
کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں جو بات دل میں ہے کیسے بیان کروں؟ نہ لکھو تو بھی دل بیقرار لکھو تو بھی بیسوں اندیشے، اپنی دل کی دوا کرو یا پھر میں بھی جفا کروں؟
یہ کالم میں شاید نہ لکھتا مگر کیا کروں پاکستان میرا وطن ہے اور وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے، اسی ایمان کا تقاضا ہے کہ میں اپنا دل اور محبت کے تقاضے آپ کے سامنے رکھ دو ۔تب گزارش ہے کہ
میرے اس تحریر کو یوسف کی خریداری کیلئے اس بوڑھی عورت کی قیمت قلیل بغرض دعویٰ بر قیامت سمجھنا۔
یہ کہانی شروع ہوتی ہے وہاں سے جب کچھ دن قبل جرمنی میں پاکستانی جھنڈے کی توہین کی گئی جس پر محب وطن پاکستانیوں کو ٹھیس پہنچا اور انھوں نے اپنے رد عمل کے طور پر سوشل میڈیا پر پاکستانی جھنڈا شئر کیا، سو ہم نے بھی ایک محب وطن ہونے کے ثبوت کے طور پر پاکستانی جھنڈا سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر شئر کردیا، جس پر چند ہی نے اپنے محبت کی رد عمل کا اظہار کیا، لیکن زیادہ تر لوگوں نے مجھے گل خان قرار دیا،اور ستم بالائے ستم کہ 14 اگست کے بجائے 15 اگست پر انڈیا کا جھنڈا اپنے ٹایم لائن پر لگا دیا جہاں سے شروع ہوتی ہے یہ کہانی دیش دروہی کا ۔
جب ہم اپنی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں اکثر ایسے افراد ملتے ہیں جو قوم کی بھلائی پر اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ افراد زندگی کے مختلف شعبوں میں، سیاست سے لے کر کاروبار تک، اور یہاں تک کہ ہماری اپنی برادریوں میں بھی پائے جا سکتے ہیں۔ لیکن کیا چیز کسی کو دیش دروہی، اپنے ہی ملک کا غدار بناتی ہے؟
اس کالم میں، ہم ان مختلف شکلوں کا جائزہ لیں گے جو دیش دروہی اختیار کر سکتے ہیں اور ان کے ہمارے معاشرے پر کس طرح دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔
دیش دروہی کی ایک عام مثال کرپشن ہے۔ اقتدار میں رہنے والے جب عوام کی ضرورتوں پر اپنے مالی فائدے کو ترجیح دیتے ہیں تو وہ ان پر رکھی گئی امانت میں خیانت کر رہے ہوتے ہیں۔ اس سے ہماری معیشت، ہمارے بنیادی ڈھانچے اور ہماری سماجی خدمات پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
دیش دروہی کی ایک اور شکل غلط معلومات اور پروپیگنڈا پھیلانا ہے۔ جب افراد یا گروہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلاتے ہیں تو وہ ہماری جمہوریت کے تانے بانے کو کمزور کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ تقسیم، بداعتمادی اور یہاں تک کہ تشدد کا باعث بن سکتا ہے۔
لیکن دیش دروہی صرف عظیم الشان، ڈرامائی کارروائیوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ روزمرہ کے اعمال کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے، جیسے کہ کوڑا کرکٹ پھینکنا، وسائل جمع کرنا، یا اپنے ارد گرد رہنے والوں کی جدوجہد کو نظر انداز کرنا۔ یہ چھوٹی چھوٹی حرکتیں اپنے طور پر غیر معمولی لگ سکتی ہیں، لیکن یہ خود غرضی اور عام بھلائی کو نظر انداز کرنے کا کلچر پیدا کر سکتے ہیں۔
تو ہم دیش دروہی کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ سب سے پہلے، ہمیں ان طریقوں سے آگاہ ہونا چاہیے جن میں یہ ہماری زندگیوں اور ہمارے معاشرے میں ظاہر ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے قائدین اور خود کو بھی اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا چاہیے۔ اور آخر میں، ہمیں ہمدردی، ہمدردی، اور قوم کی خدمت کا کلچر بنانے کی سمت کام کرنا چاہیے۔
مل کر کام کرنے سے ہی ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو اپنے تمام شہریوں کی فلاح و بہبود کو حقیقی معنوں میں ترجیح دے۔
آج کے دور میں دیش دروہی ایک ایسا لفظ ہے جو اکثر بحث کا موضوع بنتا ہے۔ کچھ لوگ اسے ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرے اسے آزادی اظہار کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی جمہوری معاشرے میں تنقیدی سوچ اور کھلی بحث کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ ساتھ قومی مفادات کا خیال رکھنا بھی اہم ہے۔
