
بیس اپریل کو خوشی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جبکہ اسی دن بہار کا آغاز بھی ہوتا ہے، اگرچہ عوام اس وقت بے لگام مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں اور کافی حد تک ناامید کر دینے والی صورت حال ہے اور لوگ پوچھتے ہیں کہ ایک طرف اگر مہنگائی ہے تو کیا ایسے میں خوشی کے بارے میں بات کرنا درست ہو گا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ تمام انسان، جو ملکی سیاست اور معیشت کی موجودہ پریشان کن صورت حال کے باوجود خوش مزاج رہنا چاہتے ہیں اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہتے، ان کے لیے بیس اپریل خوشی کے عالمی دن کے طور پر آج بھی اہم ہے۔ اس لیے کہ حالات کیسے بھی ہوں، انسان کی خوش رہنے کی خواہش کبھی مرتی نہیں اور وہ بنیادی طور پر مثبت سوچ کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے ہر سال بیس اپریل کو خوشی کا عالمی دن منائے جانے کا فیصلہ 28 جون 2012ء کے روز کیا تھا اور پہلی مرتبہ یہ عالمی دن 2013ء میں منایا گیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد زمین پر آباد انسانوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ ان کی زندگیوں میں خوشی کتنی اہم ہوتی ہے۔
2015ء میں اقوام متحدہ نے دیرپا ترقی کے اہداف سے متعلق اپنے جو 17 مقاصد عملی طور پر متعارف کرائے تھے اور جن کے حصول کے لیے باقاعدہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا، ان کا اجتماعی مقصد بھی یہی تھا کہ عام انسان اپنی زندگی خوشی سے گزار سکیں۔
خوشی کے عالمی دن کے موقع پر ہی گزشتہ ایک دہائی سے ہر سال ایک فہرست بھی جاری کی جاتی ہے، جس میں دنیا کی سب سے زیادہ خوش اور مطمئن رہنے والی قوموں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔
دنیا بھر کے انسانوں میں اس بارے میں کئی طرح کی رائے پائی جاتی ہے کہ خوشی کس کو کہتے ہیں۔
ہمارے ایک دوست فرید خان کہتے ہیں کہ حقیقی خوشی مادی جائیداد اور اشیاء کے حصول سے نہیں ملتی بلکہ اس کا معیار بالکل مختلف ہوتا ہے۔
فرید خان کے بقول، ”انسان حقیقی طور پر خوش اسی وقت رہ سکتا ہے، جب اسے اپنی زندگی میں مقصدیت نظر آتی ہو اور اسے اپنے بارے میں یہ شعور بھی ہو کہ وہ کسی بھی طرح کے بحرانی حالات میں خود کو کسی خلا میں گرنے نہیں دے گا۔‘‘
ڈاکٹر عابد علی کہتے ہیں کہ خوشی کے حصول کے حوالے سے ہر کسی کا اپنا تجربہ درست ہی سہی‘ لیکن میرے خیال میں لوگوں کے خوش ہونے کے مواقع میں کمی کی سب سے بڑی وجہ بڑھتے ہوئے مالی اور معاشی مسائل ہیں۔ بڑھتے ہوئے مالیاتی مسائل شہریوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں اور انہیں نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ معاشی افراتفری بھی مہنگائی کی ایک وجہ ہے۔ بے شمار ٹیکسوں کا نفاذ بھی مہنگائی کا سبب ہے۔ سنا ہے جون میں جو بجٹ آئے گا حکومت اس میں نئے ٹیکس لگانے والی ہے۔ مہنگائی پہلے ہی ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے۔نئے ٹیکس مہنگائی کو مزید بڑھا دیں گے۔ ذخیرہ اندوزی اور رسد میں رکاوٹ بھی مہنگائی کا باعث بنتے ہیں۔ مہنگے سود پر لئے گئے بے دریغ غیر ملکی قرضہ جات بھی مہنگائی کا سبب ہیں۔ابھی تو آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط ملنی ہے۔ اس کے بعد دیکھئے گا مہنگائی کیا رخ اختیار کرتی ہے۔
