
حصہ اول
رات کے دو بجے ہے اور سلامت کے بچے میں تمھارے ساتھ نوکر کیطرح چل رہا ہوں۔۔
مراد صاحب یہ آپکی اپنی غلطی ہے بھلا رات کے بارہ بجے کوئی کافی پینے کی فرمائش کرتا ہے؟ اور گھر میں کافی موجود بھی نا ہو؟
تو کیا کرتا تمھیں اکیلے جانے دیتا میں شریفن بوا کو کیا جواب دیتا؟
صاحب طوفانی رات ہے تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔۔اور ہمارے پاس چھتری بھی نہیں اگر بارش شروع ہو گئی تو اس رات میں پھنس جائے گے۔
سلامت جب شکل اچھی نا ہو تو انسان کم از کم اچھی بات ضرور کر لیتا ہے۔
ویسے تم ٹھیک کہتے ہو ہوائیں بہت تیز ہو رہی ہے مجھے تو سامنے کچھ نظر نہیں آرہا۔۔
صاحب آنکھوں پے چشمہ پہن لیں دھول ہے اور ذرات ہیں ہوا میں۔۔
کم بخت وہ تو دھوپ کا چشمہ ہے لوگ مجھے پاگل سمجھے گے۔۔
صاحب آپ لوگوں کی نہیں میری پروا کریں بس۔۔
ہوائیں سائیں سائیں کرکے ایک عجیب طرح کی سنسنی خیز آوازیں پیدا کر رہی تھی۔۔کہ اچانک سڑک کے کنارے والا سائن بورڈ ہوا میں اڑتا ہوا سلامت کے قریب آگرا،مراد نے سلامت کو دھکا دے دیا اور بورڈ ایک طرف گر گیا۔۔
شکریہ صاحب ورنہ ابھی میرا قیمہ بن جاتا۔ تھینک یو۔۔۔مراد صاحب جی۔۔۔
ارے تھینک یو کے بچے ابھی بھی میگا مارٹ نہیں آیا اور آسمان پر بادل غضب ناک آوازوں سے گرجنے لگے۔۔عجیب پرسرار ماحول تھا۔
تیز بارش شروع ہو گئی دونوں کوئی جگہ تلاش کرنے لگے کہ پناہ لے سکیں۔۔۔
قریب ہی ایک ڈھابہ نظر آیا غالبا مالک دوکان سمیٹ رہا تھا۔۔کیا ہوا بابو صاحب؟
اتنی تیز بارش میں آپ لوگ؟
وہ ہم کاف کاف کافی۔۔۔چپ سلامت۔۔
کچھ نہیں بس گھر جارہے تھے کہ موسم خراب ہو گیا۔چچا کیا ہم یہاں کچھ دیر رک سکتے ہیں؟
کیوں نہیں بابو صاحب ضرور میں آپکے لئے چائے بھی بنا کے لاتا ہوں یہ میری چائے کی دوکان ہے روز رات دو بجے دوکان بند کرتا ہوں مگر آج طوفان کی وجہ سے دیر یو گئی۔۔
نہیں شکریہ چچا اسکی ضرورت نہیں ہم ہوٹل ہی جارہے ہیں وہی پی لینگے آپ اپنا کام کریں اور وقت پے گھر جائیں۔
بارش میں تھوڑی کمی آئی تو مراد اور سلامت پھر نکل پڑے اور دس منٹ بعد میگا مارٹ پہنچے وہاں سے کافی خریدی اور سلامت گھر کے لیے کچھ اور چیزیں خریدنے لگا۔۔
مراد ایک خالی میز کے سامنے بیٹھ گیا۔۔
صاحب آپ کیا لینگے؟ ویٹر پوچھنے لگا۔۔
ایک کپ گرم چائے اور سینڈوچ لے آو اور ایک تازہ جوس کا گلاس اندر جو آدمی شاپنگ کر رہا ہے انکو دے دینا۔۔
اوکے سر شکریہ آپ پانچ منٹ انتظار کریں۔
مراد ہوٹل کو غور سے دیکھنے لگا کہ اس طوفان میں بھی اندر مکمل سکون اور خاموشی تھی ہوٹل کی آرائش واقعی زبردست اور لاجواب تھی۔۔
