٫٫رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ اور ہمارے بے خبر شہری،،

تحریر :سبحا ن اللہ

Spread the love

پاکستان کا شمار دنیا کے ان 130 ممالک میں ہوتا ہے جہاں آئینی طور پر شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے سرکاری اداروں سے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور ان کی کارکردگی کے بارے میں اپنے آپ کو باخبر رکھیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے زیادہ تر شہری اس سے بلکل بے خبر ہے جسکی وجہ سے شہریوں کا سرکاری اداروں پر ہر گزرتے دن اعتماد کم ہوتا جارہا ہے۔
پاکستان میں سب سے پہلا صوبہ خیبر پختونخوا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 2013 میں "رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ” باضابطہ طور پر نافذ کیا گیا جس کے بعد سرکاری معلومات کا حصول ممکن ہوگیا ہے۔ اس قانون کے تحت شہریوں کو سرکاری اداروں کی کارکردگی، ملازمین کی تنخواہوں اور انہیں حاصل مراعات سمیت اپنے علاقے میں ترقیاتی کاموں پر کیے گئے اخراجات سے متعلق معلومات بھی حاصل کرسکتے ہیں، شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کی جانب سے ادا کیے گئے ٹیکسوں سے کونسی ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں یا سرکاری محکموں میں بھرتیوں سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ان قوانین کو استعمال کرسکتے ہیں جبکہ سماجی تنظیمیں ان محکموں کو ملنے والے بجٹ آور اس کے استعمال سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے بھی ان قوانین کو استعمال کرسکتے ہیں۔
اس قانون کے مطابق ایک شہری کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو وزیراعلی، گورنر یا کسی بھی وزیر مشیر سے یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کے ہمراہ کسی بیرون ملک یا اندرون ملک دورے پر کون کون گئے تھے، کتنے اخرجات ہوئے، ہوٹلز اور کھانے کے بل کتنے تھے وغیرہ وغیرہ ۔
اس قانون میں دلچسپ بات یہ ہے کہ شہری کو یہ بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ وہ معلومات کس مقصد کیلئے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اب ایک عام شہری کس بھی عوامی ادارے کے سربراہ سے سوال کر سکتا ہے اور اسکے ساتھ ہر ادارہ اپنی معلومات اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے گا جو بھی سوال ہوگا اس کا جواب دینا لازم ہوگا ۔
اقوام متحدہ کی چارٹر کے مطابق معلومات تک رسائی انسان کا بنیادی حق ہے اور تمام ممبر ممالک پابند ہے کہ وہ اپنی شہریوں کو معلومات تک رسائی کو ممکن بنائیں۔ معلومات تک رسائی کے حق کو سب سے پہلے سویڈن نے 1776 میں قانون کے طور پر منظور کیا۔ 2013 تک تقریباً 95 ممالک نے فریڈم آف انفارمیشن کا قانون منظور کیا۔ اگر ہم ایشیاء کی بات کرے تو 49 ممالک میں صرف 15 ممالک میں معلومات تک رسائی کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور خوش قسمتی سے پاکستان بھی اس میں شامل ہے۔ اس قانون میں بعض معلومات کو عام نہیں کیا سکتا جیسا کہ قومی سلامتی کے امور سے متعلق، دفاعی تنصیبات، پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات وغیرہ ۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے ذریعے نہ صرف شفافیت اور جموری اقدار کو بہتر کرتا ہے بلکہ اس سے کرپشن کے خاتمے میں بھی مدد مل سکتی ہے آور ساتھ ساتھ ریاست اور شہریوں کو درمیان اعتماد بھی بڑھتی ہے ۔ اس قانون کا مقصد اسلوبِ حُکمرانی کو بہتر بنانا اور عوامی اداروں کو جوابدہ کروانا ہے۔
اب اس کا طریقہ کیا ہے؟ طریقہ بھی بہت آسان ہے شہری کو صرف ایک سادہ کاغذ پر متعلقہ ادارے کو درخواست لکھنا ہوتی ہے جس میں یہ واضح کرنا پڑتا ہے کہ ہمیں کس قسم معلومات چاہیے ۔ متعلقہ ادارہ یا افسر 10 سے 20 دن میں جواب دینے کا پابند ہے ۔ درخواست میں اپنا نام، پتہ ، موبائل نمبر ، شناختی کارڈ نمبر یا ای میل ایڈریس وغیرہ لکھنا ہوتا ہے جسکے ذریعے اسے اپنے سوال کا جواب ملے گا ۔ اگر شہری کو اس کے متعلقہ وقت میں جواب نہ ملے تو شہری اس ادارے یا افسر کی خلاف کمیشن میں شکایت کرسکتا ہے جس کے بعد کمیشن اس ادارے یا افسر کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button