ہمیں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جہاں لوگ اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر بیان کر سکیں، لیکن ساتھ ہی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کریں۔ یہ توازن قائم کرنا آسان نہیں، مگر یہ ہماری جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ناگزیر ہے۔
یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ وطن سے محبت کا مطلب اندھی وفاداری نہیں، بلکہ تنقیدی سوچ کے ساتھ ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا ہے۔
وطن سے محبت انسان کا ِفطری تقاضا ہے۔ انسان جس خطہء زمین میں آنکھ کھولتا ہے اور پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک زندگی گزارتا ہے، وہ خطہ انسان کی تمام جسمانی، علمی اور روحانی ضروریات پوری کرتا ہے جن میں خوراک، لباس، رہائش، صحت، تعلیم، روزگاراور سب سے بڑھ کر دنیا میں ایک شناخت اور شہری حقوق شامل ہیں۔ انسان کےعزیز و اقارب جن کے ساتھ اُس کی خوشیاں اور غم جڑے ہوتے ہیں، بھی اُسی زمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِن سب احسانات کے بعد بھی اگر انسان میں اپنےوطن سے محبت پیدا نہ ہوتو اس پر تعجب ہی کیا جاسکتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں تو دھرتی کو” ماتا “یعنی ماں کا درجہ دیا جاتا ہے۔
اپنا وطن چاہے جیسا بھی ہو، انسان کو اُسی سے اپنائیت اور اُنس کا احساس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن کی محبت کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرمارہے تھے تو آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرکے فرمایا:’’ اے مکہ! تو کتنا پیارا ہے ، تو مجھے کس قدر محبوب ہے ، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا (ترمذی)
اسی طرح ہمارے معاشرے میں حُب الوطنی کا لازمی مطلب دوسری اقوام سے نفرت کرناسمجھ لیا گیا ہے۔ ہم اپنی تعمیر پر اتنی محنت نہیں کرتے جتنا ہم دوسروں کی تباہی و بربادی کے شوق میں مبتلا ہیں۔ حُب الوطنی کے نام پر یہ منفی رويے ہمارے مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں جن سے چھٹکارا پانا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارا دین جس طرح ہمیں اپنے خاندان، محلے ، شہر اور ملک سے محبت سکھاتا ہے اسی طرح وہ پوری انسانیت کو خدا کا خاندان قرار دے کر ہمیں رنگ،نسل، مذہب، علاقے سے بالاتر ہو کر انسانی مساوات، ظلم سے نفرت، ہمدردی اور محبت سکھاتا ہے۔ اِس ضمن میں مولانا عبید اللہ سندھی کا قول” فرد وہ اچھا ہے جو اپنی قوم کے لیے فائدہ مند ہے اور قوم وہ اچھی ہے جو پوری انسانیت کے لیے فائدہ مند ہے۔“ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ نفرتوں کے اِس ماحول میں یہ فکر پوری انسانیت کو ایک لڑی میں پرونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
عصرحاضرکی خاص اصطلاح ”وطنیت“ اور اس سے منسلک غیر ضروری تقاضوں سے ہٹ کربات کی جائے تو وطن سے محبت کوئی معیوب چیز نہیں ہے نہ اسلام میں اورنہ ہی کسی اور مذہب میں ، بلکہ اپنے وطن اور علاقے سے محبت ایک فطری چیز ہے ، اورہر انسان کا حق ہے ۔
اللہ کے نبی ﷺ پر جب پہلی وحی آئی اورآپ ﷺ نے اس کا تذکرۃ ورقہ بن نوفل سے کیا تو مختلف روایات کے مطابق ورقہ بن نوفل نے کئی پیشین گوئیاں کیں، لیکن جیسے ہی ورقہ نے یہ کہاکہ :
”ليتني أكون حيا إذ يخرجك قومك“ ، ”کاش میں اس وقت زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو یہاں سے نکال دے گی“
تو آپ ﷺ نے کہا:
”أو مخرجي هم؟“ ، ”کیا یہ لوگ مجھے یہاں سے نکال دیں گے ؟“ [صحيح البخاري ، رقم 3]
