
تمام اہل اسلام اور اہل وطن کو عید الفطر کی خوشیوں کی مبارک باد پیش کرتی ہوں امید ہے عید الفطر کا چاند آپ کی زندگی کے ہر کونے کو محبت آور خوشیوں سے روشن کرے عید الفطر ہمیں بھائی چارے اور اتحاد اتفاق کا درس دیتی ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ پورے ملک میں امن و امان قائم و دائم رکھے اور عید الفطر کی خوشیوں کو برقرار رکھے۔ اللہ تعالیٰ تمام محافظوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور پوری کائنات پر اپنی شفقت اور رحم قائم رکھے اور برکتوں سے نوازے۔آمین۔
انتیسویں رمضان کو میں نے انیس اشفاق کے ناول دیکھیارے کو پڑھنا شروع کیا اور تقریبا پہلے ہی دن آخر تک پڑھ لیا،بس دو تین صفحات رہتے تھے،جو آج یعنی عید کے دن پورے کئے۔آج ناول مکمل ہوا تو سوچا کہ کیوں نہ قارئین کے لئے کچھ لکھا جائے۔یہ ناول
اُردو ادب کے معروف محقق ، نقاد اور نامور فکشن نگار پروفیسر ڈاکٹر انیس اشفاق جو کہ 1950 میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے انکا لکھا ہوا ہے۔بہت ہی دلچسپ اور مزیدار ناول ہے۔بلکہ آپ لوگ انہیں ایک پرانا خزانہ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس میں پرانے وقتوں کی اور پرانے نادار عمارتوں کی کافی معلومات ہیں۔انیس اشفاق صاحب کا سٹائل ایسا ہی ہے کہ آپ لوگ فکشن پڑھ رہے ہونگے مگر لگتا نہیں کہ یہ فکشن ہے بلکہ سب کچھ حقیقت اورآنکھوں کے سامنے مناظر کی شکل میں دیکھائی دیتا ہے۔زبردست منظرنگاری اور نقشہ کھینچتے ہیں۔
انیس اشفاق کا یہ ناول ” دکھیارے” لکھنؤ کا نوحہ ہے۔لکھنؤ کے بسنے اور اجڑنے کی داستان ہے جو کئی کرداروں کی صورت میں سامنی آتی ہے۔مثال کے طور پر ایک کردار ناصر کی شکل میں جو کہ بڑے بھیا ہوتے ہیں۔لکھنؤ کی سماجی زندگی کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ناول لکھنؤ کی تہذیب کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے۔کہ انیس اشفاق صاحب کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح وقت کے ساتھ حالات اور واقعات بدل جاتے ہیں۔کس طرح تہذیب بنتی ہے، سنورتی ہے اور بکھرتی ہے۔پہلے زمانے میں کس طرح لی شاندار عمارتیں ہوتی تھی۔اور اب وہی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔کبھی وہ جگہیں جہاں پرانے زمانے میں حویلیاں ہوتی تھیں اب وہاں جدید مکان بن گئے ہیں۔جگہ جگہ لوگوں کے جھگڑے اور فسادات شروع ہو گئے ہیں۔آسان الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ انیس اشفاق کے ناول اپنے اندر لکھنوی تہذیب کے مٹنے کےنوحےسموئے ہوتے ہیں۔چاہے پھر یہ ان کا ناول پری ناز اور پرندے ہو، خواب سراب یا پھر دکھیارے۔۔یوں محسوس ہوتا انیس اپنے محبوب شہر کی تہذیب کے روشن چراغ بجھنے سے پہلے ہی اپنے اوراق پر اتار لینا چاہتے ہیں،اورانکے بارے میں ہمیں مفید معلومات دینا چاہتے ہیں۔
ناول سے اقتباس۔۔۔
