آج ہم تذکرہ کریں گے ایک ایسے شاعر کا جنہیں غالب اور اقبال کے بعد اتنی زیادہ شہرت حاصل ہوئی کہ اردو کے کسی دوسرے شاعر کو شاید ہی اتنی شہرت نصیب ہوئی ہو۔ وہ ہیں فیض جنہیں بیسویں صدی کے سب سے بڑے انقلابی شعراء میں شمار کیا جاتا ہے، وہ بلاشبہ اپنے عہد کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ فیض احمد فیض جیسے شاعر اور عظیم انسان روز روز نہیں بلکہ کئی صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے محبت، انقلاب، اور انسانی حقوق کے پیغام کو عام کرنے میں کامیاب رہے۔ فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ظلم، نا انصافی اور جبر و استبداد کے خلاف اپنی شاعری کے ذریعے جدوجہد کی۔ ان کا کلام ایک منفرد امتزاج پیش کرتا ہے، جہاں محبت اور حسن کے نازک جذبات سماجی انصاف اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے ساتھ یکجا نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری نہ صرف اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہے بلکہ مظلوموں کے حقوق کی آواز بھی ہے۔ فیض کی زندگی جدوجہد اور قربانیوں کی ایک داستان ہے، وہ ترقی پسند تحریک کے رہنما تھے، اور ان کی شاعری نے معاشرتی برائیوں، استحصال، اور آمریت کے خلاف لوگوں کو بیدار کیا۔ ان کا کلام جیسے "دستِ صبا”, "زنداں نامہ” اور "نقشِ فریادی” ظلم کے خلاف جدوجہد اور امید کی شمع بنے۔ ان کی ’ہم دیکھیں گے‘ جیسی نظم آج بھی مظلوموں کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہے اور دنیا بھر میں آزادی اور انصاف کے لیے ہونے والے مظاہروں میں گونجتی ہے۔ فیض احمد فیض کی یہ نظم نہ صرف ان کی انقلابی سوچ کی عکاسی کرتی ہے بلکہ ان کے ناقابل شکست حوصلے کی علامت بھی ہے۔ فیض احمد فیض کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازات ملے، جن میں 1962 کا ’لینن امن‘ انعام شامل ہے۔ ان کی شاعری کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا جو آج بھی دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ فیض احمد فیض 20 نومبر 1984ء کو 73 برس کی عمر میں مداحوں سے بچھڑ گئے، فیض احمد فیض 20 نومبر 1984ء کو وفات پا گئے اور لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ان کی شاعری آج بھی ہمیں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے کی اُمید دیتی ہے، فیض احمد فیض کا کلام ان کے مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور ان کا فلسفہ محبت اور انقلاب کا پیغام دیتا رہے گا۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ فیض احمد فیض کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین