تیسرا حصہ
عمران کھڑا ہے، کوئی سراغ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ تنویر اسے قریب سے دیکھتا ہے۔وہ بھی مدد کرنے لگتا ہے۔
ایکسٹو ( سکون سے )
ہاں بھئی جوان کچھ پتہ چلا؟
عمران نے پرعزم نگاہ سے ایکسٹو کی طرف دیکھا اور کہا۔
نہیں انکل کچھ بھی معلوم نہیں۔
جب بھیڑ منتشر ہوتی ہے، ایک پرسکون لمحہ میسر آ جاتا ہے اس وقت عمران ایکسٹو کے قریب کھڑا ہوتا ہے جب کچھ غیر معمولی ہوتا ہے۔ ایک ریشمی رومال اوپر سے گرتا ہے اور عمران وہ رومال خاموشی سے اٹھا لیتا ہے۔ وہ اسے اٹھاتا ہے، اندر ایک چھوٹا، صاف ستھرا خفیہ نوٹ دیکھتا ہے۔ پیغام پڑھتے ہی اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
مجھ سے نیو بارک کلب میں ملو ابھی پانچ منٹ کے اندر اندر۔
وہ کمرے کے اردگرد دیکھتا ہے، اس کا دل کہتا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو گڑ بڑ ضرور ہے۔ورنہ صحت مند فٹ بالر کھلاڑی ایسے کیسے مر سکتا ہے۔ تنویر عمران کے چہرے پر نمودار ہوتے ہوئے تاثرات دیکھ کر اس کی طرف بڑھا۔
تنویر ( اتفاق سے ) تم کہاں جا رہے ہو عمران؟ کچھ ضروری کام ہے کیا؟
عمران ( رومال کو مضبوطی سے پکڑنا )
مجھے ایک پیغام ملا ہے۔ جس نے بھی یہ دیا ہے… وہ چاہتے ہیں کہ میں ان سے ملوں۔لہزا تم جولیا کو لے کر واپس ہوٹل چلے جاو۔
ٹھیک ہے جناب اوکے پھر ملتے ہیں۔
عمران نیو بارک کلب میں داخل ہوتا ہے۔
کلب کے اندر، موسیقی بلند اور متحرک ہوتی ہے، لیکن ماحول عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ عمران داخلی دروازے سے گزرتا ہے، اس کی آنکھیں چاروں طرف گھومتی ہیں، کوئی سراغ ڈھونڈتی ہیں۔اسے کلب میں نیم عریاں لڑکیاں ڈانس کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔اس نے کلب کے بالکل آخر میں ایک سایہ دار بوتھ پر بیٹھے ایک شخصیت کو دیکھا – یہ تو ایکسٹو سر ہے۔
عمران فورا ایکسٹو سر کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔
ویٹر آتا ہے۔
سر کیا لینگے آپ؟
دو وہسکی لے آو ٹائٹ۔
عمران جانتا تھا کہ پینی تھوڑی ہے بس دیکھاوا کرنا ہے۔
لیکن کیسے؟ سر
وہ مر چکا تھا۔اور اسے قتل کیا گیا ہے۔ایکسٹو دھمے انداز میں بولا۔
( احتیاط سے قریب آنا ) اب آپ… آپ کو بھی جانا ہوگا۔
ایکسٹو ( مسکراتے ہوئے، بے پرواہ ) وہاں۔
مگر کہاں سر؟
ٹھیک ہے ، اگر آپ کو یہی یقین ہے، تو کھیل ابھی شروع ہوا ہے۔لیکن آپ کو محتاط رہنا ہوگا۔ یہاں ہر ایک کے اپنے راز ہیں۔ پہلے یہ فائل لو اور اسے پڑھو۔
عمران کا دل دھڑکتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ اب وہ کس پر بھروسہ کرے؟ کیا یہ شادی دفتر والے اس حد تک گر سکتے ہیں۔
