ہمارا کام جلدی ہو۔اوور۔
ندیم آور شاھد گوروں کے روپ میں کرناٹکا کے سڑکوں پے گھوم پھیر رہے تھے۔کرناٹک میں کافی ویران علاقے اور جنگلات تھے۔
سر اپنا پاسپورٹ دیکھائے اور کاغذات بھی۔
جی بالکل ٹھیک ہے آپ جا سکتے ہیں مسٹر جیمز فرام نصارکہ یعنی امریکہ نزاد۔
مہدی آسانی سے جیمز کے حلیے میں ممبئی ائرپورٹ سے نکلے اور کرناٹک بیجاپور کے سفر پر روانہ ہوئے کیونکہ اسکو پیر بابا نے بتایا تھا کہ مراد کو جنگلات کے قریب ویران علاقے میں قید رکھا گیا ہے۔بیجا پور کرناٹک کے اہم تاریخی مقامات میں سے ایک ہے جسے ’جنوبی ہندوستان کا آگرہ‘بھی کہا جاتا ہے۔ بیجاپور قدیم ماضی کی تعمیراتی شان و شوکت کی چند بہترین مثالوں کاگھر ہے جو گول گنبد اور تاریخی ورثےکی دیگر یادگاروں کے لیے مشہور ہے۔اس لئے پہلے سے ہی ندیم اور شاھد کو کرناٹکا پہنچا دیا تھا۔تاکہ کافرستان کے را کے کارندے ان پر شک نا کر سکے۔اور ہندوستانی ویسے بھی گوروں کی کچھ زیادہ ہی خوشامد کرتے ہیں۔
مہدی بیجاپور کے علاقوں میں گھوم رہا تھا کہ اچانک اسکو ندیم اور شاھد بھی نظر آگئے مگر مہدی ان کے قریب نہیں گیا۔
مہدی نے ایک قریبی دوکاندار سے پوچھا لالا جی! سنا ہے یہاں ایک پرانا مندر ہے ویران علاقے میں مجھے بتائے تاکہ وہاں درشن کے لئے جاوں۔
ارے صاحب وہ مندر تو بیجاپور کے باہر ہے ویرانے سے بھی آگے میں تو کہتا ہوں مت جائیں یہاں ایک قلعہ ہے وہاں اپنی پھوٹو گراپی کریں تو سب کشل منگل ہو گا۔
مہدی کو جو معلومات لینی تھی وہ جان چکا تھا اس نے اشارے سے ندیم کو آگاہ کیا کہ میرے پیچھے آو۔
دو تین کلومیٹر سفر کے بعد مہدی بیجاپور سے باہر نکل گئے اور ویرانے میں پہنچ گئے یہاں دور دور تک انسان تو کیا جانوروں کی آبادی بھی نا تھی۔ایک پرسرار ماحول تھا ہر طرف ایک عجیب ہی وحشت بھری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ندیم آور شاھد بھی مہدی سے آملے سر یہاں تو کوئی نہیں دیکھ رہا ہم مراد صاحب کو کیسے ڈھونڈے گے؟
چلتے چلتے تینوں تھک گئے اور درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے کہ اچانک سرخ غرارے میں ایک حسین دوشیزہ مہدی کو نظر آئی اور وہ اشارے سے مہدی کو اپنے پاس بلا رہی تھی۔
مہدی جیسے ہی اس لڑکی کے قریب جانے لگا اچانک اسے جھٹکا لگا کہ مت جاو،مت جاو بابا جی کا دیا ہوا دم کا پانی ایک گھونٹ پی لو پہلے۔جیسے ہی اس پانی کے قطرے حلق سے اترے مہدی کا دماغ جیسے ایک سحر سے آزاد ہوا اور وہ لڑکی کے قریب جانے لگا۔
مگر وہ لڑکی چیخنے لگی خبردار نزدیک مت آنا ورنہ میں جل جاوگی۔مہدی نے اس لڑکی کو قریب سے دیکھا تو اسکے پاوں الٹے تھے۔مہدی نے فورا آیت الکرسی پڑھنی شروع کی۔اسی کے ساتھ ہی وہ لڑکی جل گئی اور اسکی راکھ زمین پر گر گئی۔
