شاھد احمد دہلوی کی کتاب چند ادبی شخصیتیں پر تبصرہ

ازقلم: نورین خان

Spread the love

کچھ لوگ گلاب کیطرح ہوتے ہیں اُن کا نام لیتے ہی ہمارےاردگرد خوشبو پھیل جاتی ہے! 

اس بات کیساتھ آغاز کرتے ہیں۔آج میں نے جو کتاب پڑھنے کے لئے منتخب کی اسکی میں جتنی تعریف کروں کم ہے۔

جی ہاں اس کتاب کا نام ہے چند ادبی شخصیتیں اور اسکے مصنف جناب شاھد احمد دہلوی صاحب ہے۔یقین کریں جب میں نے کتاب پڑھنی شروع کی تو ایک ایک لفظ شوق سے پڑھا اتنا مزا آ رہا تھا کہ پوچھئے مت۔

اس کتاب کے ناشر مکتبہ جدید گولہ مارکیٹ،دریا گنج نئی دہلی ہے۔اس کتاب میں ٹوٹل 274 صفحات ہیں۔اور اس کتاب کا مقدمہ جناب جمیل جالبی صاحب نے لکھا ہے۔

جہاں تک مقدمے کی بات ہیں تو یہ مقدمہ بذات خود علم کا ایک خزانہ ہیں اس میں خاکہ نگاری کے متعلق مفید معلومات دی گئی ہے۔

اس کتاب میں شاھد احمد دہلوی صاحب نے مندرجہ ذیل ادبی شخصیات کا خاکہ لکھا ہے۔

مولوی نذیر احمد دہلوی۔میر ناصر علی،استاد بیخود دہلوی،خواجہ حسن نظامی،بشیر الدین احمد دہلوی،مولوی عنایت اللہ،مرزا عظیم بیگ چغتائی،میرا جی،منٹو،جگر مراد آبادی،حکیم کیف دہلوی،پروفیسر مرزا محمد سعید،استاد بندو خان،ایم اسلم،جوش ملیح آبادی،جمیل جالبی،شاھد احمد دہلوی۔

اس کتاب کا مقدمہ بھی پڑھنے لائق ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

یہ سطور لکھتے وقت میں سوچ رہا ہوں کہ ” چند ادبی شخصیتیں، جیسی اچھی کتاب کو آخر مقدمہ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ مقدمہ کی ضرورت تو وہاں پڑتی ہے جہاں مصنف نیا ہو اور اپنے فن اور شخصیت کے تعارف کا محتاج ہو۔ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مقدمہ نگار تو ایک گمنام شخص ہے جسے خود تعارف کی ضرورت ہے اور صاحب کتاب ایک نامورادیب ہے، جسے نہ کسی تعارف کی ضرورت ہے اور نہ تعریف و توصیف کی خواہش۔ وہ اپنی ادبی زندگی کے اس عروج پر پہنچ چکا ہے جہاں انسان شہرت اور ناموری کی خواہش سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ سوچتے سوچتے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ شاہد صاحب نے ساری عمر چھوٹوں کو بڑا اور بڑوں کو اور بڑا بنانے کا کام انجام دیا ہے۔ وہ جو کل گمنام تھے آج انھی کی بدولت نامور ہیں۔ غالباً مقدمہ کے لیے اس برصغیر کے سارے سقراط بقراط چھوڑ کر میرا انتخاب بھی انھوں نے اسی لیے کیا کہ میرا نام بھی بلند پایہ کتاب کی بیساکھیوں کے سہارے شہرت کے پروں پر اُڑنے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کے خاکہ نگاروں میں جن لوگوں نے اچھے اور کامیاب خاکے لکھے ہیں ان میں شاہد احمد دہلوی کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی، عظیم بیگ چغتائی، بے خود دہلوی، میر ناصر علی، جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی اور استاد بندو خاں وغیرہ ایسے خاکے ہیں جو زمانے کی سرد گرم ہواؤں سے بے نیاز ہو کر ہمیشہ دلچسپی سے پڑھے جائیں گے ۔ شاہد صاحب کا اپنا لب ولہجہ ہے۔ ان کا اپنا طر ز بیان ہے۔ ان کی زبان ٹکسالی اور بامحاورہ ہے اور وہ واقعات کو اس طور پر ترتیب دیتے ہیں کہ بھر پور تاثر قاری کے ذہن کے نہاں خانوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ شاہد صاحب کے خاکوں کا ایک وصف ، جو اُردو میں خال خال نظر آتا ہے، یہ ہے کہ وہ انسان کو انسان سمجھتے ہیں۔ اسے فرشتہ نہیں سمجھتے۔ وہ اس کی کمزوریوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی اس کی خوبیوں کو ۔ اسی لیے ان کے خاکوں میں ایک خاص قسم کی بے تکلفی پیدا ہوگئی ہے۔ یہ بے تکلفی واقعات میں بھی ملتی ہے اور انداز بیان میں بھی ۔ یہی وہ فن خلوص ہے جو اُن کے خاکوں میں اثر و تاثر کا جادو جگا دیتا ہے۔ بہت سے لوگ اس بے تکلفی پر ناک بھوؤں چڑھاتے ہیں لیکن اصل میں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پورا خاکہ پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن پر اس شخصیت کا کیا اور کیسا اثر قائم ہوتا ہے۔ کیا وہ انسان بتاشہ کی طرح بیٹھ جاتا ہے یا مینارہ کی طرح بلند و بالا نظر آنے لگتا ہے۔ اگر تاثر بتاشہ کا ہے تو خاکہ نگارا اپنے فن میں ناکام ہے۔ اگر اثر آفرینی مینارہ کی ہے تو وہ کامیاب ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ان خاکوں کو پڑھئے تو آپ کو ان ساری شخصیتوں پر پیار آئے گا۔

