
ٹانک
بہادر انسان وہ ہوتا ہے جو خوف کے باوجود صحیح اور اخلاقی فیصلے کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔ بہادری صرف جسمانی طاقت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک اندرونی قوت ہے جو انسان کو مشکل حالات میں مضبوط رہنے، سچ بولنے، اور دوسروں کے حقوق کے لیے کھڑا ہونے کی تحریک دیتی ہے۔
بہادر انسان وہ ہے جو اپنی ناکامیوں سے سیکھے، اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کوشش جاری رکھے۔ وہ انصاف کے لیے لڑے، اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔
پاکستان کی سیاست میں ایسے لوگ کم ہی ملتے ہیں جو مشکل وقت میں اصولوں پر ڈٹے رہتے ہیں اور اپنے فیصلوں کے لیے ثابت قدم رہتے ہیں۔ مگر ان میں داور خان کنڈی ایک ایسا ہی نام ہے جنہوں نے اس وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو جوائن کیا جب اس جماعت کو ایک سیاسی طاقت کے طور پر سنجیدہ لینا تو دور، اس کا نام لینا بھی ایک گناہ سمجھا جاتا تھا۔
داور خان کنڈی کو سیاست وراثت میں ملی اور وہ ٹانک کے ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ابتدائی سیاست میں واضح مقصد عوام کی خدمت اور علاقے کی ترقی تھی۔ جب پی ٹی آئی ایک ابھرتی ہوئی جماعت تھی اور اسے شدید مخالفت اور تنقید کا سامنا تھا، داور خان کنڈی نے نہ صرف اس کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا بلکہ اپنی تمام تر توانائیاں جماعت کے نظریات کو عام کرنے پر صرف کیں۔اس وقت پی ٹی آئی میں شامل ہونا گویا سیاسی خودکشی کے مترادف تھا، لیکن داور خان کنڈی نے ثابت کیا کہ ایک سچا لیڈر وہی ہوتا ہے جو مشکل حالات میں درست سمت کا انتخاب کرتا ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے منشور اور عمران خان کے وژن پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی سیاسی راہیں متعین کیں۔
ہر سیاستدان کی طرح داور کنڈی کی زندگی میں بھی اتار چڑھاؤ آئے۔ انہوں نے ماضی میں کچھ ایسے فیصلے کیے جو شاید ان کے حق میں نہ گئے، لیکن وہ ان غلطیوں سے سیکھنے اور اپنی سمت درست کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے اپنی غلطیوں کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے اپنی طاقت بنایا اور اس بات کا ثبوت دیا کہ ایک لیڈر اپنی ناکامیوں سے کیسے سبق سیکھتا ہے اور انہیں کامیابی میں بدلتا ہے۔
داور کنڈی نے اپنی سیاست کو صرف ذاتی مفاد تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے علاقے کی ترقی اور عوام کی خدمت کو اپنی ترجیح بنایا۔ وہ ٹانک کی عوام کے لیے صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر ،اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے منصوبے لے کر آئے۔ ان کی سیاسی جدوجہد کا محور ہمیشہ عوام کی بھلائی رہا، جس کی وجہ سے انہیں عوامی حمایت بھی حاصل ہوئی۔
داور کنڈی نے اپنی کامیابی کا راز ایک اصول پر مبنی سیاست کو بنایا۔ وہ نہ صرف ایک مضبوط سیاسی رہنما کے طور پر ابھرے بلکہ اپنے حلقہ کے عوام کے لیے ایک امید کی کرن بھی ثابت ہوئے۔
ایک سچا رہنما وہی ہوتا ہے جو مشکل وقت میں بھی اپنے اصولوں پر قائم رہے، اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرے اور مستقبل کی کامیابی کے لیے ایک واضح اور پائیدار حکمت عملی اپنائے۔ ان کی سیاست کا سفر اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ حوصلہ، استقامت، اور عوامی خدمت کا جذبہ کسی بھی سیاسی رہنما کو بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔
حالات چاہے کتنے بھی مشکل ہوں، اگر نیت صاف ہو اور مقصد عوام کی خدمت ہو، تو کامیابی یقینی ہے۔