
آج کے دور میں غلامی کا لفظ سن کر ذہن میں زنجیروں میں جکڑے انسان کا تصور آتا ہے۔ لیکن جدید دور کی غلامی نے اپنا روپ بدل لیا ہے۔ آج کی سیاسی غلامی وہ نظر نہ آنے والی زنجیر ہے، جو لوگوں کے ذہنوں اور سوچوں کو جکڑے ہوئے ہے۔
ہمارے معاشرے میں سیاسی غلامی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہ وہ نظام ہے جہاں عوام کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ آزاد ہیں، لیکن حقیقت میں ان کی ہر سوچ، ہر فیصلہ، کسی نہ کسی طاقتور طبقے کے مفادات سے جڑا ہوتا ہے۔ لوگوں کو ووٹ کا حق تو ملا ہے، لیکن انتخاب کی آزادی محدود ہے۔
سیاسی غلامی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے، تو اسے ورثے میں سیاسی وابستگی ملتی ہے۔ اس کی سوچ، اس کے خیالات، اس کی سیاسی وفاداریاں، سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ وہ بڑا ہوتا ہے تو اسی سیاسی ماحول میں سانس لیتا ہے، جہاں آزادانہ سوچ کی گنجائش نہیں ہوتی۔
معاشی غلامی بھی سیاسی غلامی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ جب عوام کی معاشی حالت کمزور ہو، تو وہ آسانی سے بکتے اور خریدے جا سکتے ہیں۔ ایک ووٹ کی قیمت کبھی چند سو روپے ہوتی ہے، کبھی ایک وقت کی روٹی، اور کبھی نوکری کا جھانسا۔ یہ معاشی مجبوریاں لوگوں کو سیاسی غلامی کی طرف دھکیلتی ہیں۔
میڈیا نے بھی سیاسی غلامی کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خبروں کی دنیا میں سچ اور جھوٹ کا فرق مٹ چکا ہے۔ ہر چینل، ہر اخبار کسی نہ کسی سیاسی مفاد کا محافظ بن چکا ہے۔ عوام کو وہی دکھایا اور سنایا جاتا ہے، جو طاقتور طبقہ چاہتا ہے۔
تعلیم، جو کہ آزادی کا سب سے بڑا ذریعہ ہونی چاہیے، وہ بھی سیاسی غلامی کا شکار ہے۔ نصاب میں وہی شامل کیا جاتا ہے جو حکمرانوں کے مفاد میں ہو۔ تنقیدی سوچ کو دبایا جاتا ہے۔ طلبہ کو سوچنے کی آزادی تو دی جاتی ہے، لیکن سوچ کی سمت پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔
سیاسی غلامی کا ایک اور روپ ہے – خوف کی سیاست۔ لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے کہ اگر وہ فلاں کو ووٹ نہیں دیں گے تو ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ کبھی مذہب کا خوف، کبھی نسل کا خوف، اور کبھی معاشی تباہی کا خوف۔ یہ خوف لوگوں کو سوچنے سے روکتا ہے۔
لیکن ہر تاریکی کے بعد روشنی کی کرن ضرور نکلتی ہے۔ آج نئی نسل سیاسی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو آواز دی ہے۔ نوجوان اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ سیاسی غلامی صرف ان کا نہیں، پورے معاشرے کا نقصان ہے۔
سیاسی غلامی سے نجات کا راستہ آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے تعلیم، شعور، اور عزم کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو سیاسی شعور دینا ہوگا۔ انہیں سکھانا ہوگا کہ وہ کسی ایک سیاسی نظریے کے پیچھے اندھے ہو کر نہ چلیں، بلکہ ہر بات کو سمجھیں، سوچیں، اور پھر فیصلہ کریں۔
سیاسی غلامی کی زنجیریں توڑنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کو آزاد کرنا ہوگا، اپنے فیصلوں کو آزاد کرنا ہوگا۔ کیونکہ جب تک ہم سیاسی غلامی کے شکار رہیں گے، ہماری ترقی، ہماری خوشحالی، ہمارا مستقبل، سب کچھ دوسروں کے ہاتھوں میں رہے گا۔