 

مولوی نذیر احمد دہلوی

 

میں نے مولوی نذیر احمد صاحب کو پانچ برس کی عمر میں آخری بار دیکھا۔ اس سے پہلے دیکھا تو ضرور ہوگا اگر مجھے بالکل یاد نہیں۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ ہم تین بھائی ابا کے ساتھ حیدرآباد

دکن سے دلی آئے تھے تو کھاری باؤلی کے مکان میں گئے تھے ۔ ڈیوڑھی کے آگے صحن میں سے گزر کر پیش دالان میں گئے یہاں دو تین آدمی بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے ۔ پچھلے دالان کے دروں میں کیواڑوں کی جوڑیاں چڑھی ہوئی تھیں جن کے اوپر رنگ برنگ شیشوں کے لیتے ہنے ہوئے تھے۔ یہ تین دروازے تھے جن میں سے در کھلے ہوئے تھے اور ایک دائیں جانب کا بند تھا ۔ اس کمرے نما دالان میں ہم آبا کے ساتھ داخل ہوئے تو سامنے ایک پلنگ پر ایک بڑے میاں دکھائی دیتے۔ ان کی سفید ڈاڑھی اور کنٹوپ صرف یاد ہے۔ ابا جلدی سے آگے بڑھ کر اُن سے لپٹ کر رونے لگے اور ہم حیران کھڑے رہے ۔ جب ان کے دل کی بھڑاس نکل گئی تو ہیں حکم بجا کہ دادا ابا کوسلام کر دی ہم نے سلام کیا، انہوں نے پیار کیا۔ ایک ایک اشرفی سب کو دی اور ہم کمرے کے اندھیرے سے گھر آ کر باہر نکل آئے اور کھیل کود میں لگ گئے ، اس کے بعد انہیں پھر دیکھنا نصیب نہیں ہوا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

مولوی صاحب بڑے فخر سے اپنے بچپن کے مصائب بیان کرتے تھے جس مسجد میں ٹہرے تھے اسکا ملا بڑا بدمزاج اور  بے رحم تھا ۔ کڑ کڑاتے جاڑوں میں ایک ٹاٹ کی صف میں یہ لپٹ جاتے اور ایک میں ان کے بھائی ۔ سات آٹھ سال کے بچے کی بساط ہی کیا علی الصباح اگر آنکھ نہ لگتی تو مسجد کا ملا ایک لات رسید کرتا اور یہ لڑھکتے چلے جاتے اور صف کی بچھ جاتی ۔اس زمانے کے طالب علموں کی طرح انہیں بھی محلے کے گھروں سے روٹی مانگ کر لانی پڑتی تھی ۔ دن اور گھر بندھے ہوئے تھے۔ اپنی گھروں میں سے ایک گھر مولوی عبدالقادر صاحب کا بھی تھا روٹی کے سلسلے میں جب ان کے ہاں آنا جانا ہو گیا تو نذیر احمد سے اوپر کے کام بھی لئے جانے لگے مثلا بازار سے سودا سلف لانا ۔ مسالہ پینا۔ لڑکی کو بہلانا۔ لڑکی بڑی ضدن بھی۔ ان کا کولھا توڑتی اور انہیں مارتی پیٹتی رہتی۔ ایک دفعہ مسالہ پیستے میں مرچوں کا بھرا ہوا ڈبہ چھین کر ان کے ہاتھ کچل ڈالے۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اسی لڑکی آگے چل کر مولانا کی شادی ہوئی ہیں۔

 

میر ناصر علی

 