جی ایسا ہی ہے عمران اس فائل میں تمام کوائف ثبوت اور نقشے درج ہے۔
عمران ( تیزی سے ) مگر سر یہ نقشہ تو صحرائی عللاقے کا ہے جو غالبا اسرائیل میں ہے۔آپ مجھے کیا بتانے کی کوشش کر رہے ہیں؟
ایکسٹو کی مسکراہٹ نمایاں ہو جاتی ہے، اس کی آنکھوں میں کسی خطرناک چیز کی سی جھلک دیکھائی دیتی ہے۔
ایکسٹو ( پراسرار طور پر ) بعض اوقات سب سے زیادہ غیر متوقع لوگ وہ ہوتے ہیں جن سے آپ کو سب سے زیادہ ڈرنا چاہئے۔ یہ یاد رکھیں: چیزیں ہمیشہ وہی نہیں ہوتیں جیسی وہ شادیوں میں نظر آتی ہیں۔اب یہاں بھی یہی معاملہ ہوا ہے۔
یہ قتل عام قتل نہیں تھا۔
بلکہ یہ خطرناک اور ظالم اڈھیر عمر یہودی مورس کے کارندوں کا کام ہے۔
جی سر میں نے یہ نام سنا ہے مورس غالبا یہ آدمی تل ابیب اسرائیل سے تعلق رکھتا ہے۔کوئی بڑا سرمایہ دار ہے شائد۔
سرمایہ دار نہیں عمران دنیا کا نمبر ایک ظالم،سفاک اور جابر یہودی ہے۔اسے دنیا بھر کے مسلمانوں کے سخت نفرت ہے۔اور اس لئے اس مورس نے ایکریمیا شوگران انان فان لینڈ دنیا میں جگہ جگہ خفیہ مراکز قائم کئے ہیں۔
اس کا ہیڈ کوارٹر اسی صحرائی علاقے میں ہے اور اس تنظیم کا نام بلیک آؤٹ ہے۔
یہ مورس یہودی اس کا سرابراہ ہے۔
ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری،اغوا،جوا،کار لفٹنگ غرض ہر غلط کام یہ لوگ کرتے ہیں۔
اور خاص کر مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔
اور اسی تنظیم نے ہمارے بین الاقوامی ہیرو ذیشان نصر کو بھی قتل کروایا ہے۔
اور مجھے یقین ہے کہ قاتل وہی دلہن ہے۔
مگر کیسے سر؟
مجھے ایجنٹ فائیو نے اطلاع دی ہے کہ دلہن یہودی مزھب سے تعلق رکھتی ہے۔اور یہ شادی محبت شادی دفتر کے توسط سے ہوئی تھی—-
اچھا اب میں سمجھا آپ مس گیسی کیساتھ کیوں کافی پی رہے تھے۔
مگر سر یہ مسلمانوں کو کیوں مار رہے ہیں؟
ایکسٹو "یہ ایک سیاسی حکمت عملی ہے، عمران۔ وہ کسی بھی مخالف آواز کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ان مسلمان لیڈروں کو مٹا دیں جو عوام کو متاثر کرتے ہیں، جو طاقتوں کو چیلنج کرتے ہیں۔ یہودی اپنے اثر و رسوخ، اور طاقت سے ایک نیا عالمی نظام۔”
قائم کرنا چائیے ہیں۔اور اس راستے میں روکاوٹ صرف مسلمان ہی ہے۔
عمران کا دماغ چکرا گیا۔ دولہا کی موت، عجیب رومال، ایکسٹو کی شمولیت — یہ سب ایک سادہ جرم سے بڑی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہودی اس قدر ذلیل قوم ہے۔
عمران:”سر مجھے کیا کرنا ہو گا؟”
