
ریڈ کلف وہ چھری ہے،جو مسلمانوں کے سینے میں گھونپی گئی۔
3 جون کو جب پاکستان کا اعلان ہوا تو جونہ گڑھ،کشمیر،گجرات کے مسلمان بہت خوش تھے
کیونکہ یہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی۔
کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی تھی مگر اس کا راجہ سکھ ہری سنگھ تھا
جس نےماونٹ بیٹن آف گورنر جنرل ہندوستان “کے نام خط لکھا کہ میں کشمیر کا الحاق ہندوستان سے کرتا ہوں اور اسکا مثبت جواب۔۔پیارے ہری سنگھ۔۔۔
یہ دوخطوط اس شرمناک سازش اور اس ذلیل منصوبے کی دیسی کڑیاں تھیں
جس کی تکمیل کے لیے دلی سے لے کر وانگہ تک مسلمانوں کا قتل عام ہور ہا تھا
جس کے لیے اسی لاکھ انسانوں کو پاکستان کی طرف دھکیلا جارہا تھا۔
جس کے لیے ریڈ کلف کا ضمیر خریدا گیا تھا
جس کے لیے پاکستان کی فوجیں عملا باہر رکھی گئی تھیں اور جس کے لیے پاکستان کے حصے کا اسلحہ ہندوستان میں روک لیا گیا تھا۔
راجہ ہری سنگھ کی رگوں میں اس ڈوگرے کا خون تھا جس نے چند لاکھ چاندی کے سکوں کے عوض کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کی آزادی خریدی تھی اور ماؤنٹ بیٹن ان فرنگی تاجروں کا جانشین تھا جنھوں نے کشمیر کے مسلمانوں کی عزت اور آزادی کی قیمت وصول کی تھی۔
کشمیر کے پینتیس لاکھ مسلمان ایک بار پھر فروخت کیے جارہے تھے لیکن اب یہ لین دین ڈوگرہ استبداد اور ہندو فاشزم کے درمیان تھا۔
ماؤنٹ بیٹن آن بر ما اس شرمناک سودے میں محض ایک دلال کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔
ہندوستان کی اسٹیج پر خونیں ڈرامے کا ایک اکیٹ شروع ہو چکا تھا۔
ایک طرف نہرو اور پٹیل اپنے خونخوار بیٹریوں کی فوجیں لیے کھڑے تھے اور طرف ہری سنگھ اپنے درندہ خصلت ڈوگروں کے لشکر کی راہنمائی کر رہا تھا اور کشمیری مسلمان کی خون میں بلکتی، تڑپتی چیختی اور چلاتی ہوئی انسانیت ان کے درمیان پایہ زنجیر کھڑی تھی۔
اسٹیج کے پری کے پیچھے لارڈ ماؤنٹ بیٹن آف برما اس ڈرامے کے ڈائریکٹر کی حیثیت میں کھڑا تھا۔
بھیڑوں اور بھیڑیوں کا کھیل تھا اور مسلمان قربانی کے بکرے تھے۔