اللہ بخشے میر ناصرعلی دلی کے ان واضعدار اشراف میں سے تھے۔ جن پر دہلی کو فخر تھا۔ عجب شان کے بزرگ تھے۔ یہ بزرگ ” میں نے انہیں اس لئے کہا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں بزرگ ہی دیکھا۔ سوکھ کر چرخ ہو گئے تھے خش خشی ڈاڑھی  پہلے تل چاولی تھی ، پھر سفید ہوگئی تھی۔ کتری ہوئی ہیں۔ پوپلا منہ ۔ دہانہ پھیلا ہوا۔ بے قرار آنکھیں۔ ماتھا کھلا ہوا، بلکہ گدی تک ماتھاہی ماتھا چلا گیا تھا۔ جوانی میں سرو قد ہوں گے، بڑھاپے میں کمان کی طرح جھک گئے تھے ۔ چلتے تھے تو پیچھے دونوں ہاتھ باندھ لیتے تھے مستانہ وار جھوم کے چلتے تھے مزاج شاہانہ وضع قلندرانہ ٹخنوں تک لمبا کرتا گرمیوں میں موٹی ململ یا گاڑھے گا، اور جاڑوں میں فلاین یا وائلہ کا اس میں چار جبیں لگی ہوتی تھیں جنہیں میر صاحب کہتے تھے یہ یہ میرے چار نوکر ہیں۔ گلے میں ٹپکا یا گلوبند سر پر کبھی کپڑے کی پچخ گول ٹوپی اور کبھی صافہ گھرمیں روئی کا کنٹوپ بھی پہنتے تھے اور اس کے باکھے اُلٹ کر کھڑے کر لیتے جب چغہ پہنتے توعمامہ سر پر ہوتا۔ ایک بڑا پاجامہ آزاربند میں کنجیوں کا گھچا۔ پاؤں میں نری کی سلیم شاہی کسی صاحب بہادر سے ملے جاتے تو انگریزی جوتا پاؤں میں اڑا لیتے ۔

۔۔۔۔۔۔۔

میر صاحب کو اپنی  بیوی سے بڑی محبت بھی ۔ ہر سال اپنی شادی کی سالگرہ منایا کرتے تھے۔ تیسرے پہر سے گھروالے اور قریبی عزیز جمع ہونے شروع ہوتے ۔ کھان پان ہوتا ۔ بیوی دلہن بنتیں، مہانوں کے ہالے میں آکر بیٹھتیں اور میر صاحب انہیں ایک سونے کی انگوٹھی پہناتے ۔ مبارک سلامت کا شور مچتا ہنسی مذاق کی باتیں ہوتیں ۔ اور ایک ایک کرکے رات گئے نیک مہمان رخصت ہوتے۔ بیوی کے انتقال کے بعد میر صاحب پچیس سال جیئے مگر مگر انہوں نے دوسری شادی نہیں کی ، اور ادب و فلسفہ کے مطالعہ میں زیادہ منہمک ہو گئے ۔

 

استاد بیخود دہلوی

 

بیخود صاحب نے دیوان غالب کی شرح بھی لکھی بھی ۔ اشعار کا مفہوم بڑی خوبی سے بیان کرتے تھے ۔ ایک دفعہ ہم نے ان سے پوچھا ” استاد آپ نے تو غالب کو دیکھا ہو گا ؟ فرمایا ہاں دیکھا تھا ۔ میری عمر اس وقت پانچ سال کی تھی۔ ابا حضرت کے ساتھ ان کے ہاں جایا کرتا تھا۔ مجھے یادہے کہ پہلی دفعہ جب ان کے ہاں گیا تو شام کا وقت تھا۔ ان کے آگے ملوری صراحی اور گلاس رکھا تھا۔ اور طشتری میں تلے ہوئے بادام اور پستے تھے۔ چسکہ لگاتے جاتے اور دو دو چار چار دانوں کے ٹھنگیر کرتے جاتے ۔ ابا حضرت سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔ اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی۔ تو ابا حضرت نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔میں بچپن میں بہت شریر تھا۔ مگرنئی جگہ ہونے کی وجہ سے خاموش بیٹھا تھا۔ دادا غالب مجھ سے مخاطب ہو کر بولے

‘ یارچہ’ لو کچھ کھاؤ میں نے تھوڑے سے بادام اور پستے اٹھائے ۔

 

خواجہ حسن نظامی

 

حضرت خواجہ حسن نظامی دہلی کے اُن بزرگوں میں سے تھے جنہیں زمانہ کبھی فراموش نہ کر سکے گا۔ وہ ایک بہت غریب گھر میں پیدا ہوئے۔ افلاس کی وجہ سے ان کی تعلیم نہ ہوسکی ۔ مگر انسان کو انسان بنانے میں صرگ تعلیم ہی تو کارآمد نہیں ہوتی ۔ یوں لادنے پر تو گدھے پر بھی کتابیں لاد دی جاتی ہیں لیکن گدھا تو گدھا ہی رہتا ہے ۔ اصل چیز ہے تربیت۔ خواجہ صاحب حضرت نظام الدین اولیا کے خواہر زادوں کی اولاد میں سے اپنے آپ کو بتاتے تھے۔ ان کی شرافت نسبی نے انہیں سنبھالے رکھا۔ ان کے والد بھی درگاہ و محبوب الہی کے خادموں میں شامل تھے ۔ درگاہ کی آمدنی میں سے حصہ رسد انہیں بھی کچھ مل جاتا ۔ یہ آفت اس قدر قلیل بھی کہ اس میں جسم و جاں کا رشتہ بیشک قائم رکھا جاسکتا تھا، تاہم غیور والدین نے اپنے لڑکے کو کچھ ایسی تربیت دی کہ مفلس و قلاش ماں باپ کا بیٹا بعد میں دہلی کے لکھ پتیوں میں شمار ہوا ۔ ادب میں اپنے زمانے کا سب سے بڑا ادیب کہلایا ۔ علوم دینی میں وہ بصیرت اصل کی کہ فرنگی حکومت نے شمس العلماء کا خطاب دیا۔ معاملات روحانی میں اتنی ترقی کی کہ تین لاکھ مریدوں کا مرشد کامل بنا مبلغ اسلام بنا تو اچھوتوں سے لے کر راجہ مہاراجاؤں تک کو حلقہ بگوشان اسلام میں لا شامل کیا۔ سیاست میں قدم رکھا تو دیکھتے ہی دکھتے صف اول کے لیڈروں میں جا پہنچا ۔ غرض زندگی کے ہر شعبہ میں حیرت ناک ترقی کی۔ یہ سعادت خدائے بخشندہ کی طرف سے تھی کہ خواجہ صاحب نے مٹی میں بھی ہاتھ ڈالا تو سونا بن گئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روایت عام کے مطابق خواجہ صاحب کے تین لاکھ مرید تھے۔ ہندو اور عیسائی بھی ان کے مرید تھے۔ ایک اطالوی شہزادی بھی ان کی مرید تھی۔ فرماتے تھے کہ برنارڈ شا بھی میرا مرید ہے اور پرنس آف ویلز (ایڈورڈ ہشتم نے بھی میرے مریدوں میں شامل ہونے کے لئے مجھے

چھٹی لکھی ہے ۔

خواجہ صاحب کو خطابات دینے، اور نام رکھنے کا عجب سلیقہ تھا۔ علامہ راشد الخیری کو مصور غم ” خواجہ صاحب ہی نے خطاب دیا تھا۔ میرے والد کو وارث الادب” کہتے اور لکھتے تھے۔ خود مصور فطرت تھے ۔ ان کی بگیم خواجہ بانو یں ۔ ایک بیٹی حور بانو اور دوسری روحہ۔ ضیاء الدین احمد کو ان کی تاریخی معلومات کی وجہ سے برنی خطاب دیا تھا۔ کوئی ناسوتی نظامی تھے اور کوئی ابن عربی ۔ ایک صاحب ملنسار نظامی کہلاتے تھے۔ بھیا احسان کشفی شاہ تھے۔

ایک صاحب مستری عشقی کہلاتے تھے۔ کوئی جمالی تھا کوئی غزالی ۔ ایک تھے قلندر نظامی ۔ قلندر نظامی بھی عجیب چیز تھے ۔ ان کی وضع قطع خواجہ صاحب سے مشابہ بھی۔ بلکہ کہا جاتا تھا کہ خواجہ صاحب کی اترن انہی کو ملتی ہے ۔ وہی پیلی ٹوپی ۔ وہی چغہ۔

 

بشیر الدین احمد دہلوی

 

اللہ بخشے میرے والد مرحوم ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے اکلوتے بیٹے تھے۔ وہی ڈپٹی نذیر احمد جنہوں نے مراۃ العروس، توبتہ النصوح اور ابن الوقت لکھی اور کلام مجید کا ترجمہ دلی کی ٹکسالی زبان میں کیا۔ دادا ابا ہوش سنبھالتے ہی بجنور سے دہلی بغیر تعلیم آگئے تھے ۔ اُس زمانے میں یونیورسٹیاں، کالج اور اسکول نہیں تھے ۔ امیروں کے بچوں کو پڑھانے میاں جی گھروں پر آتے تھے ، اوسط طبقے کے شرفا اپنے بچوں کو کسی نامی گرامی عالم کے مکتب یا مدرسے میں بیٹھا دیتے تھے، اور غریب غربا کے بچے مسجدوں میں ملاؤں کے حوالے کئے جاتے تھے۔ غریب کا بچہ ننھا نذیر احمد پنجابی کٹڑے کی مسجد میں داخل کر دیا گیا مسجد کا ملا بڑا ظالم و جابر آدمی تھا۔ جب اُس کا ناریل چٹختا تو بچوں کی کھال ادھیڑ کر رکھ دیتا۔ یہ مسجد طالب علموں کے لئے اقامت خانے کا کام کبھی دیتی تھی مگر اقامت خانوں کی آسائشوں سے محروم تھی ۔ دن بھر اس میں مار مار کر پڑھایا جاتا ، جب کھانے کا وقت ہوتا تو طالب علموں سے کہا جاتا کہ جاؤ محملے میں سے روٹی مانگ لاؤ ۔ محلے کے گھروں سے روٹی بندھی ہوئی تھی بچے گھروں میں جاتے اور اپنی اپنی قسمت کا آذوقہ لے آتے ۔ نذیر احمد کو جس گھر سے روٹی ملی تھی وہ ایک جید عالم مولوی عبدالقادر کا گھر تھا۔ مفت روٹی کون کھلاتا ہے ؟ نذیر احمد جب روٹی لینے جاتے تو انہیں بازار کا کوڑی پھیرا کرایا جاتا۔ سودا سلف لاد دیا تو مولوی صاحب کی بچی کو بہلانا پڑتا۔ وہ کولھا توڑ چکتی مسالہ پیسنا پینا پڑتا کبھی یہ بھی ہوتا کہ مسالہ موٹا رہ جاتا تو لڑکی بٹا چھین کر ان کے ہاتھ کچل دی اور یہ سی کرکے رہ جاتے ۔ روزی رزق کا معاملہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے والد 1857 جسے عرف عام میں ” غدر” کہا جاتا ہے، کے تین چار سال بعد پیدا ہوئے ۔ اس وقت عسرت ڈپٹی صاحب کے گھر سے رخصت ہو چکی

بھی اور روزافزوں فارغ البالی کا دور شروع ہو گیا تھا۔ اس لحاظ سے میرے والد خوش قسمت تھے کہ میرے بعد امجد کی طرح انہیں مفلسی میں آنکھیں کھولنی نہیں پڑیں بلکہ انگریزی محاورے کے مطابق منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے ۔ یوں تو ڈپٹی صاحب کے ہاں کئی بچے ہوئے مگر جئیے صرف تین ہی، دولڑکیاں اور ایک لڑکا۔

ابتدامیں ان کی تعلیم کا انتظام دادا ابا نے خود کیا تھا۔ قران شریف دادی اماں نے اپنے سب بچوں کو خود پڑھایا تھا۔ عربی فارسی اور اردو دادا ابا پڑھاتے تھے ۔ اُردو میں اُس وقت بچوں کے لئے کتاہیں ہی نہیں تھیں ۔ دادا ابا نے یہ کیا کہ ایک کتاب لڑکیوں کے لئے اور ایک لڑکے کے لئے لکھ دی ۔ اُس وقت دادا ابا سرشتہ تعلیمات میں تھے ۔ اتفاق سے اُس وقت کا انگریزی ڈائریکٹر صوبے کا دورا کرتے کرتے دادا ابا سے ملنے گھر پر چلا آیا ۔ اتفاق سے خورد سال میاں بشیر بھی کھیلتے کھیلتے ادھر آنکلے۔ صاحب نے محبت سے بلایا اور پوچھا۔ کیوں میاں کیا پڑھتے ہو ؟ میاں بشیر نے کہا ” اپنی کتاب پڑھتا ہوں ۔ لاکر دکھاؤں ہے صاحب نے کہا ” ہاں لاؤ یہ میاں بشیر دوڑ کر گئے اور گھر میں سے اپنی کتاب لے آئے ۔ صاحب نے کتاب کو کہیں کہیں سے دیکھا۔ کتاب کہاں لکھی تھی ، کتاب کا مسودہ تھا۔ بولے ”مولوی صاحب یہ تو بہت اچھی کتاب ہے ۔ آپ اسے چھپوا دیجئے۔ میاں بشیر نے کہا ” آپا کی کتاب بھی لاکر دکھاؤں صاحب نے کہا ” ضرور دکھاؤ ۔ میاں بشیر لپک کر بڑی آپا کی کتاب بھی لے آئے ۔ صاحب نے اسے بھی جستہ جستہ دیکھا، اور حیران ہوکر بولے۔ مولوی صاحب آپ نے ایسی اچھی اچھی کتابیں لکھ کر گھرمیں رکھ چھوڑی ہیں، انہیں فورا چھپوا دیجئے تاکہ سب بچے۔۔۔

ان سے فائدہ اُٹھائیں ۔ چنانچہ یہ کتابیں دادا ابا نے چھپوا دیں۔ ایک مراۃ العروس تھی اور دوسری مجھے ٹھیک یاد نہیں کہ چند پند تھی یا منتخب الحکایات ۔ ان دونوں کتابوں پر صاحب نے سفارش کر کے سرکار سے انغام دلوا دیا ۔ اس سے دادا ابا کو احساس ہوا کہ اچھی کتابیں لکھنے کی ان میں صلاحیت ہے۔ چنانچہ بچوں کے لئے مراۃ العروس کا دوسراحصہ بنات النعش لکھا اور لڑکوں کے لئے فارسی کی آسان گرامر صرف صغیر اور عربی کی گرامر مایعنیک فی اصرف لکھی۔ جب ڈپٹی صاحب کی یہ کتابیں شہرت کے پر لگا کر اڑیں اورگھر گھر چلی گئیں تو ہل من مزید کی آوازیں چاروں طرف سے آنے لگیں سرسید احمد خاں کی رفاقت کے بدولت ڈپٹی صاحب کو مسلم قوم اور کم معاشرے کی ابتر حالت کی طرف توجہ ہوئی اور خشک پند و وعظ کی بجائے انگریزی کی تقلید میں اصلاحی ناولوں کیا سلسلہ شروع کیا۔ توبتہ النصوح، ابن الوقت، فسانہ مبتلا اور ایامی اسی دور کی یادگار ہیں۔