ایکسٹو (اس کا لہجہ سنجیدہ ہو گیا) "میں اندر سے ان کے خلاف آپریشنز چلا رہا ہوں، لیکن میں اس سے اب بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوں۔ آپ اس تنظیم کی طاقت کی گہرائی کو تب تک نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ آپ اس میں نہ رہیں۔ لیکن میرا کام ہو گیا، میں آپ کو فائل دے رہا ہوں کیونکہ مجھے ان کو روکنے میں آپ کی مدد کرنے کا شوق ہے یہی موقع ہے۔
عمران نے دوبارہ فائل کی طرف دیکھا۔ اس نے اسرائیل میں نشان زدہ ہیڈ کوارٹر دیکھا، جس میں کوآرڈینیٹ اور مستقبل میں ہونے والے قتل کے تفصیلی منصوبے درج تھے۔
عمران: (خاموشی سے) "اور اس مشن کو میں پورا کرونگا؟ چاہے سب کچھ خطرے میں ہی کیوں نہ ہو؟”
ایکسٹو: (اپنے مشروب کا گھونٹ پیتے ہوئے، اس کی آنکھوں میں ہوشیاری کی جھلک) "کیونکہ میں نے بہت سے معصوموں کو مرتے دیکھا ہے۔میں نہیں چاہتا کہ پاکشیا کے ماہرین اور اہم لوگ اس تنظیم کے ہاتھوں کا نشانہ بنے۔کیا ٹھیک ہے کیا نہیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔”
تم مشن پے کل ہی روانہ ہو جاو۔
عمران نے الفاظ کو تولتے ہوئے اسے گھورا۔ کیا ایکسٹو سچ کہہ رہا تھا؟ کیا وہ اس طرح کے تنظیم کو شکست دے سکتا ہے — جو واضح طور پر ایسے تاریک نیٹ ورک کا حصہ رہا ہو؟
لیکن ثبوت بہت زیادہ تھے۔ یہ محض ایک بے ترتیب قتل نہیں تھا۔ بلکہ یہ بہت بڑی چیز کا حصہ تھا۔
اور علی عمران مس جولیا سے کہنا ایکسٹو کی شادی کو زیادہ سیریس مت لو۔
اور ہنستے ہوئے کلب سے نکل گئے۔
عمران اٹھ کھڑا ہوا، اس کا ذہن بنا ہوا تھا۔اب پیچھے مڑنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔کیونکہ جب پاکشیا کے عوام پر بات آتی تو دنیا کی کوئی طاقت اسے مقصد سے نہیں ہٹا سکتی تھی۔
عمران: "ٹھیک ہے۔ مجھے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟”
مسٹر علی عمران؟
خود سے بولتے ہوئے۔
(مسکراتے ہوئے) "میں اور آپ مس جولیا اور اسرائیل جائیں گے۔ ہم انہیں اندر سے مارے گے۔ وہ نہیں جانیں گے کہ انہیں کس چیز نے مارا اور کس طرف سے مارا۔”
عمران:(ٹھنڈے لہجے میں) "اگر یہودی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فائدے کے لیےمسلمان لوگوں کو ختم کر سکتے ہیں، تو وہ غلط ہیں۔ یہ اب ختم ہوتا ہے۔”
کہ کون ختم ہوتا ہے۔یہ فیصلہ اب میں کرونگا۔
کیونکہ عمران کے وطن پاکشیا کے مسلمان ہیرو ذیشان نصر کو تم یہودیوں نے بےگناہ قتل کیا ہے۔
میں اسکا بدلہ ضرور لونگا۔
عمران کا چہرہ عزم کے ساتھ سخت ہوتا ہے۔ اس کا فون بجتا ہے، لیکن وہ اسے نظر انداز کر دیتا ہے۔ وہ پہلے ہی اپنا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے۔ وہ آگے کے خطرات کو جانتا ہے، لیکن وہ ایک چیز بھی جانتا ہے: کبھی کبھی، زندہ رہنے کا واحد راستہ واپس لڑنا ہے۔اور زندہ رہنے کے لئے ظالموں کا راستہ روکنا ہی واحد حل ہے۔