سامنے کے میز پر دو نوجوان کچھ کھا رہے تھے اور گفتگو میں مصروف تھے۔
شکیل کتنے دن ہو گئے ہیں اسلم غائب ہے کیا تمھیں اسکی خیر خبر ہے؟
دوسرا لڑکا جواب دیتا ہے۔
نہیں یار مجھے بھی تشویش ہے کہ اسلم بغیر بتائیے کہاں جا سکتا ہے۔
مراد یہ باتیں سن رہا ہوتا ہے۔کہ اسی دوران سلامت ہاتھ میں شاپنگ کے بیگ پکڑے کہتا ہے چلئے صاحب کام ہو گیا گھر چلتے ہیں۔۔
یار سلامت پانچ منٹ تو رکو۔۔
نہیں صاحب گھر پے شریفن بوا اکیلی ہے کہی کوئی بھوت انہی ڈرا نا دیں۔۔
ہاہاہاہا۔۔مراد ہسنے لگا ویسے سلامت تم تو شریفن بوا کے پکے دشمن ہو آج یہ خیال کیسا؟
ارے صاحب وہ چلتا رہتا ہے یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔
کیا کہا ذاتی معاملہ ؟ چلو ٹھیک ہے۔۔
شریفن بوا پیالی میں دودھ پتی چائے ڈالتے ہوئے اور ساتھ گرم گرم کرارے دیسی گھی کے پراٹھے رکھے اور سٹابری کا مربہ جو گھر میں بنایا تھا وہ پیلٹ میں ڈالا۔۔ٹرے سجا کے مراد کے سامنے میز میں رکھ کے کہنی لگی۔۔۔
مراد بیٹے آنکھیں کھول لو ناشتہ آگیا ہے۔اور ویسے یہ تم اس چغد سلامت کیساتھ رات کے دو بجے کہاں گئے تھے؟
شریفن بوا کافی خریدنے۔۔
لاحولہ ولا قوۃ۔۔۔ یہ کام مجھے سلامت کا لگتا ہے کیونکہ وقت پے وہ سودا سلف نہیں لاتا تم نے اسے بہت سر پے چڑھا رکھا ہے۔
سر پے نہیں دل پے بھی چڑھا رکھا ہے شریفن بوا مگر تم تو مجھ سے جلتی ہو۔
چپ کم بخت جلتی ہے میری جوتی۔۔
دوسرے کمرے سے مسلسل فون کی گھنٹی آرہی تھی۔سلامت جا کر فون ریسور اٹھاتا ہے۔
ہیلو۔۔نواب سلامت علی خان ایم اے ان ہسٹری فرام یونیورسٹی آف پشاور از سپکینگ۔۔کس سے بات کرنی ہے۔۔
سلامت بیٹے مراد اگر ہے تو بات کراو۔۔۔نرمی سے بولتے ہوئے۔۔
او غوری صاحب آپ ہے سلامت انکی آواز فورا پہچان گئے۔۔جی موجود ہے ابھی بتاتا ہوں۔
صاحب۔۔۔ سر غوری فون پر منتظر ہے۔۔
کیپٹن مراد از سپکینگ۔۔۔جی فرمائیے
مراد بیٹے آپ سے ایک ضروری کام ہے جو فون پر نہیں بتائی جا سکتی شام پانچ بجے قریبی ریستوراں آجانا اور کیپٹن مہدی اور کیپٹن عباس کو بھی اطلاع کر دو۔۔اوور اینڈ آل۔۔
سلامت میرے کپڑے استری کرو شام پانچ بجے مجھے نکلنا ہے۔
کہاں جانا ہے صاحب؟ سلامت سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے۔
نہیں بتا سکتا ضروری کام ہے۔جو کہا ہے وہی کرو۔
ٹھیک ہے مت بتائیں بعد میں ساری سیکرٹ انٹیلی جنس ایجنسی میرے سر پر سوار ہوتی ہے کہ مراد صاحب کہاں گئے ہیں شامت تو میری ہی آتی ہے۔
ساڑھے چار بجے مراد روشن منزل فلیٹ نمبر چودہ پر دستک دیتا ہے۔۔
مہدی حسن معمول دروازہ کھولتا ہے۔