”اس سے معلوم ہوتا ہےکہ وطن کی مفارقت دل پربہت گراں گذرتی ہے ، کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ نے یہ سب کہتے ہوئے سنا کہ یہ لوگ آپ کو تکلیف دیں گے ، اور جھٹلا دیں گے لیکن ان باتوں پر آپ کو کو ئی گھبراہٹ نہیں ہوئی لیکن جیسے ہی ورقہ نے یہ ذکر کیا کہ یہ لوگ آپ کو یہاں سے نکال دیں گے ، اس پر آپ ﷺ کا دل لرز اٹھا وطن کی محبت اور اس سے الفت کے باعث اور آپ ﷺ نے بے ساختہ کہا : کیا یہ لوگ مجھے یہاں سے نکال دیں گے ؟“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 12/ 359]
یہ بات بھی پیش نظر رکھئیے کہ اسی وطن میں اہل وطن نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا ، کتنوں کی جائداد پرقبضہ کرلیا ، کتنوں کو دردناک سزائیں دیں اور کتنوں کے اقرباء و اہل وعیال کو جان سے مارڈالا لیکن اہل وطن کی ان مظالم کے باوجود بھی وہ اپنے وطن کی محبت سے دست بردار نہ ہوسکے ۔
ایک آزاد شخص کو تو جانیں دیں مکہ میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والے بلال رضی اللہ عنہ کا حال دیکھیں جنہیں اسلام لانے کے سبب اہل مکہ نے ہولناک سزائیں بھی دیں ، صحیح بخاری کی روایت ہے ، اماں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، بلال رضی اللہ عنہ جب ہجرت کرکے مدینہ آگئے تو وہ بخار میں مبتلا ہوگئے اور بلال رضی اللہ عنہ کے بخار میں جب کچھ تخفیف ہوتی تو زور زور سے روتے اور یہ شعر پڑھتے :
”ألا ليت شعري هل أبيتن ليلة … بواد وحولي إذخر وجليل
وهل أردن يوما مياه مجنة … وهل يبدون لي شامة وطفيل“
”کاش مجھے یہ معلوم ہو جاتا کہ کبھی میں ایک رات بھی وادی مکہ میں گزار سکوں گا جب کہ میرے اردگرد (خوشبودار گھاس) اذخر اور جلیل ہوں گی ،
اور کیا ایک دن بھی مجھے ایسا مل سکے گا جب میں مقام مجنہ کے پانی پر جاؤں گا اور کیا شامہ اور طفیل کی پہاڑیوں کو ایک نظر دیکھ سکوں گا“
ملاحظہ فرمائیے کہ اہل وطن کی ظلم وزیادتی بھی اس کی محبت پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، اور ہر شخص کا دل اپنے وطن کی محبت سے شرسار ہوتاہے ، یہ ایک فطری بات ہے ۔
امام ابن بطال (المتوفى: 449 ) فرماتے ہیں:
”وقد جبل الله النفوس على حب الأوطان والحنين إليها، وفعل ذلك عليه السلام، وفيه أكرم الأسوة“
”اللہ تعالی نے لوگوں کو وطن کی محبت اور اس کے ساتھ اشتیاق پر پیدا کیا ہے اور آپ ﷺ نے بھی وطن سے محبت کی اس میں بہترین اسوہ ہے“ [شرح صحيح البخارى)
وطن سے محبت انسان کے مزاج اور طبیعت کا حصہ ہے۔ اور یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کو وطن سے عمر کے کسی خاص حصے میں محبت ہو اور بعد میں اِس محبت کی شدت میں کمی آجائے۔ اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی طے کرے کہ ایک خاص حد تک ہی وطن سے محبت کی جائے گی۔ وطن سے انسان یا تو محبت کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ ؎
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر … یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
عمومی سطح پر لوگ وطن اور بالخصوص جائے پیدائش کے معاملے میں اُتنے جذباتی نہیں ہوتے جتنے ہونے چاہئیں۔ اگر یہ محبت دل و دماغ پر طاری ہو جائے، پورے وجود کو اپنے دائرۂ اثر میں لے تو انسان پورا تبدیل ہو جاتا ہے۔ جائے پیدائش سمیت پورے وطن سے غیر معمولی محبت انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے، بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔
آج کا پاکستان حقیقی اور بھرپور حب الوطنی کے معاملے میں خاصا بدنصیب ہے۔ وطن سے محبت کے دعویدار قدم قدم پر ملتے ہیں مگر وطن سے محبت کا حق ادا کرنے کی خواہش اور ہمت رکھنے والے خال خال ہیں۔ عمومی سطح پر معاملہ یہ ہے کہ لوگ وطن سے محبت کے دعوے ہی کو بہت کچھ یا سب کچھ گردانتے ہوئے عملی سطح پر کچھ کرنے سے یکسر گریزاں رہتے ہیں۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ سال میں دو تین مواقع پر وطن سے محبت کا جذبہ محسوس کرتے ہیں اور کچھ دیر اُس سے سرشار رہتے ہوئے باقی دن اپنے معمول کے مطابق بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ طریق کسی بھی اعتبار سے حب الوطنی کا حق ادا نہیں کرتا اور کر ہی نہیں سکتا۔ وطن سے محبت کم و بیش ہر انسان کے لیے لازمے کا درجہ رکھتی ہے۔ جس زمین پر انسان رہتا ہو اگر وہ اُسی کا نہ ہو تو باقی دنیا اُسے احترام کی نظر سے نہیں دیکھتی۔ وطن سے بے لوث اور جامع محبت ہی انسان کو ایسی زندگی بسر کرنے کی تحریک دیتی ہے جس میں وہ پورے سماج کو کچھ دینے اور اُس سے کچھ لینے کی ذہنیت پروان چڑھانے کے مزاج کا حامل ہو۔ جو اپنی زمین سے محبت کرتا ہو وہی اُس کا حق ادا کرنے کے بارے میں بھی سوچ سکتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ ع
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
وطن کا مطلب اُس میں پائے جانے والے تمام قدرتی و انسانی وسائل۔ وطن یعنی سماج۔ سماج یعنی لوگ۔ ہم مل کر رہتے ہیں تو سماج تشکیل پاتا ہے۔ سماج کو زمین کا ٹکڑا درکار ہوتا ہے جس میں وہ بخوبی سماسکے۔ جب ہم وطن سے محبت کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں تب سماج کو بھی گلے لگا رہے ہوتے ہیں۔ وطن سے محبت کا بنیادی تقاضا ہے اہلِ وطن کو اپنا سمجھنا، اُنہیں سمجھنا اور جو کچھ بھی اُن کے لیے کیا جاسکتا ہو وہ کر گزرنا۔
فی زمانہ زندگی کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ ہر معاشرہ غیر معمولی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ بہت کچھ ہے جو انسان کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ وہ بہت سے معاملات میں خاصا بے بس ہے۔ خواہش کے باوجود وہ بعض معاملات میں اپنی مرضی کے مطابق کچھ نہیں کر پاتا اور دوسری طرف ایسا بہت کچھ کرنا پڑتا ہے جو کسی بھی اعتبار سے اپنی مرضی کا آئینہ دار نہیں ہوتا۔ پھر بھی وطن سے محبت ایسا معاملہ ہے جس میں ڈگر سے ہٹنے کی گنجائش نہیں۔ جو وطن سے محبت کرتے ہیں وہ اُس کے لیے کچھ بھی کر گزرتے ہیں کیونکہ وطن ہی اُن کی زندگی کو سہارا دینے والا سب سے بڑا سُتون ہوتا ہے۔
ہر دور کے انسان کے لیے وطن سے محبت ایک بنیادی ضرورت رہی ہے۔ وطن کو مکمل طور اپنانے والے ہی کچھ کر پاتے ہیں۔ وطن سے محبت مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ جو وطن سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں وہ اہلِ وطن کو بھی اپنا سمجھتے ہیں اور اِس معاملے میں کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ انسان کے لیے ایک بڑی کسوٹی یہی تو ہے کہ جن کے درمیان رہتا ہو اُن سے پیار کرے، اُن کا خیال رکھے، اُن کی مدد کرے اور وقت پڑنے پر اُن سے مدد لینے سے نہ ہچکچائے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب وطن کی مٹی سے محبت ہو اور اُس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کا جذبہ پروان چڑھ چکا ہو۔ ہر دور میں وطن سے محبت کا اظہار انسان کے لیے عظمت کے حصول کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ وطن سے محبت کرنے والوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ اور اگر کوئی وطن کے لیے جان دے دے تو سمجھ لیجیے امر ہوگیا۔ اِس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی اپنے دین، نظریے یا لوگوں کے لیے جان کی بازی لگادے؟ کسی بھی انسان کے لیے زندگی سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہوتی۔ زندگی کو داؤ پر لگادینا انسان کے لیے حقیقی کسوٹی ہوا کرتا ہے۔ وطن سے محبت کا ایک تقاضا یہ بھی تو ہے کہ اُس کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ جو یہ قربانی دے ڈالے اُس کی عظمت کو تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔
اب ذرا سوچیے کہ آج کے پاکستان کو ہم سے جس قدر محبت درکار ہے کیا ہم اُتنی محبت کر رہے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی مٹی سے اُتنی محبت نہیں کر رہے جتنی کرنی چاہیے۔ آج کا پاکستان ہم سے بے پناہ محبت کا طالب ہے۔ وقت بدل چکا ہے، وقت کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں۔ آج کی دنیا میں کم و بیش ہر ملک کے باشندوں پر لازم ہوگیا ہے کہ وطن کی محبت کا گراف بلند رکھیں۔ وطن کو ترجیح دینے کا رجحان پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ مسابقت کی صدی ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ مسابقت کی نذر ہوچکا ہے۔ ایسے میں وہی معاشرے زندہ رہ سکتے ہیں جن سے اُن کے باشندے غیر معمولی حد تک پیار کرتے ہوں۔ عالم گیریت کے اِس دور میں ہر وہ ملک کمزور پڑ جاتا ہے جس سے اُس کے باشندے بھرپور محبت نہ کرتے ہوں۔
آج اہلِ پاکستان کا امتحان ہے۔ وہ اپنی ذاتی اغراض کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وطن کے مفاد کو ذہن نشین رکھیں اور اُسی کو ترجیح دیں۔ وطن سے محبت کا اظہار متعدد معاملات میں ہوتا ہے۔ وطن کی آبرو برقرار رکھنے کی ہر کوشش حب الوطنی کے زمرے میں ہے۔ وطن کے وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے جینا بھی وطن سے محبت کے اظہار ہی کا ایک معقول طریقہ ہے۔ کسی بھی ملک کو وطن پر ترجیح دینا کسی بھی اعتبار سے مستحسن طرزِ فکر و عمل نہیں۔ باقی دنیا سے بھی نفرت لازم نہیں مگر وطن سے محبت لازم ہے۔ اور اِس محبت کے اظہار کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہم کسی بھی ملک کو وطن پر ترجیح نہ دیں۔ دنیا گھومیں مگر اپنی مٹی کے مفاد کو ذہن نشین رکھیں اور اُسے اولین ترجیح کا درجہ دیں۔
آج کا پاکستان ہم سے شدید محبت کا طالب ہے کیونکہ اقوام کی برادری میں ڈھنگ سے جینے کے لیے لازم ہے کہ اہلِ وطن اپنی مٹی سے شدید محبت کرتے ہوں۔ دنیا بھر میں حب الوطنی آج بھی ایک لافانی وصف سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اپنے معاشرے اور ملک کو باقی دنیا پر ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کے لیے وطن سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ یہ سوچ ہمیں بھی اپنانا ہوگی۔ پاکستان کو استحکام درکار ہے۔ اِس کی کمزوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ایسے میں ہمارے لیے لازم ہے کہ اِس کے مفاد کو ہر شے پر مقدم سمجھیں۔ وطن سے محبت کے اظہار کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ اِسے نقصان پہنچانے والی ہر طرزِ فکر و عمل سے مکمل گریز کیا جائے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم اپنے ذاتی یا انفرادی مفادات کو ایک طرف ہٹاکر صرف اجتماعی مفاد کو تحفظ فراہم کرنے کا سوچیں۔ اِسی صورت ہم وطن سے محبت کا حق ادا کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ دنیا چاہے کتنی ہی رنگین ہو، ہمارے لیے وطن سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ جو کچھ اِس میں ہے وہی ہماری اصل دولت، حقیقی اثاثہ ہے ؎
امام سہیلی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”الروض الانف ”میں وطن کی محبت کے حوالے سے باقاعدہ ایک باب باندھا ہے: ”حُبُّ الرَّسُوْلِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَطْنَہُ” (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن کے لیے محبت)۔ اس عنوان کے تحت امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب پہلی وحی آتی ہے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضور صل اللہ تعالیٰ عنہ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہے، تو ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔ پھر جب اس نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً فرمایا:
اَوَ مُخْرِجِیَّ؟
کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟
یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں:
فَفِیْ ہٰذَا دَلِیْل عَلٰی حُبِّ الْوَطَنِ وَشِدَّةِ مُفَارَقَتِہِ عَلَی النَّفْسِ.