 

میرا جی

 

شراب کی لت خدا جانے میراجی کو کہاں سے لگی ؟ جب لاہور میں انہیں تنیس

روپے ملتے تھے تب بھی وہ پیتے تھے۔ اور جب دہلی آئے اور پانچ گنی تنخواہ ملی تو اور زیادہ پینے لگے۔ پہلے رات کو پیتے تھے، پھر دن کو بھی پینے لگے پھر ہر وقت پینے لگے ۔ سوڈا یا پانی ملانے کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔ یونہی بوتل سے منہ لگا کر غٹاغٹ چڑھا جاتے تھے ۔ جب ریڈیو اسٹیشن پر آتے تو ایک ہاتھ میں کاپیاں اور کتابیں ہوتیں اور دوسرے میں آٹاچی کیسں۔ اس میں بوتل رکھی رہتی تھی۔ ذرا دیر ہوئی اور کہیں جاکر پی آئے۔ اس شراب نے میراجی کو تباہ کر دیا اور ان میں وہ تمام خرابیاں آتی گئیں جو بالآخر انکی اخلاقی موت کا باعث بن گئیں۔ ادھر تنخواہ لی اور ادھر قرض خواہوں اور شراب میں ختم۔ پھر ایک ایک سے اُدھار مانگا جارہا ہے ۔ میرا جی کے قدر دانوں نے انہیں سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں مانے اور گرتے ہی چلے گئے۔ پھر یہ نوبت آئی کہ قرض ملنا بند ہوگیا۔ انہوں نے اپنے مضامین اور نظموں کی کتابیں مرتب کر کرکے بچنی شروع ہیں۔ اس میں مجھ سے سابقہ پڑا۔ ایک کتاب لے لی، دولے لیں، گھر پہ ہر مہینے یا دوسرے مہینے ایک مجموعہ لے کر پہنچ جاتے ۔ میں انکار کرتا اور وہ اصرار میں انہیں سمجھاتا کہ میراجی میں آپ کی کتابیں نہیں چھاپ سکتا میرے پاس بیسیوں مسودے خریدے ہوئے رکھے ہیں، ان کے چھپنے

کی نوبت بھی نہیں آتی ، کاغذ نایاب ہے۔ مگر وہ کچھ ایسے بہانے تراشتے کہ مجھے مجبورا ان سے. مسودہ خریدنا پڑتا کبھی باپ کی بیماری کی خبر سناتے کبھی بھائی کی تعلیم کی مجبوری بیان کرتے۔ کبھی کہتے والد کی آنکھیں جاتی رہیں، آپریشن ہو گا۔ میں انکار کرتا تو اتنے ہراساں ہوتے کہ آن سے مسودہ لینا ہی پڑتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میرا جی بڑے گندے آدمی تھے۔ وہ اُن میں سے تھے جو کہتے ہیں کہ یا نہلائے دائی یا نہلائیں چار بھائی ۔ انہیں کبھی کسی نے نہاتے نہیں دیکھا، بلکہ منہ دھوتے بھی نہیں دیکھا۔ بال کٹوانے کے بڑے چور تھے ۔ وحشیوں کی طرح ہمیشہ بڑھے رہتے۔ اور ان میں کبھی تیل نہ ڈالتے اور نہ انہیں بناتے ۔ جب دہلی آئے تھے تو مونچھیں بھی مونڈ ڈالی تھیں۔ ایک دفعہ جانے دل میں کیا سمائی کہ چار ابرو کا صفایا کر گلے میں سادھوؤں کی سی کنٹھی بھی ڈال لی تھی۔ ہمیشہ سنجیدہ صورت بنا کے رہتے تھے، انہیں قہقہ مار کر ہسنتے کبھی نہیں دیکھا۔ باتیں اکثر ہسنے ہنسانے کی کرتے مگر خود کبھی نہ ہنستے تھے۔ بہت خوش ہوئے تو خندہ دنداں نما فرمایا۔ ان کے غچلے پن سے بڑی گھن آتی بھی۔ مگر یہ ان گھناؤنی چیزوں میں سے تھے جنہیں اپنے سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی قلندرانہ اور حرکتیں مجذوبانہ دو چار آدمیوں نے مل کر ایک کمرہ کہیں باڑے کی طرف لے رکھا تھا مگر رات کو اگر کہیں گھاس میں پڑا ہے تو وہیں سو گئے اور اگر پٹری پر لیٹ گئے تو وہیں صبح ہوگئی۔ ایک دو دن

