چترال (سیدنذیرحسین شاہ ) آغاخان رورل سپورٹ پروگرام کے صحت مندخاندان پراجیکٹ زیراہتمام اقوام متحدہ کے ادارہ یو این ایف پی اے اورکینیڈین حکومت کی مالی معاونت سے اپراورلوئرچترال میں کم عمری میں مرضی کے خلاف شادی اوردوسرے موضوعات پردوروزہ سیشن کاانعقاد کیاگیا ۔جس میں اپراورلوئرچترال کے 16یوسیز کے ایڈولینس سنٹرکے مینٹور،سی بی ایس جی ،اے اے سی کے ممبران ، لوکل سپورٹ تنظیموں (ایل ایس اوز) اورایس ایم کے پراجیکٹ کے بینی فیشری 200 کے قریب خواتین وحضرات نے شرکت کی ۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایریامنیجراے کے آرایس پی اپرچترال عطاء اللہ ،ریجنل کوآرڈینیٹر ایس ایم کے پراجیکٹ اے کے آر ایس پی چترال شمیم اختر اوردوسروں نے کہاکہ کم عمری کی شادی کے مختلف نتائج ہوتے ہیں۔ جو لڑکیاں جلد میرج کرتی ہیں وہ بہت سی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی صحت کی پیچیدگیوں کا شکار ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کم عمری میں مرضی کے خلاف شادی، چترال سے باہر بغیر چھان بین کے شادی کرانا، گھریلو فیصلوں میں مکمل نظر انداز کرنا اور پدری جائداد میں حق وراثت سے محرومی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے ۔انہوں نے کہاکہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے انہیں اس کے فوری اور طویل مدتی نتائج کا سامنا رہتا ہے۔ ان کے سکول میں زیرتعلیم رہنے کا امکان کم ہوتا ہے اور قبل از وقت حاملہ ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جس کا نتیجہ زچہ بچہ کی صحت سے متعلق پیچیدگیوں اور اموات کے خدشات میں اضافے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔کم عمری میں شادی کے نتیجے میں لڑکیاں اپنے خاندان اور دوستوں سے بھی دور ہو جاتی ہیں اور سماجی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہو سکتیں جس سے ان کی ذہنی صحت و بہبود کو بھاری نقصان پہنچتا ہے۔
مزید پڑھیں: با ران رحمت کے لئے عوام کا نماز استسقیٰ
انہوں نے کہاکہ کم عمر لڑکوں کی شادی معیشت پر اس طرح براہ راست اثر انداز ہوتی ہے کہ اکثر شادی کے بعد ایسے نابالغ افراد کی تعلیم رک جاتی ہے، ان کا کیریئر بننے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے اور وہ معاشرے کے مفید شہری بننے کے بجائے اپنی زندگی ایک بوجھ کی صورت بسر کرتے ہیں۔ ناسمجھی کی شادیاں جہاں لڑائی جھگڑوں کا باعث بنتی ہیں وہاں گھریلو تشدد اور دیگر اقسام کی پریشانیوں کا بھی موجب بنتی ہیں۔ ایسی شادیاں کسی بھی صنف کی فلاح و بہبود کو کسی بھی طرح سے نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کم عمری کی شادیوں سے متعلق اعداد و شمار بہت پریشان کن ہیں۔ ہمارا ملک کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ 2019 کے سروے کے مطابق ملک میں اکیس فیصد لڑکیوں کی شادیاں اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہیں جبکہ تیرہ فیصد بچیاں تو اپنی عمر کے چودہویں سال میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔خواتین کو ہر جگہ تحفظ کا احساس ملے۔ خواتین پرتشدد کو روکنے اور کم عمری کی شادی کے معاملے پر آگاہی پیدا کرنے کی کوششوں میں علماء اور میڈیا کا انتہائی اہم کردار ہے،کم عمری کی شاد ی کے سخت سماجی ومعاشی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔دین اسلام میں ہے کہ جب لڑکی اورلڑکابلوغت کی عمرکوپہنچیں فوری طورپراُن کانکاح کردیاجائے تاکہ وہ ہرقسم کی برائی سے بچے رہیں ۔