فضول خرچیاں اور معاشرے کی بگاڑ

تحریر: عرفان علی شاہ بخاری

Spread the love

ٹک ٹاک پر ایک دکان دار کمبل(چادر) کی ایڈورٹائز کررھاتھا جس میں چادر کی قیمت 21 ھزار روپے بتایا گیا دکاندار نے اور بھی مختلف قسم کے چادر دکھائے جس کا 16 اور 15 ھزار قیمت بتایا گیا اور آرڈر کیلئے اپنا ایڈریس اور نمبر بتایا دکاندار نے اتنے ڈھیر سارے چادر مارکیٹ کی پوزیشن کو دیکھ کر لائے ھوں گے کہ یہ خوب چلتاھے ٹک ٹاک دیکھ کر میں تاریخ صحابہ و خلفائے راشدین میں گم ھوگیا سوچتا رھا کہ وہ بھی انسان تھے لحیم شحیم کھانے اور قیمتی پوشاک کا ان کو بھی شوق ھوسکتاتھا لیکن خود پر خر چ کرنے کی بجائے وہ دوسرے غریبوں پر خرچ کیا کرتے تھے۔۔عمر بن عبدالعزیز تین براعظم کا حکمران تھا۔۔جو کہ پاکستان کے تین گنا بنتاھے۔۔۔۔کے بارے میں تاریخ نے لکھا ھے کہ۔۔۔دوران حکومت جو وہ خود امیر المومنین(صدر) تھے ایک دفعہ گھر ائے تو اپنے بیٹیوں سے بات کرتے تھے تو بیٹیاں منہ کودوپٹہ سے ڈھانپ کر ان سے مخاطب ھوتی تھیں۔امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز نے اس حرکت کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ اج گھر میں سالن نہیں تھا انہوں نے کچے پیاز سے روٹی کھائی ھے منہ پر دوپٹہ اس لئے رکھتے ھیں کہ اپ کو پیاز کی بد بو نہ لگے۔۔۔تو امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رونے لگے اور اپنے بیٹیوں کو صبر کی تلقین کی۔۔تاریخ نے یہ بھی لکھا ھے کہ۔۔ایک دفعہ عید قریب تھی تو گھر میں بچوں نے عید کے کپڑے خرید نے کی فرمائش کی تو عمر بن عبدالعزیز نے اپنے خزانچی کو خط لکھ بھیجا کہ ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی دے دیں تو خزانچی نے واپس لکھا کہ دونگا مگر اپ ایک ماہ زندہ رھنے کی گارنٹی دینگے۔۔۔یہاں یہ بات قابل غور ھے کہ نیک حکمرانوں کی ماتحت بھی نیک اور باکردار ھوں گے عمربن عبدالعزیز نیک اور باکردار تھے تو ان کا خزانچی بھی نیک اور با کردار تھا۔۔خط جب عمر بن عبدالعزیز کو واپس ایا تو رونے لگے اور کہا کہ واقعی میرے پاس تو ایک ماہ زندہ رھنے گارنٹی نہیں ھے یہ تو قوم کا مال ھے اگر میں ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لے لو اور مہینہ پورا ھونے سے قبل مر گیا تو اللہ کے حضور کیا جواب دوں گا۔۔پھر بچوں کو دلاسہ دیا اور کہا کہ میرے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ھے یہ حکومت یہ مال ومتاع قوم کی امانت ھے اور میں خیانت نہیں کرسکتا کیونکہ مجھے اپنے اللہ کو جواب دہ ھوں گا ۔۔۔عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بارے میں تاریخ لکھتا ھے کہ ان کے وفات کے بعد ان کا ترکہ میں 3 ارب 10 کروڑ 20 لاکھ دینار نقد رقم تھی اب اندازہ لگاو۔پاکستانی روپے میں ضرب دے دو۔۔تو پاکستانی روپے کھربوں میں ھوں گے 1000 غلام۔۔1000 اونٹ اور سونے کی اینٹ۔۔۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بہت بڑے تاجر تھے اس وقت کا۔۔۔لیکن ایک دفعہ تین قسم کا کھانا کھانے پر روپڑے کہ اللہ کو حساب دینا ھوں ان کھانوں کا۔۔۔غریب کو ایک وقت کی روٹی میسر نہ ھوں اور میں تین قسم کے کھانوں کا لطف اٹھاو۔۔۔میرا مقصد یہ ھے کہ ھمارے معاشرے اور ھمارے حکمرانوں اور ان کے معاشرے اور ان کے حکمرانوں میں یہی فرق ھے کہ وہ دوسروں پر خرچ کرتے تھے راتوں کو چھپکے سے غریبوں میں کھانا تقسیم کرتے تھے۔۔خود بھوکا رھتے اور غریبوں کو کھلا تے تھے۔۔۔۔اور ھمارے حکمران ۔۔۔۔ھڑپ ۔۔۔کے فارمولے پر عمل پیرا ھے۔۔۔عوام میں بھی انصاف نہیں ھے۔۔ایک پڑوسی پیٹ بھر کر کھاتا ھے دوسرا بھوکا سوتا ھے۔۔صاحب ثروت اپنے لئے مہنگے پوشاک، کپڑے جوتے خریدتے ھیں اور غریب پھٹے پرانے پہنتے ھیں۔۔یہی وجہ ھے کہ معاشرہ بگاڑ اور بدامنی کاشکار ھے۔۔صاحب ثروت خود پر کم خرچ کرے اور دوسرے غریبوں کو بھی کھلائے پلائے۔۔21ھزار کا چادر خریدنے کی بجائے 2ھزار کے چادر پر گزارہ کیاجائے اور چادر میں18 ھزار کی بچت کرکے کسی دوسرے غریبوں پر خرچ کیا جائے تو تب معاشرہ میں رھنے اور زندگی گزارنے کا مزہ ھوگا اور اللہ بھی خوش ھوکر روز قیامت بدلہ عطاء فرمائے گا یہ ذاتی من پسندی اور ذاتی مفاد پرستی کا روش ترک کرکے اپنے اخراجات میں میانہ روی کا اھتمام کیاجائے اللہ کی رضاء کیلئے غرباء و مساکین پر خرچ کرنے کا عادت ڈالا جائے۔۔۔۔یہی مسلمان کاشان اور صحابہ کی پیروی ھے۔۔حدیث میں ھے۔۔مفہوم یہ ھے کہ۔۔۔جس نے اپنے خرچ میں میانہ روی سے کام لیا وہ کبھی مختاج نہیں ھوگا۔۔21 ھزار کی چادر کا استعمال خوب ججتا ھے مگر کسی مختاج غریب پر خرچ کرنا بڑی سعادت اور دنیا واخرت کی کامیابی ھے۔۔۔بد قسمتی سے ھمارے ملک کے عوام کی فضول خرچیاں اور غیروں نقالی نے معاشرے کو تباھی کے دھانے پر پہنچا دیا ھے۔۔خود کو شان مسلمان بناو۔۔۔معاشرہ سدھرے گا۔۔۔اگر نہیں تو۔۔معاشرے کی بگاڑ میں سب کو مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button