ہوائی جہاز مصر کے قریب ہلچل سے بھرے جزیرے کے قریب گزرتا ہے۔ عمران، تنویر، اور جولیا ہوائی جہاز سے مرطوب، گرم ہوا والے غیر آباد صحرائی علاقے میں اترتے ہیں۔وہ محتاط نظروں سے آس پاس کے علاقوں کا اچھی طرح تجزیہ کرتے ہیں، ہر ایک کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مشن کیا ہے کتنس دور ہے اور کیا کرنا ہے۔ ہوائی اڈے سے گزرتے وقت تناؤ برقرار رہتا ہے۔کہ کہی یہودی کتے ہمیں پہچان نہ لیں لیکن عمران اور اسکے ساتھی گوروں کے روپ میں ٹورسٹ بن کے آئے تھے۔
جولیا:(اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے) "یہ لگتا ہے کہ واقعی موت کی وادی ہے… بنجر اور غیر آباد علاقہ ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم پہلے ہی یہاں موجود ہیں؟”
عمران:(سر ہلاتے ہوئے) "وہ شاید ہم کو پکڑ لیتے اگر ہم ایشائی روپ میں آتے۔ ہم بالکل پوشیدہ نہیں رہتے۔”مگر یہ یہودی جیسے خود سازشی اور خطرناک ہے ویسے ہی نصاری لوگوں کو بھی فتنہ پرور اور اپنا دوست سمجھتے ہیں۔
تنویر: (ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ) "لیکن وہ نہیں جانتے کہ ہم یہاں ان کے لیے آئے ہیں۔”
چلو اب ہوٹل چلتے ہیں۔کل پھر یہاں آئے گے اور پلان کے مطابق کام کرینگے۔
یہاں ایک فلسطینی بدو ہے جو ہم کو
ٹرانسپورٹ کا راستہ بنائے گے جو ہمیں ہوٹل تک لے جائے گی۔ کیونکہ اس وقت شہر مصروف، متحرک ہوتا ہے۔ ایک مختصر سواری کے بعد، وہ ہوٹل میں چیک ان کرتے ہیں۔ایک بلند ، جدید عمارت، یہ کافی اچھی عمارت لگتی ہے۔ ایک پتلی سی لڑکی استقبالیہ دروازے پر موجود ایک شائستہ مسکراہٹ کے ساتھ ان کے کمرے کی چابیاں دے دیتی ہے، لیکن اس کے دیکھنے کے انداز میں کچھ ایسا ہے جو جولیا کے ساتھ ٹھیک نہیں لگتا۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ہم پر نظر رکھ رہی ہے۔
—
ٹیم اپنے کمروں میں جا کر سوچتے ہیں کہ آیا انہیں دیکھا جا رہا ہے یا نہیں ۔ جولیا کھڑکی کے پاس بیٹھی آنکھیں نیچے کئے گلی کو سکین کر رہی تھی، جبکہ تنویر ایک بار پھر اپنے مشن کی فائل کا جائزہ لے رہا تھا۔ عمران دروازے کے ساتھ کھڑا ہے، باہر کی طرف دیکھ رہا ہے، لیکن وہ سائے میں چھپے خطرات سے بھی واقف ہوتا ہے۔
جولیا: (گھبرا کر) "عمران، کچھ گڑبڑ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم یہاں اکیلے نہیں ہیں۔”
عمران: (خود کو روکتے ہوئے، سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے) "میں متفق ہوں۔ ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف ایک عام مشن نہیں ہے۔”
بلکہ ہماری معمولی غلطی ہماری جان لے سکتی ہے۔