”میرے دوست مہدی اگر اس وقت ”آپ مصروف ہے تو میں آپکو اس وقت زحمت نہیں دونگا،مگر کیا کروں مجبوری ہے میرے دوست تمھیں یہ زحمت میں خوشی خوشی دونگا۔آپکو میرے ساتھ اس وقت باہر جانا ہوگا سر غوری نے بلایا ہے میں نے کیپٹن عباس کو بھی مطلع کر دیا ہے۔
اس میں زحمت کی کیا بات ہے بھلا،یہ تو بہت اچھا ہوگا کہ ہم کہیں کھلی فضا میں بیٹھ کے باتیں کریں۔”
”آئیے۔”مراد نے گاڑی کی جانب موڑتے ہوئے کہا۔میری گاڑی باہر موجود ہے اسی میں چلتے ہیں۔
ٹھیک پانچ بجے مراد اور مہدی ریستوران پہنچے وہاں پہلے سے سر غوری صاحب اور عباس موجود تھے۔انکی کرسیاں خالی پڑی تھی۔
اسلام علیکم سر کیسے ہے آپ مراد نے آتے ہی سلام کیا اور عباس سے ہاتھ ملایا۔۔
میں ٹھیک ہوں مراد تم بیٹھو تو سہی اور مہدی تم بھی میرے ساتھ بیٹھو۔
جی شکریہ سر بتائیے کیا مسئلہ ہے ہم حاضر ہیں
بات دراصل یہ ہے کہ ایک متعلقہ شہری، قیوم، مقامی پولیس اسٹیشن میں ایک پولیس افسر، انسپکٹر خان سے رابطہ کیا ہے۔جو کہ میرے پرانے دوست ریٹائرڈ ڈی آئی جی کا بیٹا ہے۔کہ شہر سے روزانہ جوان اور اچھے گھروں کے لڑکے غائب ہو رہے ہیں۔پولیس نے اپنے طور پر تو تفتیش کی ہے مگر کوئی سراغ نہیں ملا۔میرے دوست نے مجھے یہ ویڈیو بھیجی ہے تم تینوں بھی اسے دیکھ لو۔سر غوری اپنا لیپ ٹاپ آن کرتا ہے۔
قیوم: انسپکٹر خان، مجھے کچھ ضروری رپورٹ کرنی ہے۔ہمارے شہر سے کئی نوجوان لاپتہ ہو چکے ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ اس کی وجہ کیا ہے۔
انسپکٹر خان: آپ کو ایسا کیا لگتا ہے؟
قیوم: ان سب میں ایک چیز مشترک تھی – وہ غائب ہونے سے پہلے ایک پراسرار لڑکی کے ساتھ آن لائن چیٹ کر رہے تھے۔
انسپکٹر خان: (متجسس ہو کر) چلو اور کوئی خاص بات ہو تو بتاو۔
قیوم: (ایک فولڈر نکال کر) میں نے کچھ معلومات اکٹھی کی ہیں۔لڑکی کا نام "سارہ” ہے۔ وہ ایک طالب علم کا روپ دھار رہی ہے، سوشل میڈیا پر نوجوانوں سے دوستی کر رہی ہے، اور پھر… وہ غائب ہو جاتی ہیں۔
انسپکٹر خان: (تفصیل سے) میں دیکھ رہا ہوں۔اور آپ کو لگتا ہے کہ سارہ ان کی گمشدگی میں ملوث ہے؟
قیوم: (سر ہلا کر) ہاں، انسپکٹر۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایک جاسوس ہے، معلومات اکٹھی کر رہی ہے اور انہیں پھنسا رہی ہے۔
انسپکٹر خان: (سنجیدہ) ہم فوراً اس کا جائزہ لیں گے۔اس طرف ہماری توجہ دلانے کے لیے آپ کا شکریہ، قیوم۔
قیوم: (پریشان ہو کر) براہ کرم، انسپکٹر، ان کو ڈھونڈو اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
انسپکٹر خان تحقیقات کے لیے پرعزم اور قیوم کے مسلے کے فوری حل کی امید کے ساتھ روانہ ہوتا ہے۔