نہیں برسوں یہی حال رہا ۔ شراب کے نشے میں میرآجی کو رونے کی دھن سوار ہو جاتی تھی اور وہ ایسے بےسدھ ہو جاتے کر تین بدن کا بھی ہوش نہ رہتا۔

 

سعادت حسن منٹو

 

دھیلا ڈیل، سوکھے سوکھے ہاتھ پاؤں، میانہ قد چمئی رنگ بے قرار آنکھوں پر سنہرے فریم کی عینک، کریم کلر کا سوٹ، سرخ چہپاتی ٹائی ایک دھان پان سا نوجوان مجھ سے ملنے آیا ۔ یہ کوئی چوبیس چھپیں سال اُدھر کا ذکر ہے۔ بڑا بےتکلف، تیز طرار، چرب زبان بولا۔ میں منٹو ہوں، سعادت حسن ۔ آپ نے ہمایوں کا روسی ادب نمبر دیکھا ہو گا ۔ اب میں ساقی کا فرانسیسی ادب نمبر نکالنا چاہتا ہوں :” پہلی ہی ملاقات میں اُس کی یہ ضرورت سے بڑھی ہوئی بے تکلفی طبیعت کو کچھ ناگوار گزری۔ میں نے اُس کا پانی اتارنے کے لئے پوچھا ۔ آپ کو فرانسیسی آتی ہے؟”

بولانہ نہیں !”

میں نے کہا ” تو پھر آپ کیا کر سکیں گے ؟” منٹو نے کہا یہ انگریزی سے ترجمہ کرکے میں آپ کا یہ خاص نمبر ایڈیٹ کروں گا۔ یہ میں نے کہا ” اپنا پرچہ تو میں خودی ایڈٹ کرتا ہوں۔ پھر ساقی کے چار خاص نمبر مقرر ہیں ۔ ان کے علاوہ اور کوئی نمبر فی الحال شائع نہیں ہو سکتا ” منٹو نے دال گلتی نہ دیکھی تو فوراً اس موضوع ہی کو ٹال گیا۔ اور رخصت ہونے سے پہلے مجھے پر واضح کر گیا کہ اگر کسی مضمون کی ضرورت ہو تو معاوضہ بھیج کر اس سے منگایا جا سکتا ہے۔

اس زمانے میں منٹو ترجمے ہی کیا کرتا تھا ۔ اس کی کتاب "سرگزشت اسیر چھپ کر آئی تھی۔ منٹو سے کبھی کبھی خط و کتابت ہوتی رہی ۔ اور اس کے چند مضامین ساقی میں چھپے بھی، مگر قلبی تعلقات اُس سے قائم نہ ہو سکے۔ مجھے یہی گمان رہا کہ یہ شخص بہت بہکا ہوا ہے ۔ شیخی خورا اور چھچھورا سا آدمی ہے ۔ اس میں ‘میں’ سما گئی ہے۔ زمانے کی چھری تلے آئے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائے پوری، پروگرام کے شعبے میں ن م راشد – انصار ناصری، محمود نظامی اور کرشن چندر ہندی کے مسودہ نویس اوپندر ناتھ اشک اور اردو کے منٹو اور میراجی تھے ۔ اس زمانے میں

منٹو کو بہت قریب سے دیکھنے کا مجھے موقع ملا۔

منٹو نے کچھ روپے جمع کرکے دو ٹائپ رائیٹر خرید لئے، ایک انگریزی کا اور ایک اردو کا ۔ اُردو کا ٹائپ رائٹر وہ اپنے ساتھ ریڈیو اسٹیشن روزانہ لاتے تھے۔ منٹو کے ذمے جتنا کام تھا اسے وہ کہیں زیادہ کرنے کے خواہش مند رہتے تھے ۔ روزانہ دوتین ڈرامے اور فیچر لکھ دیتے۔ لکھنا تو انہوں نے بالکل چھوڑ دیا تھا، کاغذ ٹائپ رائیٹر پر چڑھایا۔ اور کھٹا کھٹ ٹائپ کرتے چلے جاتے ۔ فیچر لکھنا اس زمانے میں بڑا کمال سمجھا جاتا تھا، مگر منٹو کے لئے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ذراسی دیر میں فیچر ٹائپ کرکے بڑی حقارت سے پھینک دیا جاتا