جیسے ہی عمران بولنا ختم کرتا ہے، ایک مدھم سی آہٹ سنائی دیتی ہے — کھڑکی پر کچھ سایہ سا نظر آ رہا تھا۔ عمران کی چھٹی حس بھڑک اٹھیں۔ وہ تیزی سے کھڑکی کی طرف بڑھتا ہے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس تک پہنچ پاتا، شیشہ اچانک ٹوٹ جاتا ہے، اور دو نقاب پوش آدمی ٹوٹے ہوئے شیشے میں سے کمرے میں گرتے ہیں۔
بدمعاش کافی مستعد اور تیز تھے، تمام سیاہ ماسک پہنے ہوئے تھے، ان کے چہرے سیاہ ماسک سے چھپے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک بھاری بھر کم بدمعاش جھولتے ہوئے عمران کی طرف لپکا۔ عمران نے ماہرانہ درستگی کے ساتھ اس کے سینے پر لات ماری اور حملہ آور کو دیوار سے ٹکرا کر گرا دیا۔
دوسرا حملہ آور عمران کے پیٹ کو نشانہ بناتے ہوئے چھری چلاتا ہے۔ عمران اپنے بازو سے بلیڈ پکڑتا ہے، اسٹیل اس کی جیکٹ کو کاٹتا ہے لیکن اس کی جلد تک نہیں پہنچتا۔وہ تیز رفتار حملوں کے ساتھ جوابی کارروائی کرتا ہے—
عمران پہلے جبڑے پر ایک گھونسہ مارتا ہے، پھر آدمی کے گھٹنے پر لات مار کر اس کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ عمران حملہ آور کو بازو سے پکڑ کر کمرے کی دوسری طرف پھینک دیتا ہے اور اسے فرش پر لیٹا کر چھوڑ دیتا ہے۔
پہلا نقاب پوش آدمی، ابتدائی کک سے زخمی ہو کر، عمران کطرف دوبارہ دوڑا۔ اس بار عمران تیار تھا۔ وہ آدمی کی ٹھوڑی کو ایک تیز اوپری کٹ پہنچاتا ہے، اسے ٹھنڈا کر دیتا ہے۔
وہ تڑپتا ہے اور چند لمحوں میں ٹھنڈا پڑ جاتا ہے
—
کمرہ افراتفری کا شکار ہوتا ہے – ٹوٹے ہوئے شیشے فرش پر بکھرے ہوئے ہیں، لڑائی میں فرنیچر گر کر ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔عمران دو بے ہوش حملہ آوروں کے اوپر کھڑا ہے، بھاری سانس لے رہا ہے، لیکن پرسکون ہے۔
اسی دوران صفدر اور تنویر بھی آ گئے۔
کیا ہوا عمران؟
ہم نے کچھ آوازیں سنی۔
عمران: (ٹھنڈے لہجے میں) "وہ پہلے سے ہمارا انتظار کر رہے تھے، ہم اتنے چھپے نہیں ہیں جتنا ہم نے سوچا تھا۔”
جولیا شیشے کے ٹکڑوں سے باہر جھانکتی ہوئی کھڑکی کی طرف بھاگی، لیکن وہ کسی کو نہیں دیکھ سکی۔
جولیا:(لرزتے ہوئے) "اب ہم کیا کریں گے؟”
کرنا کیا ہے یہاں سے ہمیں نکلنا ہے اور جلد از جلد صحرا پہنچنا ہے۔کیونکہ جو مشن کل ہمیں مکمل کرنا تھا۔وہ ابھی مکمل کرینگے۔
کیونکہ بلیک آوٹ تنظیم پہلے سے باخبر ہے۔
کہ ہم یہاں آئنگے۔
عمران دروازے کی طرف دیکھتا ہے، اس کا ذہن ان کی اگلی حرکت کا حساب لگا رہا ہوتا ہے۔ وہ ایک کرسی پکڑتا ہے، اسے دروازے کے چوکٹ کے نیچے باندھتا ہے، اور حملہ آوروں کو چیک کرتا ہے۔ نہ ہی کسی کے پاس ہتھیار ہے، لیکن ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک چھوٹا سا سیاہ فون ہے، سکرین پہ لکھا نظر آتا ہے کچھ ۔ اسکرین پر ایک ہی پیغام دیکھ کر عمران نے اسے اپنی جیب میں ڈالا۔