سر غوری اپنا لیپ ٹاپ بند کر دیتا ہے۔اور مراد کی جانب دیکھتا ہے۔
اسکا مطلب یہ ہے کہ سر غوری فکر مند ہیں کہ ہمارے جیسے حسین گبرو بانکے سجیلے جوان کہی گم نا ہو جائے۔۔
مذاق مت کرو مراد۔۔۔عباس نے ٹوکا۔
غوری سر مجھے بھی معاملہ خطرناک حد تک الجھا ہوا لگتا ہے۔مہدی نے کہا۔۔
جی ایسا ہی ہے۔اور میں یہ ٹاسک کیپٹن مراد کو سونپتا ہوں تم لوگ مراد کہ سربراہی میں کام کرو۔اچھا اب میں نکلتا ہوں موسم بہت طوفانی ہے ہو سکتا ہے بارش ہو جائے۔۔سر غوری ریستوران سے چلے جاتے ہیں۔
کیا خیال ہے دوستوں ایک کپ چائے نا پی لیں؟
ہاں کیوں نہیں آرڈر کرو یار۔۔
یہاں نہیں یار کل میں اور سلامت بارش میں پھنس گئے تھے میگا مارٹ جارہے تھے،وہاں جو ہوٹل ہے وہ لاجواب ہے وہاں چلتے ہیں۔
ہاہاہاہا عباس وہاں کی چائے سستی ہے میں جانتا ہوں۔اور اپنا دوست کنجوس ہے سمجھا کرو۔
عباس اور مہدی مراد کے ساتھ ریستوران سے نکلے باہر آسمان پر کالے کالے بادلوں نے ڈھیرہ جما لیا تھا اور کسی بھی وقت آندھی اور طوفان کا خطرہ تھا۔
یار مہدی آج بھی کل رات جیسا موسم ہے لگتا ہے یہ موسم ہمیں کام کرنے نہیں دے گا۔
کیسا کام مراد؟ فلاحال تو ہم چائے پینے جارہے ہیں نا؟ تم چلو تو سہی مراد نے جواب دیا۔
تینوں دوست ایک ہی میز پر بیٹھ گئے اور کل کی طرح سامنے والے ٹیبل پر دو جوان براجمان تھے اور چائے اور برگد مزے سے کھا رہے تھے۔
ویٹر ٹرے میں تین کپ چائے لے آتا ہے اور نہایت ادب سے پوچھتا ہے سر آپ سیگرٹ لے گے؟
عباس نے کہا نہیں شکریہ ہم لوگ سموک نہیں کرتے۔
مراد گرم چائے کی چسکیاں بھر رہا تھا اور مزے مزے سے ایک ایک گھونٹ پی رہا تھا۔
جاوید: (جوش سے) اوہ، کیا تم لوگ کویتا سے ملے ہو؟ وہ بہت اچھی ہے!
سلام: (شک سے) ہاں، میں اس کے ساتھ آن لائن چیٹنگ کر رہا ہوں۔وہ واقعی موسیقی اور فن کی دلدادہ لگتی ہے۔
جاوید: (خوشی سے) میں جانتا ہوں، ٹھیک ہے؟ میں اس سے بھی بات کرتا رہا ہوں۔ وہ بہت متاثر کن لڑکی ہے!
دوست آن لائن چھپے خطرے سے بے خبر چیٹنگ کرتے رہتے ہیں۔_
مراد ان دو لڑکوں کی گفتگو سن رہا تھا۔
کیا ہوا مراد تم سامنے ان دو لڑکوں کو کیوں دیکھ رہے ہو؟ مہدی پوچھنے لگا۔
کچھ نہیں یار مجھے اسکا ڈریس بہت اچھا لگ رہا ہے۔کیا سٹائل مار رہا ہے۔لگتا ہے کالج کا طالب علم ہے۔چھوڑو ہمیں کیا عباس بےپروائی سے بولا۔
چائے پینے کے بعد تینوں ہوٹل سے نکلے تو تیز بارش پھر سے شروع ہو چکی تھی۔اور سڑکیں بارش کے پانی سے بھر چکی ہے یک دم ہی۔
یار مراد وہ دیکھو مس نورین کیساتھ کون ہے؟
کہاں کہاں مراد بولا۔۔