عزیز کے مکان سے نکل کر میں حسین آباد والی سڑک پر آیا پھر داہنی جانب مڑکر چھوٹے امام باڑے پہنچا، وہاں سے جامع مسجد کے پیچھے والی گلی کی طرف مڑا ۔ گلی پار کرتے
ہی اس سڑک پر آنکلا جس کے دوسری طرف نشیب میں میاں الماس کا امام باڑہ تھا۔ ڈھلان سے اتر کر میں امام باڑے کے پھاٹک پر آیا۔ امام باڑے کے چاروں طرف محنت مزدوری کرنے والوں کی گھنی آبادی تھی۔ ان سب نے امام باڑے کے اطراف میں ایک کے بعد ایک اپنے گھر اس طرح بنا لیے تھے کہ امام باڑے کی چہار دیواری نظر نہیں آتی تھی۔ پھاٹک سے گزر کر میں امام باڑے کے اندر پہنچا تو دیکھا کہ وہاں بھی اچھے خاصے لوگ صحنچیوں میں آباد ہیں۔ امام باڑے کی حالت اچھی نہیں تھی ۔ اس کے گنبدوں پر گھاس اگی ہوئی تھی اور دیواروں کا پلاستر جگہ جگہ سے اکھڑ جانے کی وجہ سے ان کی اینٹیں دکھائی دینے لگی تھیں۔ دیواروں کی کارنسوں پر قرآنی آیات کی خوبصورت خطاطی قریب قریب مٹ چکی تھی۔ ستونوں اور محرابوں کی نقاشی بھی نام کو باقی رہ گئی تھی۔ امام باڑے سے متصل مسجد کے حوض میں ادھر اُدھر کا جھاڑ جھنکاڑ بھرا تھا اور اس کے ہال میں جگہ جگہ جالے لگے ہوئے تھے اور جھاڑ فانوس کے نام پر زنگ لگی ہوئی کچھ زنجیریں چھتوں سے لٹک رہی تھیں۔
شروع سے ہی مجھے یہ ناول بہت اچھا لگا کیونکہ اس میں ایک تہذیب کے زوال کو جس خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے وہ اس ناول کو عمدہ بناتا ہے۔ایک بوسیدگی اور شکست خوردگی ہے جو لوگوں، رشتوں، رویوں، اور عمارتوں پر چھائی ہے۔ایک سڑاند ہے جو لوگوں کو پاگل کرتی پھر رہی ہے۔ناول نگار بار بار لکھتے ہیں کہ فلاں عمارت میں فلاں صاحب رہتے تھے مگر آج وہ زندہ نہیں،یا انکی اولاد عمارت فروخت کرکے جا چکی ہے۔ماضی کے آسیب چیختے چلاتے اور کبھی نوحہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مثال کے طور پر ناول سے ایک اقتباس۔۔۔
میاں الماس کا امام باڑہ شیش محل سے بہت دور نہیں تھا۔ قیصر خالہ سے بھائی کا پتہ کا دور معلوم ہو جانے کے بعد مجھے ان سے ملنے کی بے چینی بہت تھی لیکن پہلے میں اپنے عزیز سے ملنے شیش محل گیا۔ ادھر میرا آنا برسوں بعد ہوا تھا۔ محل کے احاطے میں داخل ہوتے ہی ایک بات مجھے کھٹکی محل کا دروازہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اور جب میں محل کے اصل حصے میں داخل ہوا تو وہاں کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ شاہی زمانے کی عمارتوں کی جگہ اب ہر طرف نئی طرز کے پکے مکان دکھائی دے رہے تھے ۔ اصل محل کا بس ایک آدھ حصہ باقی رہ گیا تھا جسے دیکھ کر یہ اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ محل کا بقیہ حصہ کس طرح کا رہا ہوگا۔ محل کے اندر والے حصے میں ایک بڑا شاہی تالاب تھا جس کے دوسری طرف کا علاقہ غیر آباد تھا۔ اس تالاب میں محل کے اصل مین شغل کے طور پر گھنٹوں بیٹھ کر مچھلی کا شکار کھیلا کرتے تھے اور کبھی کبھی یہاں پیرا کی کے مظاہرے بھی ہوتے تھے لیکن اب تالاب کا پانی بہت گندا ہو چکا تھا اور اس کے چاروں طرف پختہ عمارتیں بن چکی تھیں۔ مجھے اپنے عزیز کا مکان ڈھونڈنے میں بہت دشواری ہوئی۔ مکان اپنی پرانی جگہ پر تھا لیکن نئے مکانوں کے جنگل میں چھپ گیا تھا۔ مکان کیا ایک پوری حویلی تھی جس کے بہت پرانے اور بہت بڑے دروازے پر لوہے کی ایک بڑی اور وزنی زنجیر لٹک رہی تھی ۔ میں نے اسی زنجیر کو ہلا کر دستک دی لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں ملا۔ میں نے زنجیر پھر ہلائی لیکن پھر کوئی جواب نہیں ملا۔ مجھے زنجیر کھٹکھٹاتے ہوئے دیکھ کر ادھر سے گزرنے والے ایک شخص نے کہا: ڈیوڑھی کے اندر جا کر پکاریے، میر صاحب سورہے ہوں گے ۔“
کوئی اور نہیں ہے؟“ میں نے پوچھا۔
لوگوں کی زندگیاں ماضی کی شان و شوکت کی واپسی کے خواب دیکھتے خاک ہوگئیں۔کچھ باقی نہیں رہا ،کوئی دن گزرے گا اور اس تہذیب کا نوحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔اس ناول میں آپکو لکھنوی انداز ملے گا۔رکھ رکھاو اور رشتوں کا اٹوٹ بندھن بھی ملے گا۔ بنیادی طور پر یہ ناول لکھنؤ کے ایک گھرانے کی کہانی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ کئی قسم کے حالات و واقعات میں زندگی بسر کرتا ہے۔اس ناول کی کہانی عالیہ بیگم اور اس کے بیٹوں کی اردگرد گھومتی رہتی ہیں۔عالیہ بیگم ایک محنت کش عورت ہوتی ہے۔جو کہ بیوہ ہوتی ہے،جس کے تین بیٹے ہوتے ہیں۔ عالیہ آپنی پوری زندگی محنت کر کے اپنے بچوں کو پالتی ہے اور بالآخر بیماری کی وجہ سے فوت ہو جاتی ہے۔ سب سے بڑا بیٹا ناصر پیدائشی طور پر دماغی خلل کا شکار ہوتا ہے ۔اس کا درمیان والا بیٹا اپنا کاروبار کرنے لگ جاتا ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا ذاکر پڑھ کے نوکری کرتا ہے۔اس ناول کا اہم کردار بڑے بھیا جن کا نام ناصر ہوتا ہے مزاج کے بہت ہی نفیس اور شاعری سے لگاو رکھتے ہیں۔۔مگر دماغی خلل کیوجہ سے کہی مستقل طور پر رہتے نہیں۔کبھی ایک جگہ ہوتے ہیں تو کبھی دوسری جگہ۔ماں کے مرنے کے بعد تو ناصر بالکل ہی بےاسرا ہو گئے تھے۔مگر کبھی امام باڑوں میں کبھی مسجدوں میں اور گرجا گروں میں رہتے تھے۔بڑا بیٹا ساری زندگی کبھی مساجد میں کبھی امام باڑوں میں گزارتا ہے اس کا چھوٹا بھائی ذاکر اس کو کئی بار اپنے گھر لے جاتا ہے مگر وہ ہر بار گھر سے بھاگ جاتا ہے۔کیونکہ ماں نے مرنے سے پہلے چھوٹے بیٹے ذاکر کو نصیحت کی ہوتی ہے کہ اپنے بڑے بھائی کا خیال رکھنا اور اسکے دماغی خلل کیوجہ سے غفلت مٹ برتنا۔ایک بار تو ناصر گرجا گھر میں دن رات گزارتا ہے اور لوگ کہتے ہیں ذاکر سے کہ آپکا بڑا بھائی تو عیسائی بن چکا ہے۔
تو ذاکر اپنے بھائی کا حال جاننے در در گھومتا ہے بالآخر اسے پتہ مل جاتا ہے۔ناول سے اقتباس۔۔۔