کہ لو یہ رہا تمہارا فیچر

منٹو کی اس تیز رفتاری پر سب حیران ہوتے تھے۔ چیز بھی اسی جچی تلی ہوئی کہ کہیں

انگلی دھرنے کی اس میں گنجائش نہ ہوتی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منٹو کو شراب پینے کی لت خدا جانے کب سے لگی۔ جب تک وہ دہلی رہے ان کی شراب بڑھنے نہیں پائی تھی۔ بمبئی جانے کے بعد انہوں نے پیسہ بھی خوب کمایا اور شراب بھی خوب پی ۔ جب پاکستان بنا تو وہ لاہور آگئے ۔ یہاں فلموں کا کام نہیں تھا، اس لئے انہیں قلم کا سہارا لینا پڑا۔ ہمارے ادب جیسی بنجر زمین سے روزی پیدا کرنا منٹو کا ہی کام تھا صحت پہلے ہی کون سی اچھی تھی۔ رہی سہی شراب نے غارت کر دی کئی دفعہ مرتے مرتے بچے ۔ روٹی ملے یا نہ ملے نہیں روپے روز انہیں شراب کے لئے ملنے چاہئیں۔ اس کے لئے انہوں نے اچھا برا سب کچھ لکھ ڈالا۔ روزانہ دو ایک افسانے لکھنا ان کا معمول ہو گیا تھا۔ انہیں لے کر کسی ناشر کے پاس پہنچ جاتے۔ ناشروں نے پہلے ضرورت سے انہیں خریدا ۔ پھر ہے ضرورت ۔ پھر اپر انے اور منہ چھپانے لگے دُور سے دیکھتے کہ منٹو آ رہا ہے تو دکان سے نکل جاتے منٹو کی اب بالکل وہی حالت ہوگئی تھی جو آخر آخر میں اختر شیرانی، اور میرا جی کی ہوئی تھی۔بے تکلف لوگوں کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتے اور جو کچھ جیب میں ہوتا نکال لیتے۔ اس میں سے گھر کچھ نہیں پہونچتا تھا ۔ شراب سے بچانے کی بہت کوشش کی گئی۔ خود منٹو نے اس سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو پاگل خانے میں داخل کرا لیا ۔ منہ سے یہ کافر لگی چھوٹ بھی گئی تھی مگر اللہ بھلا کرے دوستوں کا ایک دن پھر پلالئے۔ نتیجہ یہ کہ رات کو خون کی قے ہوئی ہسپتال پہونچایا

گیا ۔ مہینوں پڑے رہے اور جینے کا ایک موقع اور مل گیا ۔

 

جگر مراد آبادی

 

جگر صاحب ایک شریف النفس انسان تھے اور جہاں تک ممکن ہوتا کسی کو دکھ نہیں پہنچاتے تھے۔ جگر صاحب ایک سیر چشم آدمی تھے۔ روپیہ پیسہ ان کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ میں نے ان کا وہ زمانہ دیکھا ہے جب وہ شراب کے نشے میں دھت رہا کرتے تھے اور کوڑی کوڑی کو محتاج ۔ مگر میں نے آج تک کسی سے نہیں سنا کہ جگر نے کسی کے آگے باتھ پھیلایا ہو۔ مدہوشی میں بھی انہوں نے اپنی غیرت و خود داری کو ہاتھ سے

نہیں جانے دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ رسم میں پڑگئی تھی کہ بغیر جگر کے کوئی شاعرہ کامیاب نہیں ہوتا تھا۔ میں نے بہت سے ذہین شاعروں کو شراب سے تباہ وبرباد ہوتے دیکھا ہے۔ اختر شیرانی، میرا جی اور مجاز کا تو آخر میں یہ حال ہو گیا تھا کہ اسٹیج پر نہ صرف قے کر دیتے تھے بلکہ پیشاب بھی کر دیتے تھے اور لوگ اُنہیں اُٹھا کر اُن کے ٹھکانوں پہنچایا کرتے تھے جگر صاحب اتنے نہیں گرے تھے۔ انہیں پھر بھی ھوش رہتا تھا اور اُن کی طرح اول فول بکنے نہیں لگتے تھے ۔ اُن لوگوں میں اور بہت سی اخلاقی خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ جن کی وجہ سے لوگ اُن سے بھاگنے لگے تھے جگر صاحب نے کسی کی بہو بیٹی کو نہیں تاکا کسی سے بھیک نہیں مانگی : تانگے والوں اور چکلے والوں سے انہیں لڑتے ہوئے نہیں دیکھا اور ٹپتے ہوئے کبھی نہیں پائے گئے ۔ ان کی شراب خوری کے نقصانات ان ہی کی ذات تک محدود تھے دوسروں کو ان کا خمیازہ بھگتا نہیں پڑتا تھا ۔ اور اورں کی شاعری دم توڑتی چلی گئی ۔ جگر کی شاعری توانا سے توانا تر ہوتی چلی گئی ۔ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔ جگر کی شرافت نفس میں فرق نہیں آیا اور اسی وج سے اُن کی نفاست شاعری بھی قائم رہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button