سید ناصر شاہ کہتے ہیں کہ روز افزوں مہنگائی، غربت، بیروزگاری، خود کشیاں، بھوک اور جہالت، بڑھتی ہوئی دہشت گردی، سیاسی بے چینی، سیاسی رہنماؤں کی آپس کی لڑائیاں، مایوس کن خبریں، کرپشن اور مقدمات، افراتفری، لا قانونیت، ملک کے ہر بڑے شہر، قصبے اور گاؤں میں لوٹ مار، میں حیران ہوں کہ اتنے مسائل کے ہوتے ہوئے خوش کیسے رہا جا سکتا ہے؟
ہمارے ایک دوست فلک ناز اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ایک جگہ سے گزرتے ہوئے اونچی آواز میں میرے کانوں میں گلو کار رفیع کا ایک گیت گونجنے لگا تو میں وہاں پر رک گیا گیت کا جو تمہیدی شعر تھا وہ آج کے وقت کی بھرپور عکاسی کر رہا تھا جس میں حکمرانوں اور بیچاری غریب عوام کی طرف بھرپور اشارہ تھا۔
دل شاد تھا کہ پھول کھلیں گے بہار میں…
مارا گیا غریب اسی اعتبار میں۔
ایسے حالات میں خوشی کا حصول اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔
سید طاہر سید جان کہتے ہیں کہ،
نہ کلی وجہ نظر کشی نہ کنول کے پھول میں تازگی،
فقط ایک دل کی شگفتگی سبب نشاط بہار ہے،
سید طاہر سید جان کا مختصر پیغام ہے کہ خوشی بانٹنے سے ہی خوشی کا حصول ممکن ہے کیونکہ دوسروں کو خوشی دینے سے ہی یہ پلٹ جاتی ہے ۔
ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر ابرار احمد کا کہنا ہے کہ ہمارے اندر کا موسم خوشگوار ہو گا تب ہی ہم اپنے باہر بھی پرُ بہار اور دلدار ماحول تعمیر کرسکیں گے ۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ کھیل کود بھی خوشی کے حصول کیلئے نہایت ہی کار آمد ہے ۔
سابق صدر ڈسٹرکٹ بار طارق خان کہتے ہیں کہ یہ دو اہم سوال ہیں ، خوشی کے بارے میں ہر انسان کا اپنا ایک تصور ہے۔ کچھ لوگ دولت مند افراد کو خوش اور مسرور سمجھتے ہیں۔ کچھ مشہور لوگوں کو، کچھ کے خیال میں بڑے بڑے اعزازات پانے والے بہت خوش ہوتے ہیں۔بہر حال خوشی یہ ہے کہ ‘‘ایک مثبت احساس یا روح کی حالت جو اچھی قسمت یا کامیابی ملنے پر ظاہر ہو۔’’
نثار بابو کے مطابق خوشی سے مراد صرف یہ ہے کہ آپ جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ آپ کو اچھے لگیں، آپ مطمئن ہوں اور زندگی سے ہر لمحہ، ہر وقت اپنا حصہ وصول کررہے ہوں۔
لفظ خوشی اپنے اندر ایک مٹھاس رکھتا ہے۔ ہم زندگی میں ہمیشہ خوشی کی تلاش میں رہتے ہیں۔کبھی کبھی چھوٹی سی بات ہمارے دل کو خوشی سے بھر دیتی ہے اور کبھی ہمارے اندر کی اداسیاں بڑی بڑی کامیابیوں پر بھی ہمیں خوش نہیں ہونے دیتیں۔
صدر دیر قامی پاسون ملک شاہ نسیم کہتے ہیں کہ زندگی مشکل ہے اور خوشی کا حصول بے حد مشکل…. یہ واقعی سچ ہے۔ لہٰذ ا زندگی کے صدمات کے باوجود خوشی کی طلب ہرکسی کو ہوتی ہے۔
لیکن بعض اوقات کئی لوگوں کو اس بارے میں خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ خوشی حقیقت میں کیا ہے؟…. کچھ لوگ اسے موج میلہ اور تفریح منانا سمجھتے ہیں۔ تفریح منانے کا خیال بھی فرداً فرداً مختلف ہوتا ہے۔ کسی کو بھی ہر وقت تفریح میسر نہیں آسکتی۔ خوشی تفریح سے ملنے والے احساسات سے کہیں زیادہ گہرائی کی حامل ہے۔
نعیم جان کہتے ہیں کہ دولت کے ذریعے خوشی خریدی نہیں جا سکتی، دولت اہمیت ضروررکھتی ہے۔ اس سے عیش وآسائش حاصل کیا جا سکتاہے۔لیکن اس کے ذریعے خوشیاں خریدی نہیں جا سکتیں۔
‘‘اپنی کسی بھی پریشانی اور مصیبت پر زمانے یا دَور (age)کو الزام دینا انسان کی بہت پرانی اور دقیانوسی روایت رہی ہے۔ پریشانی، دباؤ اورتعلقات میں بگاڑیا انتشار کے ذمہ دار صرف اور صرف ہم خود ہوتے ہیں۔ لوگوں نے اپنی تباہی کا بٹنSelf-Destruct Button خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔
حمید فارمیسی کہتے ہیں کہ خوش ہونے کے تصور سے محروم کوئی بھی شخص خوش نہیں رہ سکتا۔ اگر آپ کے ذہن پر نفرت اور خود غرضی کے گہرے سائے چھائے رہیں تو خوشی کی روشنی ان سے چھَن کر آپ تک نہیں پہنچ سکتی۔
رضاء اللہ جونیئر کہتے ہیں کہ انسان اپنی مسرتوں میں اگر دوسروں کو بھی شریک کرلے تو اس کی مسرت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور خود غرضی سے زندگی بسر کرنے اور دوسروں کے دکھ درد کی طرف توجہ نہ کرنے سے مسرت کے بجائے محرومی کی تلخی کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔
ڈسٹرکٹ بار تیمرگرہ کے سابق صدر شاہ فیصل ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ زندگی خوشی، غم ، امتحان، آزمائش اور جدوجہد کا دوسرا نام ہے۔ جو انسان جتنا زیادہ محنتی، حقیقت پسند اور ہر حال میں ایڈجسٹ کرنے والا ہوگا وہی دراصل خوشی کو حاصل کرسکے گا۔
اقبال الرحمن ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ خوشی آدمی کے اپنے اندر ہوتی ہے اور جو شخص اندر سے خوش ہوتا ہے وہ اپنے باہر بھی خوشی کا سامان پیدا کرلیتا ہے۔ یاد رکھیے کہ اگر آپ کے اندر کا انسان زندہ ہو اور آپ واقعی خوش رہتے ہوں اور دوسروں کو خوش رکھنے کے اصولوں پر عمل پیرا ہوں تو آپ کے لیے خوشی کا حصول بہت آسان ہے۔
باچا محمد ٹی ایم اے تیمرگرہ کہتے ہیں کہ انسان کی سوچ ہی اسے مثبت انداز زندگی کے ساتھ خوشی بھی بخشتی ہے۔ اگر آپ واقعی دوسروں کے بارے میں دوستانہ اور ہمدردانہ رویہ رکھتے ہیں تو آپ خوشی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے ۔ اگر آپ اندر سے زندہ ہوں ۔ زندگی کی سختیوں کو بھی مثبت انداز میں جھیلنے کا حوصلہ رکھتے ہوں اور اپنے قول وفعل میں یکساں ہوں، اپنے دل میں دوسروں کے لیے اچھے جذبات رکھتے ہوں تو کوئی بھی آپ کو خوشی سے دور نہیں رکھ سکتا۔
