ھم امریکی غلام یاسیاسی غلام

عرفان علی شاہ بخاری

Spread the love

غلامی سے متعلق ایک پرانی کہانی یاد ائی کہ۔۔۔۔ایک دیہاتی کتے اور شہری کتے کی اپس میں دوستی ھوگئی تھی شہری کتا اکثر دیہاتی دوست کتے کے پاس جاتاتھا دیہاتی کتا لاغر وکمزور تھا جبکہ شہری کتا موٹا تازہ تھا ایک دن شہری کتا دیہاتی کتے کے ہاں ایا جب واپس جانے لگا تو اپنے دیہاتی دوست کو ساتھ شہر لے جانے پر اسرار کرتے ھوئے کہاکہ یار میں تو بار بار اتا ھوں توبھی میرے ساتھ شہر جاو شہر کے ماحول سے لطف اٹھاو دیہاتی کتا راضی ھوا اور ان کے ساتھ جانے لگا راستے میں دیہاتی کتے نے شہری کتے سے پوچھا یار یہ بتاو کہ جب بھی تم ائے ھوں تیرے گلے میں یہ رنگین پٹہ بندھا رھتا ھے یہ کس لئے۔۔شہری کتے نے کہاکہ یار میں کسی کا غلام ھوں اور پٹہ اس کی غلامی کی نشانی ھے اور اس کے بدلے مجھے تازہ دودھ، گوشت اور اچھے اچھے کھانے ملتے ھیں اسلئے تو تم کو بھی ساتھ لے جاتاھوں اگر تم چاھوں تو تیرے گلے میں کسی کی غلامی کا پٹہ ڈال دیں گے جس کے بدلے تم کو بھی اچھے اچھے کھانے ملیں گے اور تم بھی میری طرح موٹا تازہ بن جائے گا دیہات میں کیاھے روکھی سوکھی کھانے یا بھوکا رہنے سے خاک تندرستی ملے گی۔۔۔دیہاتی کتا وھی رک گیا اور اپنے دیہاتی دوست کتے سے کہا کہ۔۔۔غلامی کا پٹہ گلے میں ڈال کر اچھے اچھے کھانا کھانے اور موٹا تازہ بننے سے بغیر غلامی کی روکھی سوکھی کھانا ھزار درجہ بہتر ھے اور اسی جگہ سے واپس اپنے گاوں کی ازاد فضاوں کا رخ کرلیا۔۔۔کہانی لکھنے کا مقصد یہ ھےکہ 1947 سے ھر سال چودہ اگست یوم آزادی منایا جاتاھے جس میں ازادی کی خوشیاں منائی جاتی ھے ملک بھر میں یوم آزادی کی تقریبات منقعقد ھوتی ھیں لیکن آزادی کی معنی ومفہوم کا کسی کو شاید کوئی علم ھوں بس تقریبات، تقاریر،ملی نغموں اور تالیوں تک بات محدود ھوتی ھے امریکی مقروض اور سیاسی کارڈ کھیلنے کی طورپر امریکی غلامی کی باتیں تو سیاسی زبانوں سے ھوتی رھتی ھے سیاستدان اپنی سیاست کوچمکانے اور ووٹ بٹورنے کیلئے۔۔۔امریکی قرض اور غلامی سے نجات۔۔۔کے بلند بانگ دعوے کرتے ھیں اور یہ حقیقت ھے کہ پاکستانی عوام امریکہ مقروض اور غلام ھے لیکن قابل غور بات یہ ھے کہ عوام صرف امریکہ کے غلام نہیں بلکہ یہ عوام تو ملک میں سیاسی غلام بھی ھے یہ عوام تو سیاسی غلامی کی زنجیروں میں جھکڑے ھوئے ھیں یہ عوام سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ھے کسی بھی پارٹی سے وابستہ کوئی بھی شخص کو یہ علم ھوتاھے کہ میرا لیڈر کرپٹ ھے داغدار ھے دیانتدار نہیں ھے امانتدار نہیں ھے مگر پھر بھی ذھنی سیاسی غلامی کی وجہ سے اس لیڈر کی تقلید کرتاھے اس کے ھرناجائز کو یاتو جائز کرنے کی تاویلیں بناتاھے یا چشم پوشی کا مرتکب رھتاھے اور تمام خامیوں کے باوجود ووٹ جیسے مقدس امانت ان کی کرپشن سے داغدار جولی میں ڈال دیتاھے اور جب تک سیاسی غلامی کی یہ بیماری قوم سے نہ نکلی ھوں ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ھوسکتا حکومتیں عوام سے بنتی ھے اور جب عوام اچھے برے لیڈر کی تمیز سے محروم ھوں جب تک سیاسی زندہ باد مردہ باد کا نعروں کا خاتمہ نہ ھوں، کرپٹ لیڈر سے نفرت کی غیرت کا جذبہ نہ ھوں تو ائے روز ھم ترقی کی منزل سے دور ھوتے جائیں گے دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے عوام کی کردار پر اگر دوڑایاجائے تو ملک کی ترقی ان کی کردار کی وجہ سے ھے کرپشن سے پاک بے داغ لیڈر کو چن کر حکومتیں بناتی ھیں جس کی وجہ سے ملک اور قوم ترقی کے منازل طے کرتاھے۔۔یہاں ایک اور کہانی یاد ائی کہ۔۔۔ایک نوجوان چارماہ کی تبلیغ میں گیاتھا جب واپس ایا تو کچھ تبلیغ کے پرانے ساتھی ان گھر ملنے گئے تو نوجوان کا والد صاحب ڈاکٹر تھا اور تبلیغ میں وقت بھی نہیں لگایا تھا تو اپنے کے تبلیغی مہمانوں سے طنز کے طور پر کہاکہ۔۔۔انسان چاند پر پہنچ گیا اور اپ لوگ اب بھی وضو استنجا کی باتیں کرتے ھوں۔۔تو مہمانوں سے ایک نے ڈاکٹر صاحب کو بہت پیارا اور معقول جواب دیتے ھوئے کہاکہ۔۔۔انسان بن کر زمین پر چلنا حیوان بن کر چاند پر پہنچنے سے بہت بہتر ھے۔۔۔مطلب یہ کہ انسانیت، علم ودانش اور حکمت بڑی چیز ھے ھمارے ملک میں بڑے بڑے تعلیم یافتہ ڈگری ھولڈرز موجود ھیں امریکہ و دیگر ممالک سے ڈگری ھولڈرز بھی ھے لیکن ان کوانسانیت، علم ودانش اور حکمت کی نعمت سے محروم کہا جائے تو بے جا نہ ھوگا یہ کونسے دشمن عناصر ھے جو تم کو سیاسی غلامی میں باندھ کر اچھے برے کی تمیز سے عاری راہ پر ڈال دیا ھے سیاسی غلامی میں بھائی بھائی کا دشمن ھے، ماردھاڑ، زندہ باد مردہ باد کے نعروں اور کرپٹ لیڈوروں کی تقلید نے ھم کو ذلالت ضلالت اور نفاق کی دلدل میں دھکیل دیا ھے جوکہ اس ملک کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ھے جب تک قوم نے اپنے اپ کو اپنی سوچ وفکر کو نہ بدلا ھوں، سیاسی غلامی کو تین طلاق نہ دے تو تب تک ترقی و خشحالی کیلئے ترستے رہینگے قوم کو جاگنا ھوگا کرپٹ حکمرانوں اور لیڈوروں کی تقلید سے چاھے کسی کاباپ، بھائی کیوں نہ ھوں سے نفرت کرناھوگا۔۔ورنہ رو کر جیئں گے اور رو کر مریں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button