میں جس مکان کے بالائی حصے میں کرائے پر رو رہا تھا، ایک دن اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو بھائی سامنے کھڑے تھے۔انھوں نے سفید رنگ کا چغہ پہن رکھا تھا اور ڈاڑھی اور سر کے بالوں کو اس طرح ترشوایا تھا کہ دور سے بالکل عیسائی معلوم ہوتے تھے۔ میں نے ان سے اندر آنے کے لیے کہا۔ وہ کمرے کے اندر آئے اور کرسی پر بیٹھتے
ہی مجھ سے پوچھا:
” کیسے ہو؟“
ٹھیک ہوں ۔ اور آپ ؟
میں بھی ٹھیک ہوں۔“
کہاں رہے ….. اتنے دن ۔ میں نے پوچھا۔
شہر ہی میں تھا۔“
یہ میں نے ان کے لباس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیڈ کو زرا کھینچ کر ادا کیا۔
مذہب بدل لیا ہے میں نے ۔ عیسائی ہو گیا ہوں ۔
کب؟”
جواب دینے کے بجائے انھوں نے کہا: ” پہلے پانی پلاؤ ۔
میں پانی لے کر آیا تو بولے : ” تم بھی عیسائی ہو جاؤ، بہت اچھا مذہب ہے۔“ پھر بولے:
پرسوں ماں سے ملاقات ہوئی تھی ۔ یہاں آئی تھی کیا ؟ ماں تو مر چکی ہے ۔ ” میں نے کہا۔ کب؟ وہ اچھل پڑے۔ پھر غصے سے بولے! ” تم جھوٹ بول رہے ہو۔
پرسوں ہی تو ہماری ملاقات ہوئی ہے۔ ہم دونوں نے بہت دیر تک باتیں کیں ۔“ ماں مر چکی ہے ۔ میں نے زور دے کر کہا۔
”اچھا تو کہاں دفن کیا اسے “ ۔ انھوں نے پوچھا۔ عیش باغ کی کربلا میں ۔“ جنازے میں کتنے لوگ تھے؟“
اسی طرح ایک بار پھر بڑے بھائی گم ہو جاتے ہیں اور کچھ پتہ نہیں چلتا۔ذاکر سارا دن تلاش کرتا ہے اور بالآخر پھر سے اپنے بڑے بھائی کو تلاش کر لیتا ہے تو اس بار بڑے بھائی مسجد میں تھے۔ناول سے اقتباس۔۔۔
میں صحنچی میں داخل ہوا تو انھوں نے قرآن بند کر کے جزدان میں رکھا اور اسے رحل پر رکھ کر بیچ میں بنے ہوئے طاقوں میں سے ایک طاق پر رکھ دیا۔ پھر بچوں سے بولے:
جاؤ اب کل آتا ۔”
بچوں کے جانے کے بعد انھوں نے اس چٹائی پر جس پر وہ خود بیٹھے ہوئے تھے، مجھے چٹائی پر
بٹھاتے ہوئے کہا:
تو پتہ لگا لیا تم نے میرے ٹھکانے کا۔“
ماں کی ایک جاننے والی ملی تھیں آج ، رئیس منزل کے پاس۔“
’ہاں ….. ہاں۔ پرسوں آئی تھیں یہاں ، اپنے کسی عزیز سے ملنے ۔‘ انھوں نے میری بات ختم ہونے سے پہلے کہا۔ پھر بولے: "میرے پاس بھی دیر تک بیٹھیں، پرانی باتیں یاد کرتی رہیں۔ تمہیں اور منجھلے کو پوچھ رہی تھیں ۔ پھر زرارک کر بولے:
اب بتاؤ کیوں آئے ہو؟“
آپ کو لینے ۔ “ یہ سنتے ہی انھوں نے تیوریوں پر بل دیتے ہوئے کہا:
میں یہیں ٹھیک ہوں ۔“
یہاں ….. اتنی سی جگہ ….!
ہر طرح کا آرام ہے یہاں۔“ وہ بولے۔ پھر کہا: ” بچے دوڑ دوڑ کر کام کرتے ہیں۔“
کھانا پینا …..؟؟ میں نے پوچھا۔
کبھی باہر سے منگالیتا ہوں۔ کبھی یہیں والے، ان بچوں کے والدین پکا دیتے ہیں ۔“ آپ بچوں کو قرآن پڑھا رہے تھے؟“ میں نے پوچھا۔
ہاں کیوں؟“
” آپ تو عیسائی …
ہو گیا تھا، کچھ دن کے لیے ۔ انھوں نے کہا۔ پھر بنتے ہوئے بولے: ” میاں سب سے اچھا اپنا مذہب ہے، اسلام ۔” پھر پوچھا: ” یہاں پہلی بار آئے ہو؟“
ہاں۔
بڑے بھائی واقعی کمال کے بندے تھے پورے ناول میں اگرچہ انکے دماغ میں خلل تھا مگر انکی شخصیت بہت ہی ملنسار،ہمدرد اور دلچسپ تھی،