اِس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنی شاق تھی۔
فطرتِ اِنسان کو وطن کی محبت سے گوندھا گیا ہے (یعنی وطن کی محبت انسانی خمیر میں رکھ دی گئی ہے۔
مکہ سے ہجرت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ الفاظ جو مکہ کو مخاطب کر کے فرمائے: “تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا”۔ یہ وطن کی محبت ہی تو تھی کہ جب ایک شخص مکہ سے مدینہ ملنے آتا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ ان سے مکہ کا حال پوچھتی ہیں جواب میں وہ شخص مکہ کی باتیں کرنے لگتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لا تُشَوِّقْنَا يَا فُلَانُ ،…..اے فلاں! ہمارا اِشتیاق نہ بڑھا۔ ایک اور روایت میں آتا ہے : دَعِ الْقُلُوْبَ تَقِرُّ، ….دلوں کو قرار پکڑنے دو۔
امام راغب اصفہانی سے کون واقف نہیں وطن کی محبت کی فضیلت میں لکھتے ہیں کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنْ طِيْبِ الْمَوْلِدِ. (وطن کی محبت اچھی فطرت و جبلت کی نشانی ہے)۔
ابو عمرو بن العلاء کہتے ہیں :
“آدمی کے معزز ہونے اور اس کی جبلت کے پاکیزہ ہونے پر جو شے دلالت کرتی ہے وہ اس کا اپنے وطن کے لیے مشتاق ہوناہے،
وطن کی محبت عین تقاضا فطرت ہے۔ ہمارے لئے اگر کوئی خطہ زمین اہم ہے وہ مکہ اور مدینہ کے بعد پاکستان ہے۔ پاکستان کے لئے جس قدر قربانیاں دی گئیں ہم ان کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ یہ وطن اللہ کا عظیم معجزہ ہے یہ ہماری پناہ گاہ ہے ہماری پہچان ہے۔ وطن سے محبت کے بغیر کوئی قوم دنیا میں معزز نہیں ہوتی۔ جو قوم وطن سے محبت کو فراموش کر دیتی ہے اس کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ وطن سے محبت اگرچہ ایمان کا حصہ نہیں ہے مگر ایمان کے منافی بھی نہیں ہے۔ زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو اپنی زمین اپنے وطن پر سب کچھ قربان کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ بقول جوش ملیح آبادی ؎
تجھ سے منہ موڑ کے منہ اپنا دکھائیں گے کہاں
گھر جو چھوڑیں گے تو پھر چھاؤنی چھائیں گے کہاں
بزم اغیار میں آرام یہ پائیں گے کہاں
تجھ سے ہم روٹھ کے جائیں بھی تو جائیں گے کہاں…..