چیمبر آف کامرس لوئر دیر کے سابق صدر واجد شعیب کے مطابق جس طرح ہمارا چہرہ ہماری اندرونی سوچ اور ہمارے کردار کا غماز ہوتا ہے اسی طرح ہماری سوچ پوری شخصیت کی تشکیل کرتی ہے۔
وہ لوگ جو ہرحال میں مطمئن اور مستقبل سے پر اُمید ہوں، غم یا پریشانی انہیں کبھی بھی مایوس یا زندگی سے بیزار نہیں کرسکتی۔ زندگی کچھ دینے اور لینے کا نام ہے۔ اگر آپ کسی کو خوشی دیں گے تب ہی آپ امید رکھ سکتے ہیں کہ کوئی آپ کی بھی خوشی کا سبب بنے گا۔
اسلامیہ ماڈل کالج بلامبٹ کے پرنسپل فریداللہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے اندر کا موسم خوشگوار ہوگا تب ہی ہم اپنے باہر بھی پربہار ماحول تعمیر کرسکیں گے۔ خوشی اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب ہم دوسروں کو خوشی دینا جانتے ہوں۔
سمارٹ سکول سسٹم بلامبٹ کے ڈایریکٹر عثمان رشید کا کہنا ہے کہ ہر جذبہ اپنی جگہ بہت نازک ہوتا ہے۔ جذبے انسان کے خیالات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ انسان کیونکہ حساس ہوتا ہے اور ہر اچھی اور بری بات کو محسوس کرسکتا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ خوبصورت اور نفیس جذبوں کو جلا بخشے۔
ایک دوسرے کے لیے اچھا سوچیے اور اچھا کیجیے پھر دیکھیے خوشی کس طرح آپ کی زندگی کا ایک مستقل جزو بن جاتی ہے۔ جو لوگ پرخلوص، بے غرض اور پراز محبت ہوتے ہیں وہ ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ اگر آپ کسی مشکل مسئلہ سے دوچار ہوں تب بھی اپنے اندر ہمت اور طاقت پیدا کیجیے تاکہ آپ ان نازک لمحات میں بھی خوش اور پرسکون رہ سکیں۔
سابق تحصیل ناظم تیمرگرہ ریاض محمد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اپنی زندگی کو کسی مقصد کے تحت گزارئیے۔ اگر آپ ایک بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں تو آپ خوشی سے محروم رہیں گے ۔ اپنی زندگی کو دوسروں کے لیے گزار کر دیکھیے، اس طرح آپ کو اندازہ ہوگا کہ اپنا وقت اور اپنی خوشیاں دوسروں میں بانٹنے سے آپ کو دی جانے والی خوشیوں سے کہیں زیادہ مقدار میں خوشیاں نصیب ہوں گی۔
اتنی سی بات یاد رکھیے کہ اگر آپ دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہیں اور دوسروں کے خیالات، احساسات اور جذبات کا خیال رکھتے ہیں دوسروں کو خوشیاں بانٹنے میں سخی اور فیاض ہیں تو پھر خوشیاں آپ کے دروازے پر دیر سویر ضرور دستک دیں گی۔
ڈسٹرکٹ یوتھ آفیسر لوئر دیر طارق شہزاد کہتے ہیں کہ خوشی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ ہم ہرحال میں شکر کرنا سیکھ لیں۔ شکر گزار بن کر آپ دیکھیں گے کہ آہستہ آہستہ آپ کے مسائل کم ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں قناعت اور میانہ روی جیسی صفات اپنے اندر پیدا کرنا ہوں گی۔ یہ وہ اوصاف ہیں جنہیں اختیار کرلینے سے ہماری زندگی آسان اور خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گی۔ آزمائششرط ہے……!