آسمان کیطرف نہیں سامنے دیکھو روڈ کے اس پار نورین ایک نوجوان لڑکے کیساتھ جارہی تھی۔جب اس نے انکو دیکھا تو ہاتھ ہلا کر ہیلو بولا۔۔
یہ آدمی کون ہو سکتا ہے نورین کیساتھ؟
میں اسکا قیمہ بنا دونگا اسکو درخت سے الٹا لٹکا دونگا مراد غصے سے بولا۔۔
مہدی نے مراد کا،موڈ دیکھ کے کہا،ہو سکتا ہے وہ انسپکٹر نورین کا رشتہ دار ہو۔
نہیں مہدی نہیں نورین رشتہ داروں کیساتھ نہیں گھومتی یہ کوئی اور ہی چکر ہے۔
سلامت کے بچے میرا سوٹ کیس کہاں ہے مراد غصے سے بولا۔۔
شریفن بوا لگتا ہے آج صاحب کا پارہ 100 ڈگری پر ہے لگتا ہے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوئی ہے۔سلامت مراد کے موڈ اور طبعیت سے اچھی طرح واقف تھا۔جی صاحب ابھی لاتا ہوں پہلے آپ پانی پی لیں آرام سے۔۔۔
دوسرے دن مراد صبح ہی آفس چلا گیا وہاں پر کیپٹن مہدی اپنے کیبن میں موجود تھے اور انسپکٹر نورین بھی بیٹھی ہوئی تھی۔
اسلام علیکم مہدی کیا حال چال ہے؟
ٹھیک ہوں دوست آو بیٹھو۔۔کیس کے متعلق بات کرتے ہیں۔
کیسے ہو مراد نورین پوچھنی لگی۔
بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوں اچھا۔۔
اسکو کیا ہوا پے مہدی؟ نورین مہدی کے جانب حیرانی سے دیکھنے لگی۔
کچھ نہیں بس کام کا بوجھ زیادہ ہے مس نورین۔
چلو مہدی میرے ساتھ ہوٹل چلو ڈیوٹی کا وقت چار بجے تک ہوتا ہے۔چلو کل والے ہوٹل میں پیزا کھاتے ہیں۔
مگر مراد ابھی پانچ بجنے والے ہیں یہ کونسا وقت ہے پیزا کھانے کا؟ شکورن بوا نے میرا کھانا بنا لیا ہوگا۔مس نورین بولی چلو مہدی چلتے ہیں۔
مراد اور مہدی گاڑی کے فرنٹ سیٹوں پر بیٹھ گئے اور نورین پیچھے کے سیٹ پر بیٹھ گئی تینوں نے بیلٹ باندھ لئے اور گاڑی ہوٹل کی جانب روانہ ہوئی۔
تینوں ہوٹل پہنچے تو فورا ہی ویٹر آیا اور ادب سے پوچھنے لگا کہ آپ کیا لینگے؟
مراد نے جواب دیا کچھ نہیں شکریہ۔۔
نورین نے حیرانی سے مہدی کے جانب دیکھا اور ویٹر سے کہا جاو ہمارے لئے تین کپ کافی لاو۔
ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ پیزا کھانے چلتے ہیں اور ابھی تمھارا موڈ ؟ مراد تم بھی نا۔
تینوں نے کافی مزے سے نوش فرمائی۔ ویسے آج موسم طوفانی تو نہیں البتہ فضا میں اب بھی خنکی موجود ہے۔مہدی بولا۔۔
ہاں ایسا ہی ہے مگر مہدی مجھے تو بارش بہت پسند ہے۔میرا دل کرتا ہے کہ روز روز بارش ہو۔۔مراد مراد سن رہے ہو؟ یہ تم کیا سامنے والے لڑکے کو گھور رہے ہو؟
کچھ نہیں ایک منٹ انتظار کرو مراد کرسی سے اٹھا اور سامنے والے لڑکے کے ساتھ بیٹھ گیا۔
ہیلو دوست میرا نام قطب الدین ایبک ہے میں اس ہوٹل میں آتا رہتا ہوں اور روز تمھیں اپنے ایک دوست کیساتھ دیکھتا ہوں۔مگر حیرت ہے آج تم اکیلے کیوں ہو؟