آخر کار پچاس برس کی عمر میں گردوں کی بیماری کی وجہ سے اس کا انتقال ہو جاتا ہے۔ آخری بار جب وہ امام باڑے میں رہنے کے لئے جاتا ہے تو وہاں اس کے ساتھ ایک عورت رہتی ہے جس کی دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوتی ہے۔ چھوٹا بھائی اپنے بھائی سے ملنے کے لئے جاتا ہے تو لڑکی سے اس کے رسم و راہ بڑھ جاتے ہیں۔اس لڑکی نام شمامہ ہوتا ہے۔اور ذاکر کو لگتا ہے کہ اسکی شکل سائرہ سے بہت ملتی ہے۔اپنے بڑے بھائی کی وفات کے بعد وہ دوبارہ اس پ0شمامہ کو ڈھونڈنے جگہ جگہ جاتا ہے مگر وہ نہیں ملتی۔ اس طرح وہ اپنی ساری زندگی اپنے بھائی کی محبت میں اکیلا رہ کر گزار دیتا ہے۔اور اس کا دیا ہوا آخری تحفہ ( جو کے ایک کڑھا ہوا کرتا تھا) ساری زندگی اپنے پاس محفوظ کر کے رکھتا ہے۔
اسی طرح ناصر کبھی امام باڑے کبھی مسجد میں رہتا ہے۔اور اسکا چھوٹا بھائی ذاکر اسے ہمیشہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ناصر کو ایک دن اپنا ہم مزاج دوست مل جاتا ہے اور اسکے ساتھ گپیں لگاتا ہے۔جو کہ ایک امیر اور خاندانی بندہ ہوتا ہے آغا سودائی۔دلچسپ کردار آغا سودائی کا ہے جو اپنے آباؤ اجداد کی بچی کچی زمینیں اور ترکا بیچ دیتا ہے اور اسی دکھ میں سب کچھ لٹانے کے بعد پاگل ہو جاتا ہے۔
ناول سے اقتباس
ایک اقتباس آغا سودائی کے بارے میں:
"‘بہت کمزور ہو گئے ہیں، اتنی دور پیدل نہیں آ سکتے۔ یہ بھی کہتے تھے کہ بڑے آغا کی قبر پر جاتے ہوئے جی لرزتا ہے۔’
‘جب آتے تھے تب بھی یہی کہتے تھے کہ آ تو جاتا ہوں، لیکن جتنی دیر رہتا ہوں، جی لرزتا رہتا ہے۔’ یہ کہنے کے بعد موذن نے کہا: ‘ایک عمر کے بعد سب کو پچھتاوا ہوتا ہے اپنے کیے کا۔'”
پورے ناول میں مجھے خواتین کے کردار بھی اچھے لگے کیونکہ کبھی مزیدار کھانا بنا رہی ہے،تو کبھی ناصر کی خاطر مدارت کر رہی ہے۔اگر بھابھی ہے تو وہ بھی خلوص سے خدمت کر رہی ہے اگر جان پہچان کی خاتون ہے تو وہ بھی مزے مزے کے کھانے بنا رہی ہیں۔اسکے علاوہ ایک لڑکی کا کردار سائرہ نامی لڑکی کا بھی ہے۔جو ناصر کے چھوٹے بھائی ذاکر کو پسند ہوتی ہے۔
یہ لڑکی عالیہ بیگم کے پاس پڑھنے آتی ہے اور سب سے چھوٹے بیٹے ذاکر کو اس سے محبت ہو جاتی ہے مگر اس کی شادی اس کے گھر والوں ایک بڑی عمر کے آدمی سے کر دیتے ہیں۔ شادی کے تین ماہ بعد وہ اپنے گھر واپس آ جاتی ہے اور جوانی میں ہی اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
ناول سے اقتباس:-
یہ قبر اس کی تھی جو کہ ماں کہ مکتب میں میری ہم جماعت تھی اور جسے ماں بہت عزیز رکھتی تھی اور سبق یاد کرتے وقت جب وہ مجھے ستاتی تھی اور میں ماں سے اس کی شکایت کرتا تھا تو ماں کہتی تھی:
” یہی بنے گی تیری دلہن ”
مختصراً” دکھیارے ” ایک بہترین ناول ہے۔ یہ بک کارنر جہلم سے شائع ہوئی ہے۔ آپ بھی پڑھیں اور لطف اندوز ہوں۔کیونکہ یہ ایک چھپا ہوا خزانہ پے۔جس میں تعمیرات کا ذکر ہے اور پڑھنے کے لئے دلچسپ مواد ہے۔شکریہ۔