ارے مہدی سر ہمیں یقین نہیں آرہا کہ یہ ایک چڑیل تھی۔یعنی یہ ایک شیطانی علاقہ ہے اور یہاں کے کالے جادو کیوجہ سے اسلامی ممالک کے سائنس دان مارے گئے۔مہدی نے تلاش جاری رکھی بالآخر اسے ایک پرانی قلعہ نما عمارت نظر آئی تینوں اسکے اندر گئے۔مگر وہاں کچھ نا تھا سو سال سے پرانے درخت اور ملبہ بکھرا ہوا تھا۔
مہدی کو عمارت کے اندر ایک تہخانہ نظر آیا اس نے ندیم اور شاھد کو باہر رکنے کا کہا کہ اگر میں دو گھنٹے میں باہر نا آوں تو میرے پیچھے پھر آجانا اپنے جیب سے ریوالور اور خفیہ چاقو نکال لو با وقت ضرورت کام آئینگے۔
مہدی نیچے آرام سے اترنے لگا کافی سیڑھیاں تھی اور نیچے مکمل اندھیرا تھا وہ صرف اللہ پر توکل کرکے آگے جارہا تھا۔نیچے پہنچ کر اسے جگہ جگہ دیواروں پر انسانی خون کے دھبے نظر آئے اور ہر دیوار کے اوپر انسانی ہڈیاں لٹک رہی تھی۔اتنی سخت بدبو تھی کہ مہدی کو ماسک لگانا پڑا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اس غلیظ بدبو سے اسکا دماغ پھٹ جائے گا۔کئی راہداریوں سے گزر کر اسے ایک ہال نظر آیا وہاں مکمل اندھیرا تھا۔
مہدی ہال کے اندر داخل ہوا تو اسے ایک آدھا ننگا بدشکل آدمی نظر آیا جو آنکھیں بند کئے آگ کے گرد کچھ منتر کا جاپ کر رہا تھا۔اچانک اسکی آنکھیں خوف سے کھل گئی یہاں روحانی اور نورانی طاقت مجھے کیسے محسوس ہو رہی ہے؟ یہ نہیں ہو سکتا شیطان بڑے آقا کے اڈے پر نوکرانی طاقت کیسے آ سکتی ہے؟
مہدی اسکے سامنے جاتا ہے اور دلیری سے کہتا ہے کہ او خبیث کے بچے بتا مراد کہا ہے ورنہ اس پستول سے تیرا بیھجا اڑا دونگا۔
یہ سن کر پورب داس قہقہے لگانے لگا کہ بالک تو بڑا ہی ناسمجھ ہے تو بڑے آقا کے پجاری کو اس پستول سے نہیں مار سکتا۔
مہدی پورب داس پر گولی چلاتا ہے مگر وہ نشانے پر نہیں لگتی۔گولی ہوا میں مہلک رہتی ہے اور پھر نیچے گر جاتی ہے۔ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ان دیکھی طاقت اسے روک رہی ہو۔
مہدی پورب داس کے قریب جانے لگتا ہے تو پورب داس ایک منتر پھونکتا ہے اچانک اسکے سامنے بدشکل اور بڑے بالوں اور ناخنوں والی غلیظ چڑیلیں نمودار ہو جاتی ہے وہ چڑیلیں جیسے مہدی پر حملہ کرتی ہے اچانک چیخ مار کر راکھ بن کے زمین پے گر جاتی ہے۔یہ دیکھ کر پورب داس غصے میں آ جاتا ہے اور بولتا ہے بالک تمھارے اردگرد طاقتور نورانی حصار ہے میں اس طاقت کو تھوڑ نہیں پا رہا بتاو یہ کونسی طاقت ہے۔
بدبخت یہ میرے اللہ پاک کی طاقت ہے اسکے کلام پاک کی طاقت ہے اور میرے رب کے باڈی گارڈ خدائی فوجداروں کی طاقت ہے تم جیسے شیطان فرشتوں کے نور کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ہم اپنے اللہ پر توکل کرکے جہاد کرتے ہیں اور تم جیسے بدبخت شیطان کہ کالی طاقتوں سے مدد لیتے ہو جو خود ٹھکرایا ہوا برباد ہے۔
یہ سن کر پورب داس اس ہال سے بھاگ جاتا ہے کہ کچھ سدباب کر سکے اس مسلے کا اور وہاں سے نکل گیا۔مہدی اسکے پیچھے گیا مگر پورب داس کا نام و نشان تک نا تھا گویا زمین سے نگل گئی ہو۔