پہلے تو اس لڑکے نے مراد کی جانب دیکھا مگر پھر کہنے لگا ہاں قطب الدین صاحب میرا دوست جاوید کل سے مجھے کال اور مسیج کا جواب نہیں دے رہا۔میں پریشان تھا کیونکہ وہ یتیم ہے اور اسکا اس شہر میں کوئی نہیں۔میں ہوٹل آگیا کہ شائد جاوید یہاں آجائے حسب معمول،مگر اب تک نہیں آیا۔
کیا تم مجھے اسکا ایڈریس اور فون نمبر دے سکتے ہو؟ ہاں دے دونگا مگر آپکو کیوں دلچسپی ہے؟
تاکہ میں تمھاری مدد کروں سلام صاحب۔۔
سلام نے ایک کاغذ پر جاوید کا فون نمبر اور ایڈریس لکھ کر مراد کو دے دیا۔
چلو مہدی چلتے ہیں۔۔۔
مگر بتاو تو سہی معاملہ کیا ہے؟ مراد
بعد میں سمجھاوں گا فلحال میں سٹی تھانے جارہا ہوں انسپکٹر خان سے ملنے رات کو روشن منزل پے میرے گھر ہے اکٹھے کھانا کھائینگے۔۔
مس نورین کو بھی گھر ڈراپ کر دینا۔مراد ہاتھ ہلا کر چلا گیا اور اپنی گاڑی کی چابی مہدی کو دے دی۔چلو نورین ہم بھی چلتے ہیں دیر ہو گئی ہے۔
انسپکٹر خان، ایک تجربہ کار سی۔آئی۔ڈی جاسوس، اپنی میز پر بیٹھا کیس فائلوں کا جائزہ لے رہا ہے۔_
انسپکٹر خان: (خود سے) ایک اور گمشدہ شخص کی رپورٹ… سب میں ایک چیز مشترک ہے – وہ غائب ہونے سے پہلے سارہ نامی لڑکی سے آن لائن چیٹ کر رہے تھے۔
اسلام علیکم انسپکٹر خان ۔۔۔ مجھے مراد کہتے ہیں۔۔ہاتھ ملاتے ہوئے۔۔
آپ سے مل کر خوشی ہوئی مسٹر مراد تشریف رکھئے۔۔آپکے لئے چائے منگواوں؟
سلیم، ایک متعلقہ شہری، دفتر میں داخل ہوا۔
سلیم: انسپکٹر خان، مجھے لگتا ہے کہ میں لاپتہ نوجوانوں کے بارے میں کچھ جانتا ہوں۔
نہیں چائے کی ضرورت نہیں آپ اس صاحب کی بات سنیں۔۔۔
انسپکٹر خان: (تجسس ہو کر) تمہیں کیا معلوم؟ اور آپ کون ہے جناب؟
سلیم:جی میرا نام سلیم ہے۔اور میں لڑکوں کے ہوسٹل کا وارڈن ہوں میرے ہوسٹل کے چار لڑکے اب تک گمشدہ ہو چکے ہیں۔نا انکی موت کا پتہ چل رہا ہے نا زندگی کا۔آپ پہلے یہ دیکھئے (ایک فولڈر نکال کر) میں سارہ کی آن لائن سرگرمیوں کو ٹریک کر رہا ہوں۔وہ صرف کوئی عام لڑکی نہیں ہے… وہ ایک جاسوس ہے۔
مراد پوچھنے لگا کیا کہا سلیم صاحب کیا آپکے ہوسٹل کے طالب علم بھی غائب ہیں؟
جی سر ایسا ہی ہے وہ مراد کو انسپکٹر سمجھ رہا تھا۔میں آپکو ان کی پوری تفصیل بتاتا ہوں۔
ایک دلکش اور خوبصورت لڑکی، سلامت کے ساتھ آن لائن چیٹ کر رہی ہے۔_
سارہ: (آن لائن چیٹ) ارے، مجھے آپ کی موسیقی کا ذوق بہت پسند ہے! ہمیں کسی وقت مکمل طور پر ملنا چاہئے۔آپ کب مجھ سے ملنے آرہے ہیں سلامت جی۔۔
سلامت: (آن لائن چیٹ) جی ہاں، یہ بہت اچھا ہوگا!
