جنوبی افریقہ بنام اسرائیل کیس میں بین الاقوامی عدالت انصاف کا فیصلہ

حبیب الرحیم ایڈووکیٹ

Spread the love

یہ واقع فلسطینی عوام اور دیگر تمام مظلوموں کے لیے ایک خوش آئند علامت ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے 15-2 کے تناسب سے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کو مزید فوجی کارروائیوں سے اور فلسطینوں کے قتل عام سےروکنے کا فیصلہ دیاہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف اقوامی متحدہ کی ایک اہم ادارہ ہونے کے ناطے غیر جانبدارانہ اور اپنے فیصلوں میں آزاد تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم حقیقت میں یہ ادارہ بھی ہمیشہ امریکہ اور دیگر ولڈ پاور کے تسلط سے کبھی بھی آزاد نہیں رہا۔ 26 جنوری 2023کوبین الاقوامی عدالت انصاف نے امریکہ کے حمایت یافتہ ریاست اسریل کو آپنے عبوری حکم کے زریعے مزید نسل کشی اور فوجی آپریشن سے روکنے کے احکامات صادر کی ہے ۔

7 اکتوبر 2023 سے دونوں ممالک کے معصوم شہری انتہائی کرب میں ہیں اور اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی اچھا اقدام کرنے والا نہیں ہے۔ فلسطین اور غزہ میں فلسطینیوں کے نسل کشی پر دنیا کی خاموشی انتہائی افسوسناک ہے۔ اس جنگ میں اب تگ کل 28000ہزار انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے جس میں 11500 بچے شامل ہے۔ البتہ جنوبی افریقہ نے ایک سے زیادہ فورمز پر اس مسئلے کو اٹھانے کے بعد بالآخر بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازا کٹھکٹھایا۔ جس پر بالا آخر 26جنوری2024 کو بین الاقوامی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کے مقدمہ میں عبوری حکم جاری کرتے ہوئے اسرائیل کو فلسطین اور غزہ کی پٹی میں مزید کشیدگی سے روکنے کی ہدایت کی۔
جنوبی افریقہ نے اسریل کے طرف سے فلسطینیوں کے نسل کشی کے خلاف جو کہ1948 نسل کشی کنونشن کے بار بار خلاف ورزی کا مرتکب ہوا کی نسبت بین الاقوامی عدالت کی سٹچیوٹ کی آرٹیکل 36 پریگراف 1 تحت مقدمہ جو کہ 84 صفحات پر مشتمل تھا، دائر کی اور عدالت سے استدعاء کی کہ: اول، اسرائیل کو غزہ کے خلاف فوجی آپریشن معطل کرنے کی ہدایت کی جائے۔ دوم، مزید فوجی آپریشن کو روکا جائے۔ سوم، مناسب خوراک، پانی، ایندھن، پناہ گاہ، حفظان صحت اور صفائی ستھرائی تک رسائی کی اجازت دی جائے۔ چوتھا، فلسطینی اور غزہ کی تباہی کو روکنے کے احکامات صادر فرمائی جائےاور بشمول نفسیاتی نقصان یا ذہنی اذیت بھی نہ پہنچانے کے احکامات صادر کی جائے۔ پانچویں، ایسے شواہد کو تباہ نہ کرنا جو نسل کشی کی ثبوت ہو۔ چھٹے، نسل کشی کنونشن کے وضع کردہ قانون کے پاسداری کرے ۔ ساتویں، ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے اقدامات کریں جو نسل کشی میں ملوث رہے ہیں۔

آٹھویں، ایسی کارروائی سے گریز کریں جو کیس کو پیچیدہ کرے یا طول دیں۔ نویں، اسریل کونسل کو باقاعدگی سے عمل در آمد کرنے کی نسبت رپورٹ دیں۔ اسریل نے عدالت کو سماعت کا اختیار نہ ہونے پر زور دیا تاہم عدالت مذکور نے اسریل اس اعتراض کو نسل کشی کنونشن کی آرٹیکل 9کی تحت کو مسترد کیا۔چونکہ دونوں ممالک نسل کشی کی کنونشن پر بالا کسی تحفظات دسثخط کی ہے۔ عدالت نے فریقین کو سننے کے بعد عبوری ریلیف کے طور پر چھ نکاتی ہدایات جاری کیں اور ریاست اسرائیل کو 26-01-2024 کو ایک ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے اسرائیلی ریاست کو ہدایت کی کہ وہ نسل کشی کنونشن کے آرٹیکل II کی تعمیل کرے، یعنی "کسی خاص گروہ کے رکن کو قتل نہ کیا جائے، جسمانی نفسیاتی نقصان نہ پہنچائے، زندگی کی حالت کو متاثر نہ کرے جس کا شمار لوگوں کے وجود کے خاتمے کے لیے کیا جاتا ہے، اور کسی حاصل گروہ کی قتل نہ کرنا، لوگوں کے اس گروہ کی پیدائش کو روکنے کے لیے کارروائی نہ کرنا،” عدالت نے اسرائیل کو ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنے اور فیکٹ فائنڈنگ مشن کو اجازت دینے کی بھی ہدایت کی۔ عدالت کا فیصلہ اگرچہ کسی فریق کو پابند نہیں کرسکتا تاہم یہ مظلوم بے گناہ لوگوں کے لیے خوشگوار اشارہ ہے کہ وہ عرصہ دراز سے اپنی ریاست میں امن کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ عدالت جنوبی افریقہ کو مقررہ وقت میں رپورٹ کا جواب جمع کرانے کی اجازت دے گی اور پھر عدالت تمام حقائق کا تجزیہ کرنے کے بعد اس معاملے کا فیصلہ کرے گی۔ بدقسمتی سے حکم نامے کے اعلان کے اگلے ہی دن مزید بے گناہ افراد کو قتل کر دیاجو کی بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلہ پر درعمل تھا۔

بے گناہوں کے قتل کو بروقت روکنے کے لیے دوسرے ممالک کی مداخلت سے دو ریاستوں کے درمیان معاملہ حل وقت کی ضرورت ہے۔ آئی سی جے کا فیصلہ اگرچہ نسل کشی روکنے کی جانب ایک اچھا قدم ہے لیکن حتمی حل نہیں۔ اب جنوبی افریقہ کی پاس حل کا ایک اور طریقہ ہے کہ جنوبی افریقہ فلسطین اور غزہ میں اسرائیل کو نسل کشی سے روکنے کے لیے قرارداد حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سےرجوع کرے۔ چونکہ آئی سی جے کے پاس اپنے فیصلے پر عملدرآمد کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اس لیے اس فیصلے کو محض سفارشات سمجھا جاتا ہے۔ آئی سی جے نے مختلف معاملات میں بہت سے قابل ذکر فیصلے سنائے لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد ہمیشہ ان ریاستوں کی مرضی کے تابع رہا ہے۔ اس فیصلے کے بجائے یو این ایس سی کی قرارداد کے مزید نتیجہ خیز نتائج برآمد ہوں گے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کا اثر اس وجہ سے بھی اب ذیادہ ہوگا چونکہ امریکہ میں اس سال صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ قراداد ویٹو کرنے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور ہوگی۔ مزید برآں ولڈ آرڈر میں تبدیلی بھی امریکہ کی ویٹو حق استعمال کرنے میں دشواری ہوگی ۔اگر چہ بین الاقوامی عدالت انصاف کا فیصلہ اگر چہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس معاملے کو مستقل طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے اور دنیا کو سنجیدگی سے نسل کشی روکنے کے لیے اسریل پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button