جیسا کہ پاکستان جدید جغرافیائی سیاست کی پیچیدگیوں سے گزر رہا ہے، ہماری سرحدوں کے اندر ایک پریشان کن رجحان ابھرا ہے۔ ملک دشمن بیانیہ، غلط معلومات اور تفرقہ انگیز بیان بازی کی وجہ سے، خطرناک حد تک زور پکڑ رہا ہے۔ اس رجحان سے ہماری قومیت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کا خطرہ ہے اور اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے ایک ماحولیاتی نظام تشکیل دیا ہے جہاں غیر مصدقہ دعوے اور سازشی نظریات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتے ہیں۔ اس نے ریاست مخالف عناصر کو اکثر حب الوطنی کی آڑ میں اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے قابل بنایا ہے۔ نتیجہ ایک زہریلا گفتگو ہے جو شہریوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتا ہے اور ہمارے اداروں پر اعتماد کو ختم کرتا ہے۔
مزید برآں، ملک دشمن بیانیہ مرکزی دھارے کی سیاست میں داخل ہو گیا ہے، کچھ رہنما مختصر مدت کے فوائد کے لیے ان جذبات کا استحصال کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف قومی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ معاشی ترقی اور علاقائی سلامتی جیسے اہم مسائل سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت پر بھی سمجھوتہ ہوتا ہے۔
یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس رجحان کے خطرات کو پہچانیں اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی اقدام کریں۔ ہمارے میڈیا، دانشوروں اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ حقائق پر مبنی گفتگو کو فروغ دیں اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کریں۔ ہمارے قائدین کو قومی مفاد کو پارٹی کی سیاست پر ترجیح دینا چاہئے اور تعمیری بات چیت میں مشغول ہونا چاہئے۔
ہمیں اپنے شہریوں کی جائز شکایات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے اور جامع پالیسیوں اور گڈ گورننس کے ذریعے ان کے حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے، ہم بیانیہ پر دوبارہ دعویٰ کر سکتے ہیں اور ایک متحد، آگے نظر آنے والا پاکستان بنا سکتے ہیں۔
اب عمل کرنے کا وقت ہے۔ آئیے ہم ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کے لیے ہاتھ بٹائیں جو لچکدار، قابل فخر اور اپنے تمام شہریوں کی بھلائی کے لیے پرعزم ہو۔
حالیہ برسوں میں، پاکستان میں ملک مخالف بیانیہ کی بڑھتی ہوئی لہر نے بہت سے لوگوں کو فکر مند کر دیا ہے۔ یہ رجحان مختلف وجوہات کی بنا پر سامنے آیا ہے، جن میں معاشی مشکلات، سیاسی عدم استحکام، اور سماجی تناؤ شامل ہیں۔
اس بیانیہ کے پیچھے کئی عوامل کام کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت نے افواہوں اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو آسان بنا دیا ہے۔ بعض عناصر ملکی مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں، جبکہ کچھ لوگ محض اپنے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔
تاہم، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ تنقید اور ملک مخالف بیانیہ میں فرق ہوتا ہے۔ جہاں تعمیری تنقید ملک کی بہتری کے لیے ضروری ہے، وہیں ملک مخالف سرگرمیاں قومی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے:
1. تعلیم پر زور: نوجوانوں کو تنقیدی سوچ اور میڈیا سواد سکھانا چاہیے تاکہ وہ حقائق اور پروپیگنڈے میں فرق کر سکیں۔
2. شفافیت: حکومت کو اپنی پالیسیوں اور فیصلوں کے بارے میں زیادہ شفاف ہونا چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔
3. مثبت بیانیہ: ہمیں پاکستان کی کامیابیوں اور مثبت پہلوؤں کو بھی اجاگر کرنا چاہیے۔
4. مذاکرات: مختلف نظریات رکھنے والے گروہوں کے درمیان مکالمے کو فروغ دینا چاہیے۔
5. قانونی اقدامات: ملک مخالف سرگرمیوں کے خلاف موجودہ قوانین کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنا چاہیے، لیکن یہ یقینی بنانا چاہیے کہ آزادی اظہار کو محدود نہ کیا جائے۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر قومی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔ صرف متحد ہو کر ہی ہم ان چیلنجوں پر قابو پا سکتے ہیں اور ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
وطن میری جان، میری روح کا سکون
ہر سانس میں بستا، ہر دھڑکن میں تُو
تیری مٹی کی خوشبو، میرے دل کا قرار
تیرے آسمان کی وسعت، میری آنکھوں کا نور
تیرے لیے جینا، تیرے لیے مرنا
تیرے نام پر ہر لمحہ گزرنا
اے میرے وطن، تُو میری پہچان
تیری عزت میری، تیری شان میری جان…. اور بقول شاعر…. ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت کرنا تو یہ جرم سدا میرے حسابوں میں رہے گا!