مس سارا میں ضرور آوں گا۔
سارہ کے تاثرات سرد اور حسابی ہو جاتے ہے جب وہ اپنے متاثرین سے معلومات نکالتی ہے۔
اچانک دروازہ کھلتا ہے اور مراد گھر کے اندر آتا ہے۔سلامت فورا اپنا موبائل بند کر دیتا ہے۔
کیا ہو رہا ہے سلامت؟ بہت تھک گیا ہوں ایک کپ چائے پلا دو۔۔
میں بتاتی ہوں ایک لڑکی کیساتھ انگریجی میں گٹر پٹر،گٹر پٹر کر رہا تھا میں سب سن رہی تھی۔۔
شریفن بوا آپ باز نہیں آئیگی۔۔۔
مراد ایک دم متجسس ہوتے ہوئے سلامت میری طرف دیکھو؟
جی صاحب نظریں چراتے ہوئے۔۔
کیا وہ لڑکی سارا تھی؟
ارے مراد صاحب آپ تو ماڈرن بزرگ ہے آپکو کیسے پتہ چلا؟
ارے اپنی جان کے دشمن۔۔۔گدھے شکر ہے مجھے وقت پے چل گیا ورنہ ابھی تم بھی لاپتہ افراد کی لسٹ میں شمار ہوتے۔۔۔
دیکھا کم بخت کہی کے میں نے تمھیں بچا لیا شریفن بوا اٹھتے ہوئی بولی۔۔
سلامت تم نے اسے کوئی تفصیل یا روشن منزل کا ایڈریس تو نہیں بتایا۔۔
ارے نہیں صاحب میں اتنا بےوقوف نہیں ہوں آخر اسلامی جمہوریہ پاکستان یعنی شانستان کے سیکرٹ سروس کے مراد صاحب کے بچپن کا دوست ہوں۔۔۔آپکا خادم اتنا بھی احمق نہیں جتنا شریفن بوا مجھے سمجھتی ہے۔
فلاحال تم ملاقات کی جگہ کا مت بتانا اور سارا نامی خاتون کو باتوں میں الجھائے رکھنا۔۔تاکہ ہم اسے ٹریس کر سکے۔۔
ٹھیک ہے صاحب میں کل اسے پروین شاکر کی غزلیں سناوگا اپنی آواز میں۔۔۔
دروازہ بند کر لو میں کیپٹن مہدی کے گھر جارہا ہوں۔اگر فون آئے تو مہدی کے گھر ٹرانسفر کر دینا۔
مہدی میرے دوست میرے پیچھے مت آنا میں چائے پینے جارہا ہوں۔۔۔دروازے پے مسیج ریکارڈ کرکے مراد اپنی عادت کیمطابق شہر کے ہوٹل چیک کرنے لگا۔۔اور آخر میں اسی ہوٹل میں پہنچا اور میز پر آرام سے بیٹھ گیا۔مگر آج مراد ایک لاابالی نوجوان اور کالج کے یونیفارم میں تھا اور ایسا حلیہ اختیار کیا ہوا تھا کہ کوئی اسے پہچان نا سکا۔کافی دیر بیٹھنے کے بعد اچانک وہی ویٹر آیا اور نہایت ادب سے کہنے لگا کہ جناب آپ کیا لینگے؟
کچھ نہیں بس بور رہا تھا تو یہاں آگیا۔۔
ویٹر کے آنکھوں میں چمک آگئی اور کہنے لگا سر اگر آپ کہے تو آپ کی بوریت ختم کروں۔
مراد اس ویٹر کو دیکھ کے کہنے لگا ہاں ضرور۔
کچھ دیر کے بعد ویٹر ایک پوسٹر لے آیا اور مراد کے سامنے ٹیبل پے رکھ دیا۔
مراد نے پوسٹر دیکھا اس پر لکھا ہوا تھا۔
قلمی دوست کی تلاش۔۔آو قلمی دوست بنیں اپنے زندگی کے دکھ سکھ بانٹیں اور ان لائن ویڈیو چیٹ پے باتیں کریں۔نیچے لڑکیوں کی لاتعداد موبائل نمبر درج تھے۔جن پر بات چیت کرنی تھی۔
مراد نے وہ پوسٹر جیب میں ڈالا اور ویٹر کو پانچ سو روپے کی ٹپ دی اور لاپروائی سے ہوٹل کے باہر نکل آیا،اور اپنی گاڑی میں انتظار کرنے لگا۔
ٹھیک آٹھ بجے وہی ویٹر ہوٹل سے نکلا اور ایک ٹیکسی میں بیٹھ کے روانہ ہوا۔۔
مراد نے فورا اپنی گاڑی اسی روڈ پر موڑ لی مگر گاڑی کی سپیڈ آہستہ رکھی کہ شک نا ہو۔۔