
ہمارے معاشرے میں رواجوں کی عجیب ہواچلی ہے۔اس ہوا میں کئ گلدستے مرجھاتی چلی جارہی ہیں۔خوشیوں کی منتظر آنکھوں میں خاک جھونک رہی ہیں۔جوانیاں سکھڑا رہی ہیں۔رحمتیں بھوج بنتی جارہی ہیں۔دست شفقت لاغراوربےبس ہورہے۔
ان رواجوں میں ایک رواج جہیز کی ہےجس نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں۔ ان کی آرزوں، تمناوں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اُجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ ایک رسم ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں اور اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کے لخت جگر کو قبول کر لے لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسمیں رواج پا چکی ہیں اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جمالیتی ہیں ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔
برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں یہ رسم ہندو اثرات کی وجہ سے داخل ہوئی اور ایک لعنت کی شکل اختیار کر لی۔جہیز والدین کی طرف مطالبہ پر یابلامطالبہ بیٹی کی رخصتی پر دی جانے والا سامان کوکہاجاتاہے۔
شریعت محمدی میں جہیز کی کوئی دلیل نہیں بعض لوگ
جہیز کی دلیل میں حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے نکاح کی مثال پیش کرتےہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو نکاح کے وقت چادر، تکیہ، مشک، بستر، چکی کاجہیزدیاتھا۔حالانکہ حقیقت یہ ہےکہ نبی مہربان کاچچاحضرت ابو طالب کثیرالاولاد اور تنگ دست تھے۔ اس لئے ان کےبیٹے حضرت علی کو اپنے پاس رکھا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے کرنے کا فیصلہ کیا تو حضرت علی سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس کیاہے؟ حضرت علی نے فرمایا کہ گھوڑا اور زرہ۔رحمت العالمین نبی مہربان نے فرمایا: زرہ بیچ دو۔ حضرت عثمان نے یہ زرہ ۴۸۰ درہم میں خریدی۔اس رقم سے یہی اشیاء خریدی گئیں جواس وقت کی ضرورت اور معیار زندگی تھا۔ بقیہ رقم مہر اور ولیمہ وغیرہ میں استعمال کی گئی۔
ہمارے معاشرے میں جہیز کی ظالمانہ اور جاہلانہ رسم پروان چڑھ رہی ہے۔دولھاحق مہرسونا بالیاں،کنگن اور نیکلیس کسی اور کالےجاکردلھن کوگھرلاتی ہے۔لیکن جہیز کیلئے اس کی غریب باپ کوادھارلینےکیلئےدردرپردستک دینی پڑتی ہے۔
شریعت میں لڑکی پرکوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے۔ مرد کو اپنی حسب حیثیت ضروری امور میں مال خرچ کرنا چاہیے۔سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بناء پر کہ وہ اپنے اموال خرچ کرتے ہیں۔”
مال خرچ کرنے میں کپڑے، زیور، مہر، ولیمہ اورنفقہ شامل ہے۔ ان میں مہر فرض ہے۔ اس کی ادائیگی اگر نقد (معجل) ادا کردی جائے تو یہ افضل ہے۔ ورنہ اگرادھار (موٴجّل) ہو تو وعدہ کرنا چاہیے کہ وہ کب اور کس طرح ادا کرے گا۔
اس رواج کی حوصلہ شکنی ہم سب کی اجتماعی زمہ داری ہے۔ہرواعظ،ہرناصح،ہراستاد،ہراستانی،ہرطالب علم،ہرصاحب رائے،ہرصاحب دانش،ہر صاحب قلم اور ہرمرد وزن کو اس جہالت کے خلاف جنگ لڑنی چاہئے۔
اوریہ بات ہرخاص وعام کی زہن پرنقش کرنی چاہئے کہ شادی صرف جہیزلینےاورولیمہ دینے کانام نہیں۔
نایہ صرف بچے پیدا کرنے کیلئے ہوتی ہے اورنایہ صرف دوسرے کی دولت یا کمائی ہتھیانےکیلئےہوتی۔
شادی پورے کا پورا تعلق ہے، زندگی ساتھ گزارنے کا۔
خوشی اور غمی میں مل جل کر رہنے کا۔
ایک دوسرے کا لباس بننے کا۔
ایک دوسرے کی طاقت، ایک دوسرے کا سہارا بننے کا۔ تاکہ جہاں کوئی ایک لڑکھڑائے، اسے تھامنے والا کوئی دوسرا موجود ہو۔
شادی کوصرف جہیزمیں ناپ کر نہیں تولا جا سکتا۔
ہمیں معاشرتی طور پہ اس پیمانے کو ہی معیار بنا کر،کسی کی زندگی اجیرن نہیں کرنی چاہیے جو اس معیار پہ پورے نہیں اترتے۔
ہر کسی کی زندگی الگ مراحل سے گزر رہی ہے۔
عین ممکن ہے کہ جن کی زندگی الگ مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے، ہمارا غلط ان کے لیے درست ہو۔ ہم جسے برا سمجھتے ہیں، وہ ان کے لیے مجبوری ہو۔
ہر کسی کو جہیز کے خلاف عالم بغاوت بلند کرناچاہئےرشتہ داریوں میں جہیزلینےاوردینےپرپابندی لگائیں۔جہیزکی لین دین والی شادی میں شرکت سے بائیکاٹ کریں۔اپنے طور پر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائیں ۔سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ آہستہ آہستہآپ کی تقلید میں نکل کھڑے ہوں گے۔لیکن بارش کا پہلا قطرہ بن کر ہم نےخود اس پر رواج پربجلی گرانی ہیں۔اور اس کو زمین بوس کرناہے۔
جہیز مانگ رہےہو،غرور وقہرکیساتھ
مجھےکفن بھی دلادو،قلیل زہر کیساتھ