مہدی تہہ خانے کی تلاشی لینے لگتا ہے کہ کہی اسے مراد کا پتہ چل جائے اور باہر ندیم اور شاھد منتظر پہرے پر موجود تھے۔
دوسرے ہال میں مراد مزے سے کھانا کھا لیتا ہے اور پاس کھڑے شنکر سے مخاطب ہو کے کہتا ہے کہ،
او چنکر۔۔۔ یہ اپنے برتن لے جاو کیا ہندوستان والے ایسا بدمزہ کھانا بناتے ہیں؟
چنکر نہیں میرا نام شنکر ہے بدتمیز انسان۔۔۔یہ چنکر کیا ہوتا ہے؟
چنکر او میرا مطلب ہے شنکر ۔۔ چنکر کا مطلب ہے چھوٹے چھوٹے پتھر اب سمجھے یہ کیا کھلایا ہے مجھے ایک تو آلو میں نمک کم تھا اور دوسرا بھنڈی میں اتنی مرچیں ڈالی تھی کہ حد نہیں۔۔
شنکر برتن اٹھانے جیسے ہی مراد کے سامنے جھکا مراد نے اسکی گردن فورا اپنے ٹانگوں میں دبوچ لی۔اور ایک جھٹکے سے گردن کی ہڈی تھوڑ دی۔شنکر کا جسم ٹھنڈا ہوکے ساکت پڑ گیا۔مراد نے اسکی تلاشی لی اور بالآخر اسے چابی مل گئی۔مراد نے جلدی جلدی اپنی ہتکھڑی کھول دی اور ہاتھ پیچھے کرکے ویسے ہی بیٹھ گیا جیسے پہلے تھا۔
پورب داس ہال میں آتا ہے اور مراد کو کہتا ہے۔کہ تمھارا دوسرا ساتھی ان دیکھی روشنی کے حصار میں آیا ہے۔لیکن خیر وہ یہاں سے زندہ بچ کے نہیں جائے گا۔مراد یہ سن کر خوش ہوا کہ چلو اب وہ اکیلا نہیں مہدی بھی پہنچ گیا ہے۔
مراد پورب داس سے،ارے او شیطان کی ناخلف اولاد ہم سے کیا چاہتے ہوں؟ مجھے کیوں قید کر رکھا ہے؟ کیا میں نے تیری محبوبہ بھگائی ہے؟
چپ گستاخ ایک تو تم بہت بولتے ہو پتہ نہیں تمھیں شانستان دیش کے سیکرٹ انٹیلی جنس ایجنسی نے کیسے کام پے رکھا ہے؟ تم تو جوکر ہو۔
گستاخ میں نہیں بلکہ تم ہو اور مجھے سیکرٹ سروس کیوں کام پے رکھی گی؟ مجھے کسی کی ضرورت نہیں میں اپنی مرضی کا مالک ہوں سمجھے شیطان کی عاق شدہ اولاد۔
میں نے کہا چپ،چپ مجھے کیوں غصہ دلا رہے ہو۔
اچانک ہال میں اورنج کلر کے کپڑوں میں ملبوس ایک آدمی آیا اسکے ہاتھ میں فون تھا۔
کیا بات ہے دیوداس کیوں آئے ہو؟
مہاراج آپکا فون ہے ہندوستان کافرستان سیکرٹ سروس کے چیف رائے سنہا لائن پر ہے۔
جے ہو،جے ہو، کیا بات پے رائے سنہا جی؟
کیا تم نے پڑوسی ملک شانستان کے ایٹمی سائنسدان کو ہلاک کیا؟
نہیں سنہا جی ابھی جاپ کرونگا اور نشی ڈاگ کو بلاونگا تو کام ہو جائے گا۔ہاں ایک بات اور یہ مراد جو ہے یہ تو عجیب ہی پاگل اور مسخرہ ٹائپ بندہ ہے۔تمھیں یقین ہے کہ وہی جاسوس ہے۔
پورب داس۔۔۔تم نہیں جانتے یہ مراد پوری دنیا میں خطرناک جاسوس مانا جاتا ہے۔اس کی نظر جس پر پڑ جائے پھر وہ نرگ پہنچے ہی پہنچے۔یہ پڑوسی نمبرون والے بڑے ہی خبیث اور چھلاوے ہے یہ کسی کو نظر نہیں آتے نا قابو آتے ہیں تم اسکے احمکانانہ طرز عمل سے دھوکا نا کھاو یہ تمھیں بھی بیچ کھائے گا اور پتہ بھی نہیں چلے گا۔میں سالوں سے اس نمبرون کے کارندوں کے ہاتھوں مغلوب ہوا ہوں اور یہ مراد اس بار جہنم رسید ضرور ہوگا میں بس آرہا ہوں تم اپنے کالے جادو سے کام لو اور جلدی جلدی ختم کرو۔اوور۔
