ایک نظر کرم ادھر بھی اے منصفوں

تحریر: عرفان علی شاہ بخاری

Spread the love

بازار کے جامع مسجد میں امام صاحب نے نماز ظہر کی سلام جونہی پھیرا تو ایک 50/55 سال کی ایک دبلی پتلی عورت تیزی سے صفوں کی درمیان سے گزر کر مسجد کے برامدے سے ھوتے ھوئے محراب والے ھال میں اندر داخل ھوئی اور چیخ کر کہنے لگی۔۔۔اے مسلمانانو رونڑو زما بچی نہر دی ماسرہ امداد وکئی(اے مسلمان بھائیوں میرے بچے بھوکے ھیں میری مدد کرو ) عورت کی مسجد میں داخل ھونے کی اس حرکت پر۔۔۔۔یہ کیا کرتی ھوں نکلو باھر۔۔۔۔کی اوازیں اٹھنے لگیں۔۔۔بیچاری عورت مسلمان نمازیوں کی تھیور دیکھ کر واپس مسجد کی گیٹ کی طرف چل کر بیٹھ گئ اور وھی بھوکے بچوں کا دکھڑا سنانے کا فریاد جاری رکھا۔ مسجد مین شاھراہ پر واقع بازار کی مسجد تھی جماعت میں سینکڑوں لوگ شریک تھے۔۔بعض نے تودس بیس روپے عورت کی جھولی میں ڈالدیئے ۔۔میں بھی اس موقع پر موجود تھا اور یہ منظر اپنے انکھوں سے دیکھ رھاتھا مسجد میں اس بازار کے بڑے تاجر اور علاقہ کے مالدار لوگ بھی میں نے دیکھ لئے۔۔کوئی بھی اس مجبور عورت کے ساتھ فراخدلانہ امداد نہ کرسکا۔۔میں سوچ رھاتھا کہ ھم بس صرف نام کے مسلمان ھیں۔۔۔گفتار کے غازی ھے ھم۔۔ کردار کوئی نہیں۔۔۔پاکستان جتنا تین گنا ملک کا امیر المومنین(صدر ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے اگر دریائے فراط کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو اللہ کے حضور میں جواب دہ ھوں گا۔۔۔ھمارے معاشرے میں ایک طرف لوگ لحیم شحیم کھانے کھاتے ھیں دنیاوی ھرقسم سہولیات ان کو میسر ھے حج اور عمرے کرکے تھکتے نہیں ۔۔حاجی صاحب کے لفظ سے ترقی کرکے الحاج بن گئے ھیں۔۔ھاتھوں میں بڑے تسبیح ھوتے ھیں۔۔بیٹے، بیٹیوں کی شادی پر تین تین دن تک طعام کھلانے اور فضول رسومات پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتاھے اور دوسری طرف ان ھی لوگوں کے محلے اور علاقہ میں غریب ایک وقت کی روٹی کیلئے ترستے ھیں ان غریبوں کا کوئی خیال ھی نہیں رکھا جاتا۔۔مسلمانی کے دعوے تو بہت بڑے ھیں اور اللہ کی گھر مسجد میں ایک بے کس عورت اٹا کیلئے چیختی ھے اور کوئی توجہ ھی نہیں دیتا۔۔۔۔۔د محمود دربار کی یو ایاز ھم نشتہ۔۔۔خیٹہ ڈکہ فکر تش غلامان سہ کڑم۔۔۔۔جو کسی مفلس مجبور انسان کے ساتھ استطاعت کے باجود نیکی نہیں کرتا وہ ادھورا مسلمان ھے۔۔معاشرے کو سدھار نے کیلئے ھر کوئی اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے گا۔۔خود کھائے۔۔مزے اڑائے اور غریب مجبور بھوکا رھے یا کسی تکلیف میں رھے۔۔تو معاشرہ تو بگڑتا جائے گا اپنی ذمہ داریوں سے لاپرواھی کی وجہ ھے کہ معاشرہ ائے روز بگڑتا چلا جارھاھے۔۔۔۔بحثیت مسلمان معاشرے کی ذمہ داریوں کونبھانا ھوگا۔۔۔کسی کی ایک انسو سے ھزاروں دل تڑپتے ھیں۔۔۔کسی کا عمر بھر رونا یونہی بے کار ھوتاھے۔۔۔۔والا معاشرہ نہیں ھونا چاہیئے اس پاس پر نظر رکھو اور اپنے ساتھ اپنے غریبوں کو بھی کھلاو۔۔عمرے کم کرو۔۔رسم ورواج پر فضول اخراجات سے اجتناب کرکے وہ رقم کسی غریب کو دیاجائے۔۔اللہ کی رضاء کیلئے غریبوں سے ھمدردی اور تعاون کرنے میں دل کو سکون ملتاھے اور پرامن مسرور معاشرہ کا قیام وجود میں اتاھے۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button