"وہ ہوٹل میں ہیں اب جاؤ۔”
عمران: (برہمی سے) "انہیں معلوم تھا کہ ہم یہاں ہوں گے۔ کسی نے انہیں اطلاع دی تھی۔”
میں نے بتایا تھا نہ کہ استقبالیہ پے وہ لڑکی کافی مشکوک تھی۔جولیا بولی۔
عمران دروازے کی طرف بڑھتا ہے اور اسے کھولتا ہے، تنویر کو اپنے ساتھ شامل ہونے کا اشارہ کرتا ہے۔
عمران: (مضبوطی سے) "ہمیں صفدر کے کمرے میں جانا ہے۔ وہ ہمارے لیے آئیں گے۔”ہم وہاں سے چھت سے جائیں گے۔وہاں ایک راستہ ہے۔
عمران تیزی سے دالان سے نیچے آیا، اس کے بعد جولیا، اس کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ وہ صفدر کے کمرے کے سامنے رکتا ہے، تین بار فوری دستک دیتا ہے۔جواب نہ ملنے پر سمجھ جاتے ہیں کہ کمرہ ابھی تک خالی ہے۔
عمران: (دروازے سے ہنستے ہوئے) "تنویر، کھولو، اس روشن دان کو زور سے کھولو۔
روشن دان آہستگی سے کھلتا ہے، اور تنویر باہر نکلتا ہے۔
تنویر: (آرام سے) "کیا ہوا؟”
جلدی اوپر آو زیادہ وقت نہیں ہمارے پاس۔
میں جانتا تھا کہ اس وقت کچھ غلط ہو رہا تھا جب ہم اترے تھے۔ آپ کا پیچھا کیا گیا تھا،عمران کیا آپ کو شک نہیں ہوا؟”
جولیا:(فوری طور پر) شک تو مجھے ہوا تھا مگر "اب ہم کیا کریں؟”
عمران نے تنویر کی طرف دیکھا جو فوراً سمجھ گیا۔ تنویر قریبی دراز سے اپنا بیگ وقت پے اٹھا لیتا ہے اور ایمرجنسی پاسپورٹ کا ایک سیٹ اور فون نکالتا ہے۔ساتھ میک اپ کا سامان بھی۔
تنویر: (برداشت سے) "ہم فوراً ہوٹل سے نکلتے ہیں۔ صرف وہی پیک کرتے ہیں جو ضروری ہو۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے چرچ جا رہے ہیں۔”
قریب ہی ایک چرچ ہے۔وہاں کوئی شک نہیں کرے گا۔
عمران: (سر ہلاتے ہوئے) "چلو چلتے ہیں۔”
وہ جگہ ٹھیک ہے۔وہاں میک اپ کرکے فادر کا روپ دھار لینگے۔
ان میں سے تینوں نے جلدی سے اپنا سامان باندھ لیا، درستگی اور پرعزم مقصد کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے بےخوف۔ وہ جانتے تھے کہ اس ہوٹل میں ان کا ٹکنا مزید خطرناک ہے۔ جیسے ہی وہ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔جولیا عمران کیطرف خفیہ نقشہ اچھال دیتی ہے۔
ٹیم رات کے وقت ہوٹل سے باہر نکلتی ہے، ان کے چہرے سکارف اور ٹوپیوں کے نیچے چھپے ہوتے ہیں۔ عمران راستے کی رہنمائی کرتا ہے، اس کے حواس تیز ہوتے ہیں، جب وہ مرکزی سڑکوں سے بچتے ہوئے پچھلی گلیوں سے گزرتے ہیں۔وہ لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں، شہر کے قلب میں غائب ہو جاتے ہیں۔