کس سے گفتگو کر رہے تھے پورب داس؟
تم سے مطلب احمق آدمی؟ میں جارہا ہوں منتروں کا جاپ کروں گا پھر نشی ڈاگ کو بلاونگا اور تمھارے دیش کا سائنسدان ختم۔۔
تو یہ کام تم لوگ شیطان کے چیلے نشی ڈاگ سے کیوں کروا رہے ہو؟ کیا تم لوگوں کی ملک کی ایجنسی ستو پی کے سو رہی ہے یا قطرینہ کیف کے مجرے دیکھ رہی ہے؟ شراب پی کے۔
چپ کرو احمق مورت نکلا جارہا ہے تمھارا کام تو رائے سنہا ہی تمام کرینگے۔یہ کہہ کر پورب داس چلا گیا۔
مہدی ڈھونڈھنے ڈھونڈھنے بالآخر مراد کے پاس آگیا او شکر ہے خدا کا تم زندہ ہو مراد۔میں تمھیں کھولتا ہوں۔اسکی ضرورت نہیں مہدی میرے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔
تم یہاں سامان لائے ہو ہاں میرے پاس دو تین بمب موجود ہیں۔ٹھیک ہے یہ بمب تم اس جگہ میں جگہ جگہ فٹ کر دو۔میں پورب داس کو دیکھنے جارہا ہوں کیونکہ وہ کالا عمل شروع کرنے والا ہے اور شیطان نشی ڈاگ ابھی یہاں آجائے گا۔
مراد ٹہرد باباجی نے بتایا ہے کہ جادوگر کی طاقتوں کا راز اسکے بالوں میں پوشیدہ ہے اور اسکے ایک بال کو بھی آگ لگ گئی تو وہ خودبخود اپنا شکار بن جائے گا اور شیطانی طاقت اس پر ٹوٹ پڑی گی۔رجعت ہو جائے گی۔شکریہ دوست تم بمب لگاو۔
مراد ادھر ادھر تلاش کرنے لگا بالآخر اسے ایک بند کمرہ نظر آیا۔مراد اسکے اندر گیا تو سامنے پورب داس ماتھے پے ہلدی کا لیپ کرکے ہاتھوں مالا پکڑے کالے جادو کے منتروں کا جاپ کر رہا تھا۔
ستیاناس،بیڑاغرق تم یہاں کیسے آئے مورکھ۔
میں تم سے ملنے آیا ہوں کہ تم یہ سب کیسے کرتے ہو صبر میں تمھاری خبر لیتا ہوں۔پورب داس جیسے مراد پر جپٹتا ہے مراد اسکے سر کے بال ہاتھ میں پکڑ کے اسے ایک زوردار لات رسید کرتا ہے۔پورب داس جیسے ہی زمین سے اٹھتا ہے مراد اسکے بال پاس آگ میں ڈال دیتا ہے اور آگ کے شعلے بلند ہو جاتے ہیں اور پورب داس تڑپنے لگتا ہے اسکے جسم پر سرخ سرخ چونٹیاں رینگتی لگتی ہے اسکا وجود جھٹکے لے رہا ہوتا ہے اور اچانک اسکا چہرہ کوئلے کیطرح سیاہ ہوجاتا ہے اور اسکا وجود ساکت پڑ جاتا ہے۔چلو شکر ہے اللہ کا اس جادوگر سے تو جان چوٹی۔جلدی کرو مراد بمب چند منٹوں میں پھٹنے والے ہیں۔سامنے کے راستے میں را کے ایجنٹ پہرے دار موجود ہیں ہمیں پیچھے کے کھڑکی سے نکلنا ہوگا جلدی کرو۔
ندیم اور شاھد نے ایک زوردار دھماکہ دیکھا آگ کے شعلے آسمان تک بلند ہو رہے تھے۔
شاھد پریشان ہوکے مہدی سر۔۔۔
سامنے مہدی اور کیپٹن مراد دھویں میں نمودار ہوئے یار ندیم،شاھد خوش ہو جاو مشن از کامیاب۔
چلو پھر سے نصارکہ کے گورے بن جاو اور بنگلہ دیش کیطرف روانہ ہوتے ہیں۔آخر سیر سپاٹے بھی کوئی چیز